کشمیر محصور ہے برصغیر کی آواز بننے تک۔۔تحریر:راشد باغی

میزائیلوں میں جلنے والا ایندھن اْن کی اپنی ہی عوام کی محنت کا وہ پسینہ اور خون ہے جو محنت اور پسینہ دے کر بھی آج اکیسویں صدی میں اکثریت انسان جانور کی زندگی جینے پر مجبور ہے

بدھ 27 فروری 2019

Kashmir mashoor hai bare sagheer ke awaz banny tak
کشمیر صرف کشمیریوں کا مسئلہ ہوتا تو پچھلے بہتر سالوں سے کشمیریوں کی اکثریت قطعی طور پر فوج کے پہروں میں ایک زنداں میں جیتے گولیوں کی گرجتی سنسنی خیز ہولناک آوازوں میں لاشوں کو اٹھاتے دفناتے اور ساتھ بھوک،ننگ،غربت اور عدم تحفظ کے نہ ختم ہونے والے کہرام میں آزادی کی تحریکوں میں بار بار ایک بغاوت کسی امید کے ساتھ نہ مٹنے جھکنے کے لیے تیار رہتی مگر یہ ضرورت،خواہش خواب ہر بار کسی ڈرامائی انداز میں مظلوم کشمیریوں کے راگ الاپنے سے جیسے مدھم ہو جاتی ہے آج دنیا میں کوئی ایسا خطہ نہیں جس ملک کی عوام حکمران یہ کہتے سنائی نہیں دیتے کشمیری مظلوم،ہیں محکوم ہیں کشمیریوں نے اپنی آزادی کے لیے بہت قربابیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں حتیٰ کہ جن ریاستوں کا باقدعدہ کشمیر پر قبضہ ہے جن کی افواج کا مقصد اْن کی بھرتیاں کشمیر کے تحفظ اور ایک دوسرے کے غیر قانونی قبضے کو چھوڑانا ہے اور جن کے ٹینکوں۔

(جاری ہے)

میزائیلوں میں جلنے والا ایندھن اْن کی اپنی ہی عوام کی محنت کا وہ پسینہ اور خون ہے جو محنت اور پسینہ دے کر بھی آج اکیسویں صدی میں اکثریت انسان جانور کی زندگی جینے پر مجبور ہے۔
 اْن ریاستوں کے حکمران بھی اقوام متحدہ جیسے سرمایہ داروں کے کٹھ پتلی ادارے کے سامنے سے لے کر ہر پلیٹ فارم پر ٹسوے بہانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اگر یہ حکمران سنجیدہ ہوتے تو پچھلے بہتر سالوں میں چار جنگیں کرتے ہزاروں ماوٴں کو جوان بیٹوں کی میت دیتے سہاگ اجاڑتے بچوں کو یتیم کرتے انسان ہوتا کیا یہ وحشت ,بربریت بے یقینی انسانوں میں ہونی چاہیے لیکن یہ سب ہے انسان کی نسل تو ہے لیکن انسانیت کوسوں دور کہیں تلملاتی اپنی زخموں پر نمک چھڑکاتے مر رہی ہے کیونکہ یہ ایک فرسودہ خونی نظام کی پیداور ہے۔

 یہاں اکثریت کے سسک کر جینے سے زیادہ ایک جابر زر پرست نظام کے تحفظ کا سوال ہے اہم بات یہاں پر یہ بھی ہے حکمرانوں کے ٹسوئے بہانے کے ساتھ عوام میں ایک تاثر یہ بھی جاتا کہ افواج کشمیر کی حفاظت کرتے اْن کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئی ہے عوام میں یہ غلط تاثر بھی جاتا ہے کشمیری مظلوموں کا راشن پانی اِنہی ریاستوں کی ذمہ داری ہے اور کشمیریوں کو دھان کیا جاتا ہے اگر دھان نہیں بھی ہے تو دونوں ریاستوں کے حکمرانوں کے لیے ایک شہ رگ بنا بیٹھے ہیں اور دوسرے اٹوٹ انگ اور اگر کشمیر اِن ریاستوں کی ذمہ داری ہے تو پھر یہ اپنائیت ہے بھائی چارہ ہے اور اِس اپنائیت بھائی چارے سے 
کشمیری عوام جب تنگ آزادی کے نعرے بلند کرتی ہے جو موت کے نزعے میں بنیادی ضرورتوں کے فقدان کے باعث یہ نعرا ایک فطری تقاضے کا درجہ رکھتا ہے تو پھر کیا ہوتا بھارت اور پاکستان کی عوام کشمیریوں کو بے وفا اور نمک حرام جیسے القابات سے بھی نوازتی ہے کیونکہ ان دونوں اطراف کی عوام کو کبھی سچ پڑھایا ہی نہیں گیا بلکہ ہمیشہ جھوٹ پر مبنی وطن پرستی ،اور مذہبی چورن کھلایا جاتا رہا اور ایک ملکیت پرست نظام میں کسی سے بھائی گری،اپنائیت جتلانے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں ہوتی اور ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ رویہ اور رشتہ بھی مادی پیداور کا ہی عکاس ہوتا ہے لیکن باشعور انسان اِن دونوں اطراف کی عوام سے کبھی خائف نہیں ہو سکتے کیونکہ اِس ڈیڑھ ارب عوام کے حکمرانوں نے کبھی اِس عوام کو سوچنے سمجھنے کی فہرست ہی نہیں دی نہ وہ بنیادی سہولتیں میسر کی جن سے اپنی تک یہاں کی عوام کسی نتیجے پر پہنچ پاتی یا انسانی رویہ پروان چڑھا پاتی یہ درست ہے اگر یہ عوام کشمیری آزادی پسندوں کو اِس بنا پر اپنائیت ظاہر کرتی ہے کہ بر صغیر کے خونی بٹوارے نے ہمیں تقسیم کیا ہے۔

اور ہم اِس تقسیم کو مسترد کرتے ہیں اور ہم برصغیر میں ایک اکائی ہیں پھر یہ ٹھیک ہوتا اور کوئی کشمیری ذی شعور اِس رشتے سے انکار نہیں کر سکتا کیونکہ کہیں صدیاں کشمیر اور ہندوستان،پاکستان میں بسنے والوں کی مشترکہ ثقافت پروان چڑھتی رہی لیکن اِس خونی بٹوارے کے بعد ان حکمرانوں نے نام نہاد محبتوں ،چاہتوں میں بھی ملکیت پرستی،بنیاد پرستی،اور مذہبی شدت پسندی کا زہر بھرا ہے۔

 یہاں یہ بات بھی زیر غور ہے یہ ملکیت ،شدت پسندی صرف کشمیریوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ یہ نفرت اور القاب سندھی قوم پرستوں کے لیے بھی ہیں بلوچی بھی ایسے کرب سے گزرتے ہیں اور یہی صورتحال بھارت کے علیحدگی پسندوں اور عقل پر مبنی بات کرنے والوں کے لیے بھی ایسے ہی ہے۔ دشوار حالات سے دو چار کرتی ہے جہاں تک کشمیر کے متعلق ایک غلط تاثر پھیلایا جاتا ہے اْسے یہاں کی عوام کو سمجھنا ہو گا خونی بٹوارے کے نتیجے میں میں دو ریاستوں کے قیام کے ساتھ اگر بر صغیر ایک جسم تھا تو کشمیر اْس جسم میں دل کی حیثیت رکھتا تھا جو خونی تقسیم سے پہلے گلگت بلتستان،پاکستانی زیر کنٹرول اور بھارتی زیر کنٹرول کشمیر ایک یونٹ تھا جس طرح کشمیر کے متعلق اِن دونوں ریاستوں کے حکمرانوں نے اپنی عوام کے سامنے کشمیریوں کی مظلومیت کوئی بوجھ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

 اِس طرح کشمیر پر براجماں ٹولا جو کشمیر سے زیادہ پاکستانی اور بھارتی حکمرانوں کا وفا دار ہے اْس نے بھی قابض ریاستوں کی عوام سے محبت کا درس اپنی عوام کو کسی نظریے انسانی تعلق یا پھر ماضی کی برصغیر کی ایک اکائی ہونے کے حوالے سے نہیں دیا بلکہ مذہبی رنگ دینے کے ساتھ ایک دوسرے کیخلاف نفرت کے زہر انگلتے تعلق قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور اِس طرح ماضی میں اور آج بھی بچی کچی اکثریتی قوم پرست پارٹیوں اور تنظیموں کی قیادتوں نے بجائے اِس سرمایہ دار نظام کی متروکیت سمجھتے برصغیر کی معاشی ،سماجی اور جیوگرافی حیثیت اور افادیت کو جانے بغیر آزادی کے متوالے تو بنے لیکن کسی واضح نظریے درست لائحہ عمل اور حکمت سے عاری کشمیر کا رقبہ گنتے اور قابض ریاستوں کے حکمرانوں کو جابر ظالم کہنے کے ساتھ اِن ریاستوں کی عوام کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھا اور نیچے نوجوانوں میں بھی نفرت اور شدت پسندی بھرنے کی کوشش کی ایک آزادی پسند اور انقلابی کے لیے پہلی شرط کسی جدوجہد کے لیے آمادہ ہونے کے لیے یہ ہونی چاہیے ۔

انقلاب کوئی باہر کی نہیں اندر کی کیفیت کا نام ہے اپنی ذات کے کونوں ،کھدروں تک رسائی حاصل کرنے ،،اپنی صلاحیتیں جانچنے ،مقصدِحیات کو جاننے پہچاننے کے بعد انسان اور انسانیت کے لیے اپنے آپکو وقف کر دینا عظیم انقلاب کی راہ کا پہلا قدم ہے اپنی کتابِ زندگی کا ہر ورق کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے عیاں ہونا اس راستے کی اولین شرط ہے نہ کہ آزدای پسندوں کو اپنے جیسے اپنے طبقے کے انسانوں سے نفرت ہوتی ہے یا حقارت سے دیکھتے ہیں نفرت اور حقارت سے نا امیدی اور شدت پسندی جنم لیتی ہے نہ کہ آزادی کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے اِن دونوں ریاستوں کے حکمرانوں سے نفرت ضرور ہونی چاہیے لیکن کسی قوم،مذہب، نسل کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک خونی نظام کے محافظ ہونے کی وجہ سے ہونی چاہیے بنیادی طور پر یہ ایک نظام کا تعفن ہے جو ایک واضح نظریے اور لائحہ عمل سے ہی اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے کشمیر آج زخموں سے چْور ہے اور وہ بر صغیر کا ہی بدن ہے جن زخموں کو کریدنے سے سارا برصغیر ایک کراہت بھری دل سوز کیفیت میں مبتلا ہے سمجھنا ہو گا۔

 وہ کون سے ان حکمرانوں کے سیاسی مالی مفادات ہیں جن کی خاطر وہ ڈیڑھ ارب انسانوں کی آہیں سننے سے قاصر ہو چْکے ہیں پاکستان اور ہندوستان اپنے تضاذات میں جو کشمیر کو غیر محسوس طریقے سے بوجھ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اْس کشمیر کے بارے میں پاکستان کا ایک سابقہ وزیر اعظم ظفر اللہ خان اعتراف کر چْکا ہے اگر کشمیر بھارت کے ساتھ چلا جاتا ہے تو ہماری حیثیت اِس خطے میں مزارع جیسی راہ جائے گی کیونکہ پاکستان کے میدانی علاقوں کو جو پانی سیراب کرتا ہے وہ دریا نیلم ،جہلم ،چناب سارے کشمیر سے نکلتے ہیں اور پھر 1947 میں کشمیر میں جو جنگلات تھے اْن کا تناسب 40% فیصد تھا لیکن اْن جنگلوں کو ٹمبر مافیا برباد کرتے 8% تک لے آیا ہے جو ٹمبر مافیا بھی اِنہی حکمرانوں کی ایماء پر اپنا اور اِن کا مال بنانے میں پیش پیش ہیں اور اْن جنگلوں میں کشمیر کا جو حسن تھا ہے وہ جنگلی جانور جیسے برفانی جیتا،سرخ ہرن اور کہیں جانور پاکستان اور ہندوستان کی چڑیا گھروں میں ہیں یا فروخت کر دیے گے۔

 آج انسان کو ایک جہنم جیسی زندگی دینے کے ساتھ وہاں کے جنگلوں کا حسن جانور پرندے نا پید ہونے کے ساتھ اْجڑ رہا ہے سیر سیاحت کی جگہیں تباہ و برباد ہو رہی ہیں جنگلات کے بے دریغ کاٹے جانے سے لینڈ سلاڈینگ وہاں کی زخیر زمین کا معمول بن گیا ہے اپنی زمینوں، گھروں کو برباد کراوانے والے کشمیری جہاں بجلی کے ڈیم تعمیر کیے گے ہیں لیکن اْن ڈیموں سے پیدا ہونے والی بجلی سے دہلی اور اسلام آباد روشن ہیں جس طرح پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کے محل تو روشن ہیں لیکن عام عوام لوڈشیڈنگ کی اذیت جھیل رہی ہے ایسے کشمیر کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے محل بھی روشن رہے لیکن عام انسان عام کشمیری یہی اذیت جھیل رہا ہے ۔

معدنیات کی لوٹ کھسوٹ تو گلگت بلتستان کے ساتھ جموں و کشمیر میں جاری ہی رہتی ہے لیکن کشمیر کا تعلیمی معیار علاج کی سہولتیں وہاں بسنے والوں کے لیے ناکافی ہیں تمام تر ڈھانچہ جات ٹوٹ پھوٹ کر گل سڑ رہی ہیں کوئی بڑا کارخانہ انڈسٹری موجود نہیں جہاں کشمیری نوجوان اپنی محنت بیچ کر عزت سے روٹی کھا سکیں اِس باعث کشمیریوں کی اکثریت وہاں سے ہجرت کرجاتی ہے جن کی جوانیاں دیار غیر میں جھلس جاتی ہیں اور وسطی ایشاء،یورپ میں کشمیری محنت کش اپنی محنت بیچ کر پھر زرمبادلہ لا کر اِنہی ریاستوں کی لڑکھڑاتی معیشتوں کا سہارا بنتے ہیں۔

جو زر مبادلہ بھی اِن حکمرانوں کی عیاشی کا سامان مہیا کرتا ہے۔
 کشمیری عوام ان ریاستوں کے حکمرانوں نے محصور رہنے کی حد تک پہنچا دی ہے جو اپنی تاریخی نا اہلی کے باعث اپنی عوام کو سچ کا سبق کبھی دے ہی نہیں سکے اور اِس عوام میں بنیادی پرستی کے بیج بوتے رہے دفاع اور اسلحہ خریداری کے نام پر اِس عوام کو ہمیشہ بیوقوف بنایا عوامی نمائندوں کے بجائے آئی ایم ایف کے تابع جو ادارہ سرمایہ داروں کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے اْن کے دلال بنتے رہے اور ہیں ایسے ہی جنگی صنعت کاری کے معاون بنے رہے اور ہیں جن سے اِن کے اپنے کمیشن آتے رہے اور آ رہے ہیں کہیں بار امن کے ناٹک کر کے اپنے ہی آر پار مالی مفادات پورے کیے جب بھی اِن دونوں ریاستوں کے حکمرانوں کو اپنی عوام کی مزاحمتوں کا سامنا ہوا مسائل پر مبنی بحثوں آغاز کا ہوا تو مسلئہ کشمیر تازہ ہو جاتا ہے اِس دونوں ریاستوں کی دشمنیاں جاگ جاتی ہیں ریاستوں کی سالمیت خطروں میں پڑ جاتی ہے الیکشن کا وقت قریب ہو تو اْس وقت مخالف ریاست کی دشمنی کا خطرا اتم درجے کی حیثیت تک پہنچ جاتا ہے اور کشمیری مجاہدین حملہ کر دیتے ہیں بھارتی ریاست پر یا پھر پاکستان کے خلاف را سازش کر رہی ہوتی ہے اگر کشمیری مجاہدین جو کے انفرادی داہشتگردی ہے جو نہیں کرنی چاہیے اگر کرتے ہیں تو بڑے دہشتگرد بھارتی حکمران کے بدلے میں کرتے ہیں جس دہشتگردی پر اْن حکمرانوں کو مظلومیت اور غربیوں کے لیے آنسو بہانے کے بجائے اپنا گریبان دیکھنا چاہیے وہ کیسے غیر قانونی قبضہ کرتے کشمیر کے نہتے انسانوں میں کھلی دہشتگردی کرتے ہیں لیکن بم بلاسٹ کرتے ہیں تو وہ بھی بہتر سال کا نتیجہ ہے جو اذیت اور ظلم وہ سہتے ہیں۔

 اْن میں زندگی کی حیثیت ہی کیا رہا جاتی ہے کوئی نوجوان زندگی سے بیزار آزادی کا کوئی واضح نظریہ راستہ نہ ہونے کے باعث اِس طرح کے انتقام پر اْترنا کوئی معیوب بات نہ سمجھتا ہو گا اور ایسا اِن تلخ حالات میں ممکن بھی ہے لیکن یہ انفرادی دہشتگردی کروانے والے بھی اِنہی ریاستوں کے زر خرید ہوتے ہیں جو بنیاد پرستی اور دہشتگردی کی طرف عام بیزار نوجوانوں کو راغب کرتے ہیں خود اپنی اولادوں کے ساتھ محفوظ عیاشی کر رہے ہوتے ہیں اور نوجوانوں کو ایندھن بناتے انہی ریاستوں کے حکمرانوں کی حکمرانی کو دوام بخشتے ہیں اور پھر یہ دونوں ریاستیں برطانوی سامراج کے جانے کے بعد بھی سامراج کی اکھاڑا رہی ہیں مختلف وقت میں مختلف سامراج کی دلالی کے لیے اپنی عوام کو بلی کا بکرا بنا کر اْن کے مفادات کو مقدم جانا یوں تو پاکستانی ریاست پر ہمیشہ امریکہ سامراج کی چھاپ واضح رہی لیکن جب کبھی پاکستان کسی دوسرے سامراج کی امریکہ سامراج کے ہوتے دلالی کرنے کے لیے پر تولنے لگا یا دلالی شروع کی تب بھی اْس سامراج کو نکالنے کے لیے اِنہی دلال حکمرانوں سے امریکہ سامراج نے کشمیر میں کشیدگی پیدا کروائی اور ہندوستان ،پاکستان کو جنگ کرنے کی بڑھکوں کو تازہ کیا اور بعض و اوقات آر پار کشمیریوں پر گولہ بھارود کر کے فضا کو خون آلود کیا اور اپنے مفادات کی تکمیل کی۔

 آج کشمیری محکوم ہیں مظلوم ہیں محصور ہیں لیکن وہ اِس باقی بر صغیر کی عوام سے بالکل الگ نہیں وہ بار بار بغاوت بھی کرتے ہیں لیکن جس طرح حکمران اِس نظام کے محافظ بنے ٹسوے بہاتے ہیں اور کشمیر بر صغیر کی باقی عوام پر بوجھ بنا کر پیش کرتے ایسا بوجھ کشمیر بالکل نہیں بغیر کشمیروں کی رائے لیے کبھی ایک ریاست کشمیر کو فتح کرنا چاہتی ہے کبھی دوسری اْس میں بسنے والے نفوس کیا چاہتے ہیں اِس سے حکمرانوں کو کوئی غرض نہیں کشمیریوں کا جو بنیادی حق ہے دونوں ملکوں کی افواج کے انخلا کے ساتھ اْنہیں استصواب رائے کا حق دیا جائے لیکن ایسا اِن دلال حکمرانوں کی منشا سے ان حالات میں ہونا ممکن نہیں لگتا بلکہ یہ صرف اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے انسانیت سے پَرے اِس ڈیڑھ ارب عوام کو تباہی کے دھانے پر لے گے ہیں جس کشمیر کو حْب الوطنی اور مذہبی بنیاد پرستی کے نام پر برصغیر کو خانہ جنگیوں،قتل وغارت،بدامنی بھوک اور عدم تحفظ سے بھرپور خطہ بنا چْکے ہیں یہ نفرتیں ۔

تعصبات اور انسانی رشتوں میں زہر کا گلنا اْس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکمرانوں کے بنائے گے جعلی بندھنوں کو توڑ کر برصغیر کا غریب ,محنت کش,محکوم ایک طبقے کے طور پر کشمیر کی آواز نہیں بن جاتا اور اِس خونی نظام کی ہر بندش کو توڑتے انسانی سماج کی بنیاد رکھتے ہر ایک دوسرے کی آزادی تسلیم نہیں کر لیتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kashmir mashoor hai bare sagheer ke awaz banny tak is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 February 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.