کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی حرمت

کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کا سارا نظام 1962سے ہی ایک منتخب کونسل کے ذریعے چل رہا ہے جیسا کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ کونسل کل 20ممبران پر مشتمل ہوتی ہے یہ سارے لوگ فیلوز کے ووٹوں کے ذریعے آئینی طریقے سے منتخب ہوتے ہیں جو کہ سو فی صد شفافیت پر مشتمل ہے

Dr Nawaz Rashid ڈاکٹر نواز رشید پیر 3 جون 2019

College of Physicians And Surgeons Pakistan ke hurmat
سی ۔پی۔ ایس۔ پی یعنی کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان ایک عظیم الشان غیر سیاسی اور باوقار ادارہ ہے جو کہ 1962میں قائم ہوا اور اب تک ہزاروں ڈاکٹرز اس کے ذریعے پوسٹ گریجویٹ تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور پوری دنیا میں دولت وعزت کمار رہے ہیں۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جس ادارے کے ذریعہ آپ نے تعلیم حاصل کی ہو اُس سے آپکو خود رغبت اور محبت ہو جاتی ہے ۔

اور آپ اُسکی عزت اور وقار پر بھی کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتے، یہ ادارہ چاہے آپکا سکول ہو یا کالج ہو یا پھر یونیورسٹی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اکثر ڈاکٹر زFCPSکرنے کے بعد CPSPادارہ کیلئے کام کرکے بڑا فخراور خوشی محسوس کرتے ہیں اور اس کو اپنی honorاور prestigeسمجھتے ہیں ۔ مگر افسوس پچھلے کئی سالوں سے کچھ لوگ اسکی ساکھ کو وقتاًفوقتاًنقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، مثلاً سندھ حکومت کے ایک وزیر کا کیس سب کو معلوم ہے جب انہوں نے سیاسی مداخلت کرتے ہوئے CPSPکو تقسیم کرنے کی سازش کی جو کہ سب فیلوز نے شدید ردِعمل دیتے ہوئے ناکام بنادی ، پھر PMDCنے CPCPکو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی اور اللہ کے فضل سے سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے نے نہ صرف ناکام بنایا بلکہ CPSPکو PMDCمیں ایک ممبر کی حیثیت بھی دے دی گئی جس کا کریڈٹ پروفیسر ظفر اللہ چوہدری پروفیسر خالد مسعود گوندل پروفیسر ابرار اشرف کو جاتا ہے جنہوں نے یہ کیس 10سال تک لڑا اور آخر کار جیت گئے، پھر پچھلی حکومت نے بھی کوشش کی اس ادارے کو گورنمنٹ تحویل میں لے لیا جائے لیکن کونسل اور فیلوز کی بھرپور مزاحمت سے پھر اس کا راستہ روک لیا گیا۔

(جاری ہے)

کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کا سارا نظام 1962سے ہی ایک منتخب کونسل کے ذریعے چل رہا ہے جیسا کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ کونسل کل 20ممبران پر مشتمل ہوتی ہے یہ سارے لوگ فیلوز کے ووٹوں کے ذریعے آئینی طریقے سے منتخب ہوتے ہیں جو کہ سو فی صد شفافیت پر مشتمل ہے۔ مگر افسوس کچھ لوگ ہر دفعہ الیکشن کو متنازہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اس قسم کی ایک کوشش 2015میں کی گئی جب ایک گروپ نے الیکشن کے خلاف عدالت میں کیس دائر کر دیا جسکی وجہ سے الیکشن ایک ماہ تاخیر سے ہوئے مگر الیکشن منسوخ کروانے کی سازش دم توڑ گئی اس کے علاوہ مخالفین نے Friends of CPSPکے خلاف کھل کر منفی پراپیگنڈہ کیا اور عام میسجز اور سوشل میڈیا کے ذریعے انتہائی غلیظ زبان استعمال کی گئی جس میں کرپشن کے جھوٹے الزامات لگائے گے اور بھرپور کردار کشی کی مہم چلائی گئی تاکہ فیلوز کو بہکایا جا سکے۔

مگر سچ کو آنچ نہیں تونتیجہ یہ ہوا کہ "Friends of CPSP"گروپ نے کونسل اور فیکلٹی دونوں کے الیکشن میں کلین سویپ کیا ۔اسکے بعد حال ہی میں فروری 2019میں الیکشن کااعلان ہوا تومخالفین نے پھر منفی پراپیگنڈہ شروع کر دیاپھر وہی سوشل میڈیا کا غلط استعمال اور جھوٹے میسجز اور جھوٹے الزامات مثلاًDawn Newsمیں یہ خبر چلائی گئی کہ CPSPنے 2000لوگوں کو Honorary FCPSکی ڈگری دی ہے، جو کہ مکمل جھوٹ ثابت ہوئی کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ CPSPکے قائم ہونے سے لیکر اب تک تقریباً190لوگوں کو Honorary FCPSکی ڈگری دی گئی ہے جوکہ مکمل میرٹ پر دی گئی یہی خبر 2015کے الیکشن میں بھی چلائی گئی تھی اور اس وقت بھی مخالفین کی جگ ہسائی ہوئی تھی۔

اس کے علاوہ مزید افسوس یہ ہے کہ اس دفعہ پھر مختلف عدالتوں میں تین کیس دائر کیے گئے جو کہ تینوں ہی خارج ہوئے اور اس طرح مخالفین کو کافی شرمندگی اٹھانی پڑی ۔ اس کے بعد پھر انہوں نے الیکشن والے دن یعنی 23فروری 2019کی صبح کسی سول کورٹ کا Stay Orderلے آئے اور کہا کہ پولنگ نہیں ہونے دیں گے مگر موقع پر موجود تمام فیلوز نے انکی اس بات پر کوئی کان نہیں دھرا اور یوں پولنگ پرسکون طریقے سے شروع ہوئی اور پر امن طریقے سے اختتام پزیر ہوئی۔

 یاد رہے کہ ہائی کورٹ پہلے سے انکی رِٹ خارج کر چکی تھی اس لیے اب سول کورٹ کاStay Order بنتا نہیں تھا۔بحرحال اس دفعہ ایک بار پھر سچ جیت گیا اور باطل ہار گیا اور یوCPSPنے مسلسل دوسری دفعہ مکمل کلین سویپ کیا یہ Friendsگروپ والوں کی مسلسل چوتھی جیت تھی۔ اگر انکے پچھلے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو 2007 کے الیکشنمیں ان کی پہلی جیت جس میں کونسل کی 20میں سے 18سیٹیں ،2011میں 20میں سے 19سیٹیں پھر2015 اور 2019میں میں کونسل اور فیکلٹی الیکشن میں ٹوٹل کلین سویپ کیا ۔

2019کاالیکشن ختم ہونے کے بعد بھی مخالفین نے منفی پراپیگنڈہ نہ چھوڑا مثلاً کچھ دنوں کی بات ہے کہ انہوں نے دنیا نیوز کے ایک پروگرام حسبِ حال میں ایک اینکرکے ذریعے لوگوں کو انتہائی جھوٹی اور افسوسناک معلومات دیں یعنی یہ کہا گیا کہ CPCPکے سربراہ پروفیسر ظفر اللہ چوہدری پچھلے 24سالوں سے اس ادارے کو چمٹے ہوئے ہیں اور لاہور میں موجود چاروں بڑے ہسپتالوں کے سربراہ وہ خود اپنی مرضی سے لگواتے ہیں تاکہ ووٹ لینے کے لیئے انکو یا ان کے ماتحت بندوں پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سراسر جھوٹا الزام ہے کیونکہ CPSPکا صدر نہ تو ان سربراہوں کی تعیناتی کر سکتا ہے اور نہ اُسکا اختیار ہے دوسری بات یہ ہے کہ فیلوز پر بھی کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا کہ وہ کس گروپ کو ووٹ دیں پھر وہ بچے تو نہیں پڑھے لکھے لوگ ہیں اس لیے وہ کسی کے دباؤ میں بھی آکر ووٹ نہیں دیں گے،رہی بات پروفیسر ظفر اللہ چوہدری کی جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ پچھلے 24سالوں سے کیوں ادارے کو چمٹے ہوئے ہیں تو یہ ایک الزام ہے کہ عقل مند کو بھی یہ بات سمجھ آتی ہے کہ فیلوزہی انکو منتخب کرتے ہیں تو وہ صدر بنتے ہیں خود بخود تو وہ اس ادارے کے سربرارہ بن ہی نہیں سکتے تو اس لیے اس میں اِن کا تو کوئی قصور نہ ہوا۔

پروفیسر ظفر اللہ چوہدری ایک غیر متنازہ وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی زندگی CPSPکے لیے وقف کر رکھی ہے اور پچھلے کئی سالوں سے CPSP ادارے کے لیے گراں قدر کامیابیاں حاصل کی ہیں، خاص کر بین الاقوامی سطح پر CPSPکو روشناس کروایا جس میں سعودی عرب ، یو اے ای، انگلینڈ ، آئر لینڈ، امریکہ اور چائنہ شامل ہیں ، پروفیسر ظفر اللہ چوہدری نے CPSPکی ترقی کی خاطر اپنی ذاتی پریکٹس چھوڑی گھر بار چھوڑا اور کراچی جا کرآفس کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور ماشااللہ ہر وقت کالج کو ترقی دینے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں ، اس لیے یہ کالج کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہیں، پروفیسر ظفر اللہ چوہدری صاحب کی عظیم لیڈر شپ اور عظیم ویژن کی وجہ سے آج CPSPایک باوقار بین الاقوامی ادارہ بن چکا ہے۔

آئیے اب اس بات کا تجزیہ کرتے ہیں کہ آخر کار فرینڈز گروپ کے لوگ ہی کیوں پچھلے کئی سالوں سے مسلسل الیکشن جیت رہے ہیں اسکی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب بھی کسی گروپ کا نام تشکیل دیا جاتا ہے تو اسکے پیچھے کوئی تخیل آئیڈیا سوچ یاوژن ہوتا ہے اب آپ غور کریں کہ ان لوگوں نے اگر اپنے گروپ کا نام فرینڈز آف سی پی ایس پی رکھا تو انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ CPSPکے واقعی فرینڈز ہیں یعنی اس ادارے سے مخلص ہیں اور یوں اس ادارے کو عزت اور شہرت کی بلندیوں تک لیکر جانا چاہتے ہیں ۔

دوست وہی ہوتا ہے جس مشکل وقت میں کام آئے اس طرح جب بھی CPSPکی عزت اور وقار اور معیار پر حملہ ہونے لگا تو یہ لوگ ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ۔فرینڈز گروپ میں جتنے لوگ بھی ہیں وہ واقع مخلص اور کام اور محنت کرنے والے ہیں ،مثلاً پروفیسر عامر زمان خان نے کنٹرولر امتحانات کے حوالے سے بہت خوبصورتی اور دیانت داری سے اپنے فرائض سر انجام دیے اسکے علاوہ بھی مختلف فورم پر کام رکرتے رہے ۔

 پروفیسر محمود ایاز نہایت محنت ، لگن اور ایمان داری کے ساتھ نیشنل ریذیڈنسی پروگرام کو چلارہے ہیں جو کہ اتنا آسان نہیں ہے۔پروفیسر اصغر بٹ اور پروفیسر شعیب شفیع نے اپنے اپنے لیول پر اس ادارے کی کافی خدمت کی ہے اگر ماضی کی بات کی جائے تو پروفیسرمحمد امجد صاحب کا نام لینا ناگزیر ہے کہ جنہوں نے کنٹرولر امتحانات اور دوسرے کاموں کے لحاظ سے بڑی بڑی ذمہ داریاں نبھائیں اور اپنے قیمتی مشوروں سے بھی کونسل کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

پھر ایک اور اعلی اور قد آور شخصیت کا نام ہے پروفیسر ابرار اشرف جو اب کونسل کے باقاعدہ رکن ہیں اور جنہوں نے ماضی میں CPSPکے لیے بہت کام کیا خاص کر مختلف قسم کی ورکشاپس کروانے میں انکا بڑا اہم رول رہا ہے حال ہی میں میو ہسپتال میں سرجیکل ٹاور کی جلد تکمیل میں انکا مرکزی کردار رہا جسکا اعتراف سب نے کیا یہ منصوبہ کئی سالوں سے التوا کا شکار تھا انہی کی کاوشوں کی دیکھتے ہوئے اب انکو CPSPکیمپس کالا شاہ کاکو کا پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی لگا دیا گیا ہے جو کہ بڑااحسن فیصلہ ہے ۔

اب میں ایک اور اعلی شخصیت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور وہ ہیں پروفیسر محمد طیب جنہوں نے نہ صرف گائنی کے شعبہ کے لیے بلکہ CPSPکے دوسرے کاموں میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس کے علاوہ پروفیسر اصغر نقی، پروفیسر ریاض ورائچ، پروفیسر ارشاد صاحب، پروفیسر رخشندہ رحمان، پروفیسرزہرہ خانم اور پروفیسر شمسہ ہمایوں نے بھی CPSP کی بہتری کے لیے بہت کام کیاہے اور ابھی بھی اسی طرح فرینڈز گروپ کے باقی تمام لوگ نئے یا پرانے سب کی سوچ مثبت ہے کہ CPSPکو پروان چڑھانا ہے۔

کچھ اور لوگ بھی ایسے ہیں جو کہ کونسل کے باقائدہ رکن تو نہیں ہیں مگر پھر بھی وہ فرینڈز کے ساتھ ہمیشہ شانہ بشانہ کھڑے رہتے ہیں اور CPSPکے لیے کام کرتے رہتے ہیں ان میں مثلاً پروفیسر وارث فاروقہ ، پروفیسر زاہد کمال صدیقی ، پروفیسر یار محمد ،پروفیسر غلام مصطفی آرائیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں،اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد عزیر، ڈاکٹر فواد کریم، ڈاکٹر ظہیر اور ڈاکٹر سمیع اللہ بھی CPSPکے لیے بے لوث خدمت کر رہے ہیں۔

آخر میں اب میں اس شخص کی بات کرنے لگا ہوں جو کہ کسی تعارف کا محتاج نہیں اور وہ ہیں پروفیسر خالد مسعود گوندل جو کہ فرینڈز آف سی پی ایس پی کے لیڈر اور مین اینکر پرسن ہیں۔آپ ایک انتہائی شریف النفس معزز اور مذہبی انسان ہیں ، پروفیسر گوندل صاحب پچھلے 12سال سے کونسلر ہونے کے علاوہ CPSPمیں مختلف عہدوں مثلاًریجنل ڈائریکٹر اور سینئر وائس پریذیڈنٹ پر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اس کے علاوہ ماضی میںDirector International Affairs of CPSP بھی رہے ہیں۔

اب ایک نظر ڈالتے ہیں گوندل صاحب کی 24گھنٹے کی مصروفیات پر گوندل صاحب ایک انتہائی محنتی دیانتدار تجربہ کار اور پرکشش شخصیت کے مالک ہیں،اگر انکے 24گھنٹوں کے شیڈول کو دیکھیں تو یہ ہر وقت کوئی نہ کوئی کام کرتے ر ہتے ہیں جس سے میڈیکل پروفیشن کی بہتری ہو سکے ۔آجکل آپ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے دوسرے ریگولر وائس چانسلر ہیں اور پروفیسر صاحب کے لیے کتنے فخر کی بات ہے کہ جس کالج سے ڈاکٹر بنے اسی میں آکر وائس چانسلر لگے۔

اور کنگ ایڈورڈ کی تاریخ میں پہلی بار سب کو احساس ہوا کہ واقع کوئی ڈیلور کرنے والا VC آیا ہے۔یونیورسٹی میں ہر طرف ایک Thrillاور Dynamismنظر آ رہا ہے جس سے ریسرچ اور دوسرے علمی پروگرام عروج پر ہیں۔VCصاحب ہر جگہ پرفارم کرتے نظر آتے ہیں چاہے وہ انکا آفس ہو یا آفس سے باہر، آفس میں شام تک کام کرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات سرکاری چھٹی کے باوجود بھی آفس آکر کام کرتے ہیں۔

آفس میں بیٹھ کر تمام سائلین کی بڑے تحمل سے بات سنتے ہیں اور کبھی بھی کوئی کام میرٹ کے بغیر نہ کرتے ہیں اور نہ ہی جائز کام میں روڑے اٹکاتے ہیں۔گوندل صاحب نے KEMUکا چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلے Quality Enhascement Cell کو فروغ دیا۔اور HECکے Visitکے بعد جلد ہی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی Rankingمیں اوپر چلا گیا، اس کے بعد Annals of KEپر فوری توجہ دی گئی اور چند مہینوں میں اسکو International Recognition مل گئی اور KEکے جرنل کو وہ مقام مل گیا جو پچھلے کئی سالوں میں نہیں مل سکا اس سلسلے میں کمیونیٹی میڈیسن کی پروفیسرڈاکٹر سائرہ کی خدمات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جو کہ ایک عرصہ سے KEکے جرنل کے لیے کافی محنت کر رہی ہیں، پھر KEمیں جو بھی کانفرنس اور ورکشاپس ہوتی ہیں ان میں گوندل صاحب باقائدہ سے شرکت کرتے ہیں اور خوب ڈائریکٹرز کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

یہ پہلے VCہیں جو انتظامی امور کے علاوہ کلنیکل کے شعبے یعنی سرجری میں آپریشن تھیٹر میں بھی خدمات سر انجام دیتے ہیں،کبھی کبھی Studentsکو لیکچر بھی دے دیتے ہیں اور فائنل آئر کی CPCمیں اکثر آتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ Studentsکے دوسرے مسائل خاص کر ہوسٹل کے مسائل فوری حل کرتے ہیں چاہے انکو رات کے 2بجے کیوں نہ جانا پڑے،ذاتی طور پر جا کر مسلہ حل کرتے ہیںKEکے تمام ڈاکٹرز کے علاوہ انکو دوسرے تمام ملازمین سے بھی ہمدردی ہے اور انکی بات کو غور سے سنتے ہیں اور ان کے مسائل حل کرتے ہیں۔

گوندل صاحب کا خواب ہے کہ KEMUکو پاکستان کی نمبر ون یونیورسٹی بنانا ہے۔اللہ پاک اس خواب کو پورا کرنے میں ان کی مدد کرے ۔اامین ۔
KEMUمیں اگر انفراسٹرکچر کی بات کی جائے تو وہاں بھی گوندل صاحب پرفارم کرتے نظر آتے ہیں ،لڑکیوں کے ہاسٹل کا مسلہ انکو کرائے کے گھروں میں رہنا پڑتا تھا لیکن گوندل صاحب نے فوری الیکشن لیتے ہوئے نئے ہاسٹل کی تعمیر فوراً مکمل کر وا دی ہے پھر انہوں نے یونیورسٹی کے اندر ایک کثیر المنزلہ عمارت کی تعمیر بھی شروع کروا دی ہے جس میں جدید ترین سہولیات میسر ہونگی اور اس میں Basic Sciencesکے مختلف شعبے بنیں گے ایک اور خوشی کی خبر یہ ہے کہ مریدکے میں KEکا نیا کیمپس جسکا ماڈل 2015میں تیار کیا گیا تھا وہ سرد خانے میں پڑا ہوا تھا اور گوندل صاحب نے اس میں جان ڈال دی ہے۔

اور اب وہ بھی انشااللہ آئندہ چند سالوں میں مکمل ہو جائے گا یہ منصوبہ تقریباً230ایکٹر اراضی پر مشتمل ہے وہ کنگ ایڈورڈ جس کے معیار میں کمی آگئی تھی اب صرف چند ماہ میں دنیا میں پھر بلند مقام حاصل کر گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے گوندل صاحب فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں بھی تقریباً5ماہ کے عرصے میں وہ کام کر گئے جو پچھلے کئی سالوں میں نہیں ہوئے تھے اور جب انہوں نے یونیورسٹی چھوڑی تو کئی آنکھیں اشکبار تھیں۔

اتنے قلیل عرصے میں تمام ڈاکٹرز اور دوسرا سٹاف اتنے دیوانے ہو گئے تھے کہ وہ جذبات پہ قابو نہ رکھ سکے۔گوندل صاحب جہاں بھی جاتے ہیں اتنے گہرے نقوش چھوڑ کر آتے ہیں کہ لوگ کئی سال تک انکو یاد کرتے رہتے ہیں۔
اب ہم CPSP کے لیے گوندل صاحب کی پچھلے کئی سال سے جاری و ساری خدمات کا تذکرہ کرتے ہیں
2007سے پہلے پوسٹ گریجویٹ سٹوڈنٹس کو کئی مسائل کا سامنا تھا ان میں سب سے بڑا مسلہ صSynopis اور Dissertationکا تھا آپ حیران ہوں گے یہ سن کرکہ ان دونوں چیزوں کو کئی کئی مہینے او رسال لگ جاتے تھے منظوری ہونے تک جس کی وجہ سے کئی PGسٹوڈنٹس کے FCPSپارٹ ون کی مقرر کردہ 7سال کی مدت ختم ہو گئی اور وہ FCPSپارٹ ٹو میں appearنہ ہو سکے اور یوں ان کا مستقبل داؤ پر لگ گیا بعض طالب علم ڈپریشن میں چلے گئے ۔

بعض سٹوڈنٹس نے تنگ آکر FCPSہی چھوڑ دیا ،اسی طرح امتحانات کے طریقہ کار کے حوالے سے بھی کافی مسائل تھے۔
دراصل اس دور میں مسائل حل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہCPSP Officialsاور PGسٹوڈنٹس میں ایک بہت بڑا Communication Gapتھا جسکی اصل وجہ ہائی آفیشلز کی آمرانہ اور متکبرانہ سوچ تھی جسکی وجہ سے سٹوڈنٹس حتی کہ اُن کے آفس میں داخل ہونے سے بھی ڈرتے تھے ۔

لیکن یاد رکھیے کہتے ہیں کہ:
جبر کی آگ ہمیشہ تو نہیں جل سکتی۔
چاہے خورشید قیامت ہو وہ ڈھلتا بھی تو ہے
 درحقیقت اُس وقت CPSPپر چند مخصوص لوگوں کا قبضہ تھا جس کی وجہ سے دوسرے لوگوں کی بات جلدی نہیں سنی جاتی تھی۔ پھر آخر کار کیا ہوا پروفیسر خالد مسعود گوندل اور انکی ٹیم نے 2007میں بڑی بہادری اور ذہانت سے کونسل کا الیکشن لڑا اور واضع برتری سے آمریت کو شکست دی اور یوں کونسل کی 20میں سے 18سیٹیں جیت لیں۔

اس طرح گوندل صاحب نے ایک انقلاب برپا کر دیا پورے پاکستان میں ایک خوشی کی زبردست لہر دوڑ گئی ۔Students PG اور فیلوز نے شکرانے کے نوافل ادا کیے گوندل صاحب اور انکی ٹیم یعنیFriends of CPSP کی جیت لوگوں کے لیے آکسیجن بھری تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی اور یوں مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور اداس و مایوس چہروں پر مسکراہٹیں واپس لوٹ آئیں اس وقت پروفیسر ظفر اللہ چوہدری کو صدر منتخب کیا گیا اور گوندل صاحب کو ریجنل ڈائریکٹر لاہور بنا دیا گیاجنہوں نے آتے ہی زبردست انقلابی اقدامت کیے۔

 سب سے پہلےNull & Void Part-1کا دورانیہ 10سال کر دیا گیا جسکی بدولت مایوس لوگوں نے FCPSمکمل کیا ۔ اسی طرح Dissertation اور Synopsis کے سلسلے کو انتہائی تیز رفتاری سے منظوری کی طرف لیجایا گیا اور سالہا سال سے زیر التوا کیس چند مہینوں میں مکمل کر لیے گئے اور اس طرح کئی لوگوں کا مستقبل تباہی سے بچ گیا۔ اس طرح گوندل صاحب نے صدر صاحب کی مدد سے CPSPمیں کئی مثبت اصلاحات کیں جنکو خوب پزیرائی ملی اور ابھی تک مل رہی ہے ۔

پچھلے 12سال میںFriends of CPSPنے جو اصلاحات کیں انکی تفصیل اس طرح سے ہیں۔
مندرجہ بالا اصلاحات کی وجہ سے ہی Friends of CPSPنے 2007سے لے کر اب تک مسلسل چوتھی بار CPSPکا الیکشن جیتا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے کام اکیلا بندہ نہیں کر سکتا تھا بلکہ Friendsکی پوری ٹیم کو کریڈٹ جاتا ہے لیکن یاد رکھیے ٹیم کے ممبر جتنے مرضی اچھے پا برے ہوں ان پر لیڈر کا اثر ضرور ہوتا ہے۔

لیڈر ایک شیر ہو تو اسکی ٹیم میں 100گیڈر بھی ہوں تو وہ انکو ایک نہ ایک دن ضرورشیر بنا لے گا اور اگر ٹیم میں 100شیر ہوں مگر لیڈر ہی گیڈر ہو تو ٹیم کو چلانا مشکل ہو جائے گا۔
میرا خیال ہے پروفیسر ظفر اللہ چوہدری اور پروفیسر خالد مسعودگوندل جیسے شیر دل لیڈر آپ نے کم ہی دیکھے ہوں گے جو کہ ہر معاملے میں فرنٹ سے لیڈکرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پروفیسر ظفر اللہ چوہدری کے وژن کہ وجہ سے ٹیم آگے چل رہی ہے مگر ٹیم کو آگے چلانے میں پروفیسر گوندل صاحب ایک بہت بڑے اور main anchorکا رول ادا کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ لیڈر اچھا اور صاف کردار کا مالک ہو تو وہ اپنی ٹیم میں بھی ویسے ہی لوگ رکھتا ہے اس لیے اگر آپ تجزیہ کریں تو گوندل صاحب کی ساری ٹیم میں کام کرنے والے لوگ ہیں۔

یہ سارے لوگ بلند و بالا اخلاق اور میٹھی گفتگو کے مالک ہیں۔
یہ سب لوگ PGsاور فیلوزکے مسائل کو فوری حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
صرف پروفیسر خالد مسعود گوندل کی بات کی جائے تو انکا جواب نہیں کہ جن کے بارے میں خود پروفیسر ظفر اللہ چوہدری صاحب معترف ہیں پچھلا الیکشن جیتنے کے بعد فیلوز کی ایک میٹنگ میں چوہدری صاحب نے خود اعتراف کیا کہ مخالف ٹیموں میں واضع فرق صرف اور صرف گوندل صاحب کی شخصیت تھی۔

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ گوندل صاحب کو پورے میڈیکل پروفیشن میں کیوں اتنی پزیرائی ملتی ہے اور انکی شخصیت کیوں اتنی مسحورکن ہے اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:-
# سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ وہ آج کل کے دور کے لحاظ سے بہت اچھے انسان پہلے اور پھر اچھے ڈاکٹر ہیں۔ حقوق العباد ان میں کُوٹ کُوٹ کر بھرے ہوئے ہیں اتنے بڑے بڑے عہدے یعنی وائس چانسلر KEMUاور ریجنل ڈائریکٹر و نائب صدر CPSPہونے کے باوجود دماغ میں بو نہیں ہے عاجزی اور انکساری انکے دل و دماغ میں رچی ہوئی ہے۔

آپ انتہائی ملن ساز شخصیت ہیں کوئی چھوٹا ہو یا بڑا سب سے گرم جوشی سے ملتے ہیں اور ہر وقت انکے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔ انکا سٹائل مکمل طور پر عوامی ہے کسی بھی شخص کا دل نہیں دکھاتے PGsاور فیلوز کے لیے انکے آفس کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں،حتی کہ آفس کے باہر بھی مسائل سنتے ہوئے بھی نہیں کتراتے ۔کسی بھی ادارے کی کامیابی کے لیے سب سے پہلی چیز Communication Gapکو ختم کرنا ہے جو کہ گوندل صاحب نے 2007میں پہلی دفعہ الیکشن جیتنے کے بعد ہی ختم کر دیا اور یوں وہ بلا امتیاز ہر ایک کی بات سنتے اور فوری ایکشن لیتے ہیں ۔

کسی مخالف کی سازش پہ کان نہیں دھرتے بس اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
Communicaiton Gapکو ختم کرنے کے لیے گوندل صاحب نے جو سب سے بڑا اور انفرادی قدم اٹھایا جس پر سابقہ کونسل نے کبھی عمل نہیں کیا تھاوہ ہے لاہورسنٹر پرکھلی کچہری کا قیام ۔جس نے تمام PGsاور فیلوز کی تقدیر بدل کر رکھ دی گوندل صاحب تقریباًپچھلے 12سال سے مسلسل منگل کے دن پچھلے ٹائم کھلی کچہری لگا رہے ہیں۔

اور اگر وہ لاہور میں ہوں تو کبھی بھی کھلی کچہری میں غیر حاضر نہیں ہوئے۔اتنی سخت مصروفیت کے باوجود باقاعدگی سے کھلی کچہری لگانا کوئی معمولی بات نہیں۔
کھلی کچہری کا لوگوں کواس قدر فائد ہ ہوتا ہے کہ وہ بلا جھجک اپنا مسلہ پیش کرتے ہیں جو کہ گوندل صاحب موقع پر ہی فوری احکامات جاری کرکے چند منٹوں میں مسلہ حل کروادیتے ہیں۔بشرطیہ کہ مسلہ جائز اور قانون کے دائرے میں ہو ۔

سٹوڈنٹس اور فیلوز کو بھی کس قدر فائدہ ہے کہ انہیں اِدھر ُادھر دھکے نہیں کھانے پڑتے بلکہ سیدھا ریجنل سنٹر آجاتے ہیں اور اپنے مسائل حل کروا لیتے ہیں۔
اسکے علاوہ CPSPکی تمام ورکشاپ اور تمام دوسری سرگرمیوں سے بھی آگاہ رہتے ہیں اور فوری ہدایات جاری کرتے رہتے ہیں ۔بعض اوقات تو رات گئے تک ریجنل سنٹر پر ڈیوٹی دیتے رہتے ہیں۔یاد رہے گوندل صاحب اس ڈیوٹی کی کوئی تنخواہ نہیں لیتے۔

گورنمنٹ سروس کے علاوہ گوندل صاحب نے اپنی زندگی CPSPکے لیے وقف کی ہوئی ہے،اور اپنی ذاتی پریکٹس کو بھی قربان کیا ہوا ہے۔ CPSPکے تمام سینٹروں خصوصاًہیڈ آفس کراچی سے مسلسل ربطے میں رہتے ہیں۔انہوں نے PGsاور فیلوز کے مابین دوستی اور بھائی چارے کے کلچر کو مکمل فروغ دیا ہے۔ گوندل صاحب جہاں ڈاکٹرز کو مطمئن رکھتے ہیں وہاں CPSPکے تمام ملازمین کو بھی عزت دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آج تک CPSPکے کسی بھی ملازم کو نوکری سے کبھی فارغ نہیں کیا بلکہ غلطی کرنے پر پیار سے سمجھاتے ہیں اور کبھی کسی کی عزت نفس کو مجروع نہیں کرتے انکا حسن سلوک ایک روحانی باپ سے کم نہیں ہے ، جب وہ Director General International Afairsتھے انہوں نے CPSPکو قومی سطح کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی بہت اچھی طر ح اُجاگر کیا جسکی وجہ سے آج CPSPکی انگلینڈ،آئر لینڈ، برمنگھم ، چائنہ ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بہت عزت ہے ، اور یہاں PGsاور فیلوز کام کر کے پیسہ اور عزت دونوں کما رہے ہیں۔

گوندل صاحب نہایت دھیمے مزاج کے بندے ہیں اور انکو شازونادر ہی غصہ آتا ہے اور چھوٹے بڑے سب کے ساتھ پیار کا رویہ رکھتے ہیں ۔یادداشت اللہ نے ان کو اتنی دی ہے کہ اکثر لوگوں کو نام کے ساتھ بلاتے ہیں،انتہائی ذہین ہونے کے ناطے آئے دن نت نئے آئیڈیاز انکے ذہن میں آتے رہتے ہیں اس طرح سے ادارہ اور دوسرے لوگ مستفید ہوتے ہیں مندرجہ بالا خصوصیات کے علاوہ آپ ایک اچھے اور مثبت انسان بھی ہیں اورCPSPکیکسی بھی الیکشن کی مہم کے دوران کبھی بھی کسی مخالف گرپ پر کیچڑ نہیں اچھالابلکہ صرف اپنا ہی پیغام دیا۔

گوندل صاحب تنقید برائے تنقید کے قائل نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح کے قائل ہیں۔ایک اور خوبی گوندل صاحب کی یہ بھی ہے کہ وہ موبائل کے ذریعے پورے پاکستان حتی کہ باہر کے PGsیا فیلوز کے ساتھ بھی رابطہ منسلک رکھتے ہیں میسجرز چاہے PGsیا فیلوز کی طرف سے ہوں گوندل صاحب جواب ضرور دیتے ہیں چاہے 2دن بعد ہی ٹائم ملے وہ اکثر رات کے 2بجے تک جاگتے رہتے ہیں اور تمام میسجز کے جوابات دیکر سوتے ہیں۔

ذرا سوچیں کہ آج کل کے مصروف ترین دور میں کس کے پاس ٹائم ہے کہ وہ روزانہ ڈھیروں میسجززکا جواب دے۔
غیر نصابی سرگرمیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی گوندل صاحب قدم قدم پر نمایا ں نظرآتے ہیں۔مثلاًاگر کسی بھی PGیا فیلوز نے شادی کے فنگشن پر دعوت دی ہو تو وہاں پہنچنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ۔ اسی طرح غمی کے لمحات میں بھی ڈاکٹرز کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں کوئی ڈاکٹرز بیمار ہو جائے تو تیمارداری کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔

پھر عوامی آگاہی کے ان پروگراموں میں بھی شرکت کرتے نظر آتے ہیں جو صحت کے متعلق ہوتے ہیں مثلاًبریسٹ کینسر یا گردوں کے عالمی دن کے حوالے سے پبلک واک میں شرکت کرتے نظر آتے ہیں۔پھر ٹی وی پروگراموں میں شرکت اور میڈیا کو صحت کے حوالے سے انٹرویو دینا مثلاًحال ہی میں انہوں نے ڈپریشن کے موضع پر ایک ٹی وی چینل پر زبردست گفتگو کی یعنی گوندل صاحب کسی بھی موضع پر نہایت روانی سے بول سکتے ہیں۔

پاکستان کے قومی دن 14اگست ہو یا 23مارچ پاکستان کا قومی جھنڈا لہرانے CPSP پہنچ جاتے ہیں اور یوں اپنی چھٹی کو بھی قربان کر دیتے ہیں۔ کھیل کے میدان کو دیکھیں تو وہاں آپکو بیڈمنٹن کھیلتے نظر آتے ہیں اور یونیورسٹی کی سالانہ سپورٹس میں بھی حصہ لیتے نظر آتے ہیں ۔ گوندل صاحب ایک اچھے Writerبھی ہیں انہوں نے مشاہدات و تجربات کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جس کے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں،پھر حال ہی میں KEMUکے 158سال کے متعلق ایک زبردست کتاب لکھی ہے جس میں پچھلے 158سا ل کی تاریخ بیان کی گئی ہے ۔

یہ کارنامہ آج تک کبھی کسی نے پہلے انجام نہیں دیاجس میں کمیونیٹی میڈیسن کی پروفیسر سائرہ افضل کاکلیدی کردار رہا ہے۔VCصاحبنہ صرف پانچ وقت کے نمازی ہیں بلکہ دعوت و تبلیغ کے لیے بھی وقت دیتے ہیں،آپ ہر محفل کی شان، آن، اور جان ہیں مثلاً بالا خصوصیات کے پیش نظر اگر گوندل صاحب کو ایک طلسماتی شخصیت کہا جائے تو کوئی مظائقہ نہ ہو گا۔بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا عام آدمی بیک وقت اتنے سارے کام کر سکتا ہے اور یہ سوچ کر حیرت زدہ ہو جاتا ہے ۔

دراصل یہ سب خداداد صلاحیتیں ہیں جو کہ ہر بندے کو نصیب نہیں ہوتی ۔
اب ذرا مخالفین یا دوسر ے گروپ کے بارے میں بات کر لی جائے کتنے افسوس کی بات ہے کہ باوجود اسکے کہ گوندل صاحب اور انکی ٹیم پچھلے 12سالوں سے CPSPکی خدمت کر رہی ہے یہ لوگ آئے دن کوئی نہ کوئی الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں اور ڈس انفارمیشن پھلاتے رہتے ہیں۔خاص طور پر الیکشن کے دنوں میں تو یہ لوگ جھوٹ بولنے کی حد کر دیتے ہیں اور اپنے ہی ادارے یعنی CPSPکو میڈیا اور عدالتوں میں بدنام کرتے ہیں یقین نہیں آتا کہ اتنے زیادہ پڑھے لکھے لوگ ایسی حرکات کر سکتے ہیں۔

مگر یاد رکھیں کہ جھوٹ بولنے کی عمر زیادہ دیر نہیں ہوتی اور یہ ہمیشہ ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے کیونکہ آپ فیلوز کو زیادہ دیر تک بیوقوف نہیں بنا سکتے کیونکہ انکو اچھے اور برے کی تمیز کرنا آتی ہے ،پھر دوسرے گروپ کا الیکشن لڑنے کا طریقہ قطعی منفی ہے،4سال تک آپ نے کوئی ہوم ورک اور نہ کوئی تیاری کی اور پھر نہ آپکا کوئی Missionاور نہ کوئی Visionہے تو پھر آپ کی صرف یہ خام خیالی ہے کہ آپ لوگوں کو بیوقوت بنا کر جھوٹ بول کر اور میڈیا اور عدالتوں کا سہارا لے کرآپ الیکشن جیت لیں گے تو اس ضمن میں میں آپکو یوں کہوں گا کہ: ”دل کو خوش رکھنے کے لیے غالب یہ خیال اچھا ہے۔

جنابِ والا الیکشن ایسے نہیں جیتے جاتے اسکے لیے ہوم ورک کرنا پڑتا ہے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے لوگوں کے دلوں میں اترنا پڑتا ہے اس کے لیے زبردست پلانگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں یہ چیز معلوم ہے کہ یہ لوگ بھی CPSPکے لیے کام کرنا چاہتے ہیں مگر طریقہ کار بہت غلط اور منفی ہے آپ Friendsگروپ والوں پر تنقید ضرور کریں مگر تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہیے بلکہ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے جسکو ہر بندہ appreciateکرے گا ،دوسرا یہ ہے کہ اچھے کام کی تعریف کرنی چاہیے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کے کام کی جائز تعریف آپ کے پاس امانت ہوتی ہے جو اگر آپ نہیں کرتے ہیں تو وہ امانت میں خیانت ہو جاتی ہے ۔

اللہ پاک نے اگر کسی کو عزت دی ہے تو اس سے حسد نہ کریں کیونکہ حسد نیکیوں کو یوں جلا دیتا ہے جیسے آگ لکڑی کو ۔لوگوں کے اچھے کاموں کی تعریف کیا کریں حسد خود بخود اندر سے چلا جائے گا ،سارا زمانہ گوندل صاحب کی تعریف کرتا ہے اور مخالفین بدتعریفی تو جناب سارے لوگ تو غلط نہیں ہو سکتے یعنی آپ غلط ہو سکتے ہیں ویسے بھی کہتے ہیں کہ: "زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو"
بس ان کا تو وہ حساب ہے کہ : ہاتھ نہ پہنچے تھو کوڑی، انگو رکھٹے ہیں یا آٹا گوندی ہلنی کیوں ایں
پھرمخالفین کہتے ہیں کہ CPSPمیں گوندل صاحب کی چلتی ہے حلانکہ حقیقت یہ ہے کہ اکیلا بندہ کچھ نہیں کرسکتا جب تک پوری ٹیم اس کا ساتھ نہ دے ۔

اور یوں اسکو لوگ Gondalizationکا نام دیتے ہیں بحر حال ہمیں تو فخر ہے کہ CPSPگوندل لائز ہو گیا ہے مگر جسGondalizationکی وہ بات کرتے ہیں وہ دراصل منفی پراپیگنڈہ ہے اصل Gondalizationیہ ہے

Gondalization means extreme Love, Affection & Sincerity
Gondal is the name of easy "Accessibility"
Gondal is the name of "Efficiency & Competency"
Gondal is the name of "Fascilitation"
Gondal is the name of "Enthusiasm"
Gondal is the name of "Positivity & Creativity"
Gondal is the name of "Promotion & Devotion"
Gondal is the name of "Great Leadership"
Gondal is the name of "Tolerence & Perseverance" 
Gondal is the name of "Innovation & Revolution"
Gondal is the name of "Perfectionism & Dynamism"
Gondal is the name of "Humbleness & Helpfullness" 
Gondal is the name of a "Passionate & Compassionate Charector"
Gondal is the name of ever "Sympathy"
He is an Iron Man morever he is a GOD Gifted Person
He is an extraordinary person, mentor of many people, Legend of Legends and a Pride of Medical Profession. At the end I must say that "Gondal is the name of an Institution "
نوٹ : ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔

میری سب فیلوز سے گزارش ہے کہ CPCPکی عزت کیجیے اورخدارااس ادارے کو سیاست سے پاک رکھیے کیونکہ CPCPہے تو ہم ہیں جس نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے ۔اِسکو میڈیا یا عدالتوں میں نہ گھسیٹیں ورنہ اس کے وقار اور مقام کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔آپس میں اختلافِ رائے ہونا کوئی بری بات نہیں لیکن اس کو باہمی مشورے اور بات چیت سے بھی دور کیا جا سکتا ہے اس لیے اِسکو کسی بھی میڈیا یاعدالت میں لے جانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کو کسی قسم کا سیاسی رنگ دینے کی ضرورت ہے۔

اور ویسے بھی CPCPنے تقریباًہر شعبہ میں Feedback Systemدیا ہوا ہے جسکے ذریعے آپ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔
 آئیے ہم تمام فیلوز عہد کرتے ہیں کہ ہم سب مل کر CPSPکی بہتری کے لیے کام کریں گے اور اسکی حرمت کی خاطر کسی قسم کی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔کیونکہ یاد رکھیے اگر ہم CPSP کو بدنام کریں گے تو اس میں ہماری اپنی FCPS کی ڈگری بدنام ہوگی اور یوں ہم اپنے پاوٴں پر خود ہی کلہاڑی مار لیں گے۔

بحرحال یہ وہ تحریر ہے جو میرے دل کی آواز تھی اور بلاشبہFeedbackکے حوالے سے یہ ہزاروں فیلوز اور PGsکے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔آخر میں یہ کہوں گا کہ میری اس تحریر سے میرے کسی بھی دوست کی دل آزار ی ہوئی ہوئی تو میں معذرت خواہ ہوں
اللہ پاک میرا اور آپکا حامی و ناصر ہو۔ CPSPزندہ باد ۔پاکستان پائیندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

College of Physicians And Surgeons Pakistan ke hurmat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 June 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.