امریکہ کا سعودی عرب کیخلاف گھیرا تنگ

جمال خاشقجی کا قاتل کون؟جوبائیڈن کا محمد بن سلمان پر دباؤ بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے

ہفتہ 6 مارچ 2021

America Ka Saudi Arab Ke Khilaf Ghera Tang
محبوب احمد
امریکی خفیہ رپورٹ میں سعودی شہزادے محمد بن سلمان پر صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا الزام عائد کیا جانا یقینا ایک دھچکے سے کم نہیں ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق خاشقجی قتل میں ولی عہد کے ملوث ہونے کے متعلق مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پہلے سے معلوم تھا لیکن اس حقیقت کو منظر عام پر اس لئے نہیں لایا گیا کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی ایماء پر خفیہ رپورٹ کو دبا کر رکھا گیا تاکہ ریاض میں ان کے قریبی اتحاد کو خفت نہ اٹھانی پڑے لیکن اب اس راز سے پردہ ہٹانے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم یہ ہے کہ”گریٹر اسرائیل“ایجنڈے کی تکمیل کیلئے امریکہ پوری طرح متحرک ہو چکا ہے۔

نومنتخب امریکی حکومت کا یمن کیخلاف لگ بھگ 6 سال سے جاری جنگ میں اپنے اتحادیوں کی جانب سے جارحانہ کارروائیوں کے لئے حمایت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت فوری بند کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی دکھائی دے رہی ہے تاکہ مختلف اطراف سے محمد بن سلمان پر دباؤ ڈال کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دیگر عرب ریاستوں کی طرح سعودی عرب کو بھی آسانی کے ساتھ مائل کیا جا سکے۔

(جاری ہے)


یاد رہے کہ سعودی عرب اور 8 دیگر عرب ریاستوں جنہیں امریکہ،برطانیہ اور فرانس کی حمایت حاصل تھی نے 2014ء میں یمن کی ایک کمزور حکومت اور حوثیوں پر فضائی حملے کرکے ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا،اس تنازع میں لاکھوں یمنی باشندے فاقہ کشی پر بھی مجبور ہوئے۔عالمی سطح پر شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ اور القاعدہ کی جانب سے دہشت گردی کے عالمی خطرات کے باعث امریکہ کے خوشگوار تعلقات برقرار رکھنے کیلئے یہ خواہش ہے کہ محمد بن نائف جنہیں 2017ء میں محمد بن سلمان نے عہدے سے ہٹا دیا تھا سے معاملات طے کئے جائیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ سعودی عرب کے علاقائی حریف ایران کے لئے بھی ایک بہت بڑا تحفہ ہو گا۔

یاد رہے کہ محمد بن نائف سے متعلق یہ انکشاف کیا جا رہا ہے کہ وہ بدعنوانی کے الزام میں اس وقت حراست میں ہیں۔کیا کئی برسوں کی پابندیوں کے باوجود مشرق وسطیٰ میں بالادستی حاصل کرنے والے ایران نے لبنان،شام،عراق اور یمن میں اپنی پراکسی ملیشیاء کے ذریعے اسٹریٹجک رسائی کو بڑھا کر سعودی عرب کو ہر طرف سے گھیرے میں لے لیا ہے؟۔انٹیلی جنس چیف سعد الجبری کے ذریعے سی آئی اے کے ساتھ قریبی تعلق قائم کرنے والے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جو ایم بی ایس کے نام سے بھی مقبول ہیں برسوں تک شاہی خاندان میں امریکہ کے سب سے اہم حلیف رہے اور بطور وزیر داخلہ انہوں نے کامیابی سے القاعدہ کو بھی شکست دی لیکن اب جوبائیڈن ولی عہد محمد بن سلمان کے بجائے شاہ سلمان کے ساتھ معاملات طے کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔


فلسطین میں صیہونی ریاست کی ہٹ دھرمی سے جہاں مشرق وسطیٰ آج بدامنی اور خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے وہیں اقوام متحدہ،عالمی برادری اور امریکہ کا دوہرا معیار قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔اسلام اور فلسطین کے تشخص کا خاتمہ شروع دن سے ہی صیہونی حکومت کے پیش نظر رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ امریکی سرپرستی میں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے یہودی بستیوں کی تعمیر بدستور جاری ہے۔

اسرائیلی حکومت غزہ کی پٹی پر قبضے کے بعد علاقے میں سینکڑوں منصوبے بنا چکی ہے جن پر بڑی تیزی کے ساتھ عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔ٹرمپ کا ”مشرق وسطیٰ امن پلان“ جسے صدی کا ایک بڑا منصوبہ قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس سے فلسطینیوں کو علیحدہ ریاست حاصل کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا حقیقت میں صیہونیوں کو نوازنے کا ایک ڈھونگ تھا۔

دہائیوں تک عرب ممالک ہر محاذ پر بائیکاٹ کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ وہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے پر ہی اسرائیل سے تعلقات قائم کریں گے لیکن متحدہ عرب امارات”امن معاہدے“ کے نام پر اسرائیل کو خلیجی ممالک میں تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا تقریباً ایک ماہ بعد بحرین نے بھی اس فہرست میں اپنا نام رقم کروا دیا۔
1999ء میں شمال مغربی افریقہ میں عرب لیگ کے ممبر ملک مورتانیہ نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے تھے جو 2010ء میں ختم کر دئیے گئے تھے۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ امریکہ نے فلسطینیوں کے احتجاج اور قربانیوں کو پس پشت ڈال کر ہر دور میں ہی اسرائیل نوازی کا بڑھ چڑھ کر مظاہرہ کیا جس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2017ء میں امریکہ نے اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کیا۔سعودی عرب نے 2002ء میں ”عرب امن منصوبے“ کی تجویز دے کر یہ واضح کیا تھا کہ اگر اسرائیل فلسطین کو ریاستی حیثیت دے کر 1967ء میں جنگ کے دوران مشرق وسطیٰ کی قبضے میں لی گئی زمین سے مکمل انخلاء کرتا ہے تو اس کے بدلے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آسکتے ہیں۔

سعودی ولی عہد کا سابق صدر ٹرمپ پر یہ واضح کرنا کہ ”سعودی عرب کے اسرائیل سے تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آئیں گے جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہ ہو جائے“ یقینا”عرب امن منصوبے“ کا نقطہ آغاز تھا جسے نومنتخب جوبائیڈن انتظامیہ نے اب آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

America Ka Saudi Arab Ke Khilaf Ghera Tang is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 March 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.