کشمیر ہاتھ سے نکل رہا ہے ‘سابق بھارتی وزیر خارجہ کا اعتراف!

طاقت کے ذریعہ جذبہ حریت کو کچلنا ممکن ہوتا تو آج شاید پوری دنیا میں دو تین طاقتور ترین اقوام ہی آزادی کاسانس لے رہی ہوتیں

پیر 7 جنوری 2019

Kashmir hath se nikal raha hai
طاقت کے ذریعہ جذبہ حریت کو کچلنا ممکن ہوتا تو آج شاید پوری دنیا میں دو تین طاقتور ترین اقوام ہی آزادی کاسانس لے رہی ہوتیں اور خود طاقتوں میں بھی گرگ بارہ دیدہ کی طرح ایک دوسرے کی کمزوریوں پر نظر رکھے ہوتیں مگر انسانوں کے خالق نے ا ن میں جذبہ ء حریت پیدا فرمادیا جوان کی انفرادی اور اجتماعی آزادی کاضامن ہے ۔فلسطین ‘افغانستان اور کشمیر سمیت یہ جذبہ حریت اپنا کرشمہ جگا رہا ہے ۔


کہتے ہیں ”جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے “یہ بھی قدرت خداوندی کے باعث ہے کہ مسلمانوں کے سخت ترین مخالف بھی بعض اوقات موجود حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔بھارت کے سابق وزیر خارجہ جو ہندوانتہا پسندی میں لتھڑی بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما بھی ہیں یشو نت سہنا اپنے دورہ مقبوضہ کشمیر کے مشاہدات کا ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر تیزی سے بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے ۔

(جاری ہے)


یشونت سہنانے کہا کہ وہ کسی ا یک جگہ نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر سے کئی علاقوں میں گئے اور یہ دیکھا کہ نیپال کے لوگ بھی بھارت سے نفرت کرتے ہیں لیکن کشمیریوں کی بھارت سے نفرت اس سے کئی گنازیادہ ہے ۔کشمیر میں ایک حکومتی شخصیت سے انہیں کہا کہ کشمیریوں کو فوج اور پولیس سے دبا کر رکھا جائے یہ بھارت کی پالیسی ہے جو چانکیہ اصول کے مطابق ہے ۔

یشونت سنہا کا یہ اعتراف حقیقت دراصل کشمیر میں بدلی ہوئی صورتحال کی حقیقی عکاسی ہے ۔
پرامن کشمیری جوبھارتی فوج اور پولیس کے بہیمانہ تشدد ‘گرفتاریوں حتیٰ کہ شہادتوں کے باوجود آزادی کی تحریک پرامن طور پر چلا رہے تھے بھارت کی متشددانہ پالیسیوں اور اقدامات نے انہیں مجبور کردیا کہ وہ اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ بھارتی قابض فوج کے خلاف پتھر اور بالآخر بہت ہی محدود پیمانے پر ہتھیار اٹھائیں ۔

کشمے ریوں کو اس سطح پر بھارت کے چنگیزی ذہنیت رکھنے والے حکمرانوں کی ظالمانہ اور انسانیت سوزپالیسیوں واقدامات نے ہی پہنچایا ہے مگر اس میں بڑا حصہ اقوام متحدہ اورا نسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار طاقتور ملکوں کے رویوں کا بھی ہے اور اس سے بڑھ کر اسلامی ممالک ‘اسلامی کانفرنس تنظیم بالخصوص پاکستان کی حکومت کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں جن سے بے حسی کی کیفیت جھلکتی ہے کانتیجہ بھی ہے ۔


پاکستان کی جانب سے بھارت کے لئے خیر سگالی کے جو مسلسل مظاہرے کئے گئے ان کا کبھی بھی مثبت جواب نہیں ملا کبھی کبھار عالمی دباؤ یاخود کو امن پسند ملک ظاہر کرنے کے ڈھکو سلے کے باعث مذاکرات پر آماد گی کا اظہار بھی کیا گیا توایک بھی ایسی مثال موجود نہیں کہ مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھ گئی ہو ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اسے سبو تاژ کیا جاتا رہا ہے اس لئے باوجود کیا یہ تعجب خیز نہیں کہ پاکستان کی حکومتوں کی جانب سے مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کشمیر حل ہونے کا راگ الاپاجارہا ہے نواز شریف کی(ن)لیگ اور آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کی طرح عمران خان کی تحریک انصاف کی حکومت بھی مذاکرات کے ہی بے ثمر تقاضے کررہی ہے ۔


دوسرے ممالک یاوہ مماک جن کے حکمران مسلمان ہیں مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کی بات کریں توسمجھ میں آتا ہے پاکستان کی جانب سے محض مذاکرات پرزورا ور تکرار اس لئے ناقابل فہم ہے کہ پاکستان اس تنازعہ کا باقاعدہ جائز فریق ہے ۔کشمیریوں کے لئے حق خود ارادیت کا معاہدہ بھارت اور کشمیریوں کے مابین نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا ہے ۔

تاہم مختلف وزارتوں یا محکموں کے لئے وہ متعلقہ شعبے میں مہارت اور دیانت داری کی شہرت رکھنے والے افراد کا انتخاب کر سکے اس طرح وہ اتحادی جماعتوں کے نااہل افراد کو ویر بنانے کی مجبوری سے نجات حاصل کر سکتا ہے ۔
قائداعظم نے پاکستان کے بیورو کریٹس کو تلقین کی تھی کہ وہ قواعد وضوابط کے مطابق فرائض انجام دیں کوئی حکم خواہ وہ کسی جانب سے ہو خلاف ضابطہ اور غیر آئینی ہے تو ماننے سے انکار کردیں کسی حکومتی عہدیدار کی جانب سے یہ کہنا بیورو کریسی کو ہمارے منتخب نمائندوں کے فون سننے پڑیں گے ورنہ گھر جائیں گے قائد کی متذکرہ تلقین سے کھلا اختلاف ہے ۔


ہمارے آئین میں ارکان پارلیمنٹ کو جومراعات ‘تنخواہ اور الاؤنسز وغیرہ دئیے جاتے ہیں وہ بے شک لیتے رہیں لیکن استحقاق کا جوڈنڈا ان کے ہاتھ میں تھمادیا گیا ہے ۔یہ سراسر غیر اسلامی تو ہے ہی غیر اخلاقی بھی اس لئے ہے کہ اس کی بدولت وہ پاکستان کے عام شہری سے برتر ہوجاتے ہیں ۔قائداعظم کے راستے میں آنے والا ریلوے پھاٹک بند تھا کار کاڈرائیور جلدی سے نیچے اترا اور پھاٹک والے سے کہا کار میں قائد اعظم ہیں اس نے جلدی سے پھاٹک کھول دیا قائد شیشے میں سے یہ سب دیکھ رہے تھے ڈرائیور واپس آیا”قائدکے پوچھنے جو پھاٹک والے سے کہا بتایا قائد نے خفگی کا اظہار کیا اور کہا جاؤ پھاٹک بند کراؤ۔


مجھ میں اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں ہے ریل گزرنے کے بعد جب ریلوے پھاٹک کھلا تب قائد کی کار بھی یہاں سے روانہ ہوئی ۔آج کوئی وارڈن کسی منتخب نمائندے سے گاڑی کے کاغذات پوچھ کر دیکھے کوئی آفیسر ضروری میٹنگ کے باعث اسے چند منٹ باہر روک کردیکھے کیسے اس کا استحقاق مجروح ہوتا ہے ۔ان منتخب نائندوں کا یہ کہنا کہ دو عام لوگوں کے کاموں کیلئے افسروں کے پاس جاتے ہیں شرم سے ڈوب مرنے کے قابل ہونا چاہیے کہ وہ ایسا نظام کیوں نہیں بناسکے کہ ان کے جائے بغیر لوگوں کے کام ہوجایا کریں یہی وجہ ہے کہ آج تک قائد کا پاکستان نہیں بن سکا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kashmir hath se nikal raha hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 January 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.