کیا پاکستان اقتصادی بحران سے نکل سکے گا

پیر 27 اگست 2018

kya Pakistan iqtisadi bohraan se nikal sakay ga
شہزاد چغتائی
وزیراعظم عمران خان نے عوام کو اقتصادی بحران سے نکلنے کی نوید سنادی لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔ پاکستان بند گلی میں آگیا ہے۔ سارے اسلامی ملکوں کی معیشت زوال پذیر ہے۔ ایران پر پابندیوں کے بعد ترکی کی کرنسی بھی دباﺅ کا شکار ہے۔ پاکستان کو ہر ماہ دو ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑ رہا ہے جوکہ بہت زیادہ گھمبیر صورتحال ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اب ایک دیوالیہ ملک ہے۔ وزیراعظم عمران خان نیازی نے حالانکہ قوم کو دلاسہ دیا ہے کہ تشویش کی کوئی بات نہیں ہم معاشی بحران پر قابو پالیں گے لیکن حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں۔ 95 ارب ڈالر کے قرضہ کے ساتھ کوئی ملک نہیں چل سکتا ہے۔حکومت کے پاس اب رہن رکھنے کے اثاثے بھی نہیں۔ ملک کی ساری آمدنی اشرافیہ‘ حکمرانوں‘ بیورو کریسی‘ سیاستدانوں‘ پروٹوکول اور پارلیمنٹ پر خرچ ہورہی ہے۔

(جاری ہے)

اس وقت پاکستان کے معاشی منیجرز امریکہ اور چین کے درمیان سینڈوچ بن گئے ہیں۔ امریکہ ڈٹ گیا ہے کہ وہ اپنے ٹیکس ڈالر چین کے پاس نہیں جانے دے گا اس لئے وہ آئی ایم ایف کو قرضہ دینے سے روک رہا ہے قرضہ بڑھنے سے سارا دباﺅ روپے پر آگیا۔ سارے اسلامی ملکوں کی کرنسی پریشر میں ہیں جن میں ایران‘ عراق اور ترکی کی کرنسی سرفہرست ہے۔ امریکہ پہلے اسلامی ملکوں سے براہ راست لڑرہا تھا اب اس نے اقتصادی جنگ شروع کردی ہے۔

اس وقت پاکستان کی 87 فیصد معیشت قرضہ کے عوض گروی رکھ دی گئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ گردشی قرضہ ایک بار پھر ایک کھرب 14 ارب 80 کروڑ روپے تک جاپہنچا ہے۔
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ محض25 فیصد کرپشن کم کرنے سے 15 ارب ڈالر سالانہ کی بچت ہوسکتی ہے اور ملک قرضوں سے بے نیاز ہوسکتا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں 8 روپے کی کمی سے ملکی قرضہ 5 ارب ڈالر کم ہوگیا۔

پاکستان کے معاشی بحران کے تناظر میں تجزیہ نگار عمران خان کا موازنہ فرانسیسی بادشاہ لوئس 16 سے کررہے ہیں۔ لوئس 16 نے بھی قرضہ لے کر قرضہ اتارنے کی حکمت عملی اختیار کی تھی لیکن قرضہ کم ہونے کے بجائے بڑھتاچلا گیا۔ یہ بات طمانیت بخش ہے کہ پاکستان کو صحت‘ تعلیم‘ فیملی پلاننگ کے شعبہ میں اور غذائیت کےلئے اربوں روپے کے فنڈز مل رہے ہیں لیکن قرضوں کی طرح یہ فنڈز بیورو کریسی کی جیب میں جارہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے نشری تقرر میں استفسار کیا تھا کہ ملک نے اب تک جو 95 ارب ڈالر کے قرضے حاصل کئے ہیں وہ کہاں خرچ ہوئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرضوں کے ساتھ مختلف شعبوں میں ملنے والی اربوں ڈالر کی گرانٹ بھی بیورو کریسی کی جیب میں جارہی ہے۔ اس وقت قرضے ترقیاتی منصوبوں اور حکومت کو چلانے کےلئے نہیں لیا جارہا ہے جبکہ قرضوں کی ادائیگی کےلئے حاصل کئے جارہے ہیں حکومت سمیت ملک کے تمام ادارے غیرملکی قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں صوبائی حکومتیں بھی اربوں ڈالر سالانہ کے قرضے اداکررہی ہیں۔

تمام ادارے عالمی مالیاتی اداروں کے پاس دہن رکھے ہوئے ہیں۔ملک میں بنکاری کا نظام تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ بنک چلانا سب سے آسان کام ہے کیونکہ یہ خسارہ کا نہیں منافع کا سودا ہے۔ خسارہ کا کوئی امکان نہیں۔ بنکوں کی ساری انگلیاں گھی میں ہیں حکومت کی پالیسی کے باعث ان کے وارے نیارے ہورہے ہیں۔ بنکوں کو چالیس چالیس پچاس پچاس ارب منافع ہورہا ہے۔

دو عشروں قبل جن بنکوں کو چند کروڑ منافع ہوتا تھا اب 30 ارب سے 40 ارب سالانہ منافع ہورہا ہے۔ پاکستان میں بنک جس قدر منافع کمارہے ہیں اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ بنک اس وقت کوئی سرمایہ کاری نہیں کررہے ان کا نظام حکومت کو قرضہ دینے سے چل رہا ہے۔ وہ اس قرض کے منافع پر خوب پھل پھول رہے ہیں۔ بنکوں کا کاروبار اب صرف حکومت کو قرضہ دینا رہ گیا ہے۔

اسٹیٹ بنک خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ کوئی روک ٹوک کےلئے تیار نہیں۔ بنکاری کے قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ اب بینکاری کا نام حکومت کو قرضہ دینا رہ گیا ہے۔ بنک کئی ارب ڈالر کا منافع عوام کی جیب سے وصول کررہے ہیں۔ حکومت قرض پر جو سود ادا کررہی ہے وہ عوام کی جیب سے نکال کر ادا کررہی ہے یہ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔ حکومت بنکوں کے قرضوں پر چل رہی ہیں۔

ملک میں جو ادارے خسارے میں جارہے ہیں ان میں پاکستان اسٹیل شامل ہے جو کہ 2008ءتک منافع میں تھا لیکن پھر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ادارے کا ستیاناس کردیا۔ اس وقت اسٹیل مل کو 50 لاکھ روپے فی گھنٹہ نقصان ہورہا ہے اور پاکستان اسٹیل کا مجموعی خسارہ 460 ارب روپے سے تجاوز کرگیاہے۔ اسٹیل مل کا اس وقت سدرن گیس کمپنی سے بھی تنازعہ ہے اور گیس کی فراہمی جون 2015 سے بند ہے۔

اسٹیل مل کا المیہ یہ ہے کہ 4 ماہ سے اس کا کوئی سربراہ نہیں۔ ادارہ حکومت کے قرضوں تلے دبتا چلاجارہا ہے پیداوار بند ہے حال ہی میں اسٹیل مل نے حکومت سے 75 کروڑ قرضہ لیاہے۔ مستقبل میں اسٹیل مل کی بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ سرمایہ کاروں کی عقابی نگاہیں اسٹیل می کی کئی ٹریلین ڈالر کی زمین پر ہے۔ حکومت سندھ بھی اسٹیل مل کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے حکومت سندھ نے اسٹیل مل کو چلانے کی پیشکش کی تھی جس کا مقصد اسٹیل مل کو چلانا نہیں بلکہ اس کی اربوں روپے کی زمین کو ٹھکانے لگانا تھا۔

سندھ حکومت چاہتی ہے کہ اسٹیل مل کا منصوبہ ہمیشہ کےلئے ختم ہوجائے تاکہ زمین حکومت سندھ کو مل جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ بار بار کہہ چکے ہیں کہ اسٹیل مل کی زمین حکومت سندھ کی ملکیت ہے۔ اس طرح ریلوے اور حکومت سندھ کے درمیان تنازعہ موجود ہے۔ حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ ریلوے کی ساری زمین اس کی ملکیت ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kya Pakistan iqtisadi bohraan se nikal sakay ga is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 August 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.