موت یا شہادت؟

بھارت اورپاکستان کی نظریاتی لڑائی میں ایٹمی صلاحیت نے اس وقت بھارت کومتوجہ کیاجب وہ پاکستان کوصفحہ ہستی سے مٹانے کی سوچ رہاتھا۔ 1960ء میں بھارت نے جوہری پروگرام شروع کیا تاہم 1965ء کی جنگ تک یہ صلاحیت حاصل نہیں کرسکاتھااورپاک بھارت جنگ میں بھارت منہ کی کھاکرزخم خوردہ وحشی بن گیا

سمیع اللہ ملک جمعرات 4 اپریل 2019

moot ya shahadat?
کیاحالیہ پاک بھارت معرکہ آرائی نے دنیاکواپنے خنجرسے آپ خودکشی کرنے کی علامہ اقبال کی پیش گوئی پرلاکھڑاکیا ہے اوردنیاجودنیائے دولت کی نازک شاخ پرآشیانہ بنائے ہوئے ہے،اس کی تباہی سن رہی ہے۔اس وقت پاک بھارت ہی نہیں دنیائے عالم کومہلک ہتھیاروں سے خطرہ لاحق ہوچلاہے جودنیاکاسب سے خطرناک اورفیصلہ کن ہتھیارسمجھا جاتاہے،جس کوایٹم بم کہاجاتاہے۔

یہ آناًفاناً زندگی کی رمق چھین کردھرتی کوبانجھ کردینے کاحامل ہے جوجنگ کاآخری ہتھیارکہلاتاہے جس کاتجربہ سفاک امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیمااور ناگاساکی کوملیامیٹ کرکے فتح کے شادیانے بجائے اوراب تک اس ہلاکت کااجاڑ پن تباہ کاری کاسامان لئے ہوئے جائے عبرت ہے۔ یادرکھیں کہ6اگست1945ء کوگرائے جانے والے نومولودایٹم بم نے دولاکھ افرادکو موقع پرہی ہلاک کردیاتھا جبکہ زخمیوں کی تعداداس سے کہیں زیادہ تھی جو عمربھر کیلئے معذورہوگئے بلکہ اس واقعے میں دودرازبچ جانے والے افرادکے ہاں برسہابرس معذوراولاد جنم لیتی رہی اورآج تک ان دونوں علاقوں میں کوئی فصل پیدانہیں ہوسکی۔

(جاری ہے)

ان حملوں سے بچ جانے والوں نے دنیاکوالمناک ،دردناک داستانیں سنائیں اوران ہتھیاروں کے کھیل سے بازرہنے اورعبرت پکڑنے کی بات کواس قدراپنے پلے باندھاکہ مڑ کر اس کے قریب تک نہیں آئے۔بھارت اورپاکستان کی نظریاتی لڑائی میں ایٹمی صلاحیت نے اس وقت بھارت کومتوجہ کیاجب وہ پاکستان کوصفحہ ہستی سے مٹانے کی سوچ رہاتھا۔ 1960ء میں بھارت نے جوہری پروگرام شروع کیا تاہم 1965ء کی جنگ تک یہ صلاحیت حاصل نہیں کرسکاتھااورپاک بھارت جنگ میں بھارت منہ کی کھاکرزخم خوردہ وحشی بن گیا۔

پھر 1971ء کی جنگ میں اس نے مشرقی پاکستان کوجداکرنے میں اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کرپاکستان کے غداروں کی مددسے کامیابی حاصل کی تووہ فتح کے نشے میں بدمست ہوگیااور پوری طرح ایٹم بم کی تیاری میں جت گیا اور1974ء میں پہلاایٹمی دہماکہ کردیا۔
اس وقت پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت تھی جوبہرحال بڑے جرات مندفیصلوں کی صلاحیت کے حامل حکمران تھے۔

انہوں نے برملا اعلان کیاکہ میری قوم گھاس کھالے گی لیکن ایٹم بم ضروربنائے گی۔انہی دنوں فخرپاکستان ڈاکٹرعبدالقدیرخان کوفری ہینڈدے دیا گیا اورغلام اسحاق خان نے پاکستان کے خزانے کامنہ کھول دیاجس کے بعدناموراور گمنام ہیروزنے اس کام میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیالیکن اس کے ساتھ ہی امریکانے اپنادباوٴبڑھادیاکہ پاکستان کبھی بھی ایٹمی صلاحیت کے قریب بھی نہ جاسکے۔

ادھرامریکی استعمار کی تدبیرتھی اور ادھر میرے رب کی تدبیرغالب آئی۔1979ء میں سوویت یونین اپنے پسماندہ پڑوسی افغانستان میں پوری طاقت کے ساتھ آن دھمکا۔ان دنوں ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت کو ختم کرکے پاکستان میں جنرل ضیاء الحق اقتدارکی زمام کار سنبھال چکے تھے۔
امریکا،سوویت یونین سے حساب چکانے کیلئے آنکھیں موندے ایٹمی صلاحیت کی پاکستانی کوششوں پرخون کے گھونٹ پیتارہااورپاکستان نے1984ء میں کولڈاسٹارٹ تجربہ ایٹم بم کاکردیا۔

ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کے نام پراس ایٹم بم کاہلاکت سے پاک خوبصورت تجربہ بھارت پرکیااوراس وقت کے وزیراعظم راجیوگاندھی کوبرملابتادیاکہ کہ اگر بھارت نے جنگ چھیڑی تو پاکستان توشائدختم ہوجائے مگرپھربھی 56اسلامی ریاستیں دنیا میں باقی رہیں گی البتہ پوری دنیامیں واحدہندوریاست بھارت کانام ونشان مٹ جائے گا۔ 1998ء میں جب نوازشریف پاکستان کے وزیر اعظم تھے ،بھارت نے پانچ جوہری تجربات کرکے پاکستان کوہراساں کرنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ ٹھیک دھماکے کے آدھ گھنٹے کے بعدایڈوانی نے اپنی پریس کانفرنس میں آزاد کشمیرمیں ''ہاٹ پرسوٹ''کی کھلی دھمکی بھی دے ڈالی تونوازشریف پربھی ایٹمی دھماکہ کرنے کادباوٴ بڑھ گیا۔

ملک کے معروف صحافی مجیدنظامی مرحوم جوپاکستان میں ایک بہت بڑے صحافتی ادارے کے مالک بھی تھے ،انہوں نے نوازشریف کومشورہ دیاکہ اگراس نے اس موقع پردھماکہ نہ کیاتوقوم اس کادھماکہ کردے گی اوراس کے ساتھ ہی ڈاکٹرعبدالقدیرنے نوازشریف کوخط لکھاکہ اگرآپ نے اس وقت دھماکہ نہ کیاتومیں پوری قوم کوپریس کانفرنس کرکے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں اطلاع دیدوں گا۔

ان حالات میں نوازشریف نے باقاعدہ ایٹمی دھماکوں کی تیاری کی ہدایات جاری کردیں جس پر امریکانے ڈالرزکی بارش کے ذریعے ان کوروکنے کی ناکام کوشش کی لیکن پاکستان نے چاغی کے مقام پر''نعرہ تکبیر،اللہ اکبر''کی گونج میں پانچ کے مقابلے میں چھ جوہری دھماکے کرکے بھارت کومنہ توڑجواب دے دیا۔یوں پاکستان نے اللہ کے فضل وکرم سے بھارت پرایٹمی برتری ثابت کردی۔

اب پاکستان کے پاس 130سے 140اوربھارت کے پاس 120سے 130ایٹم بم ہیں اوراس کے ساتھ میرے ربّ ِ کریم نے پاکستان پر ایک اور خصوصی فضل فرمایاکہ بے نظیرکے دورحکومت میں شمالی کوریاکے تعاون سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کرکے اس پرہمارے سائنس دانوں کی مہارت نے اب میزائل ٹیکنالوجی کی دنیامیں اپناسکہ جمالیاجس کیلئے ساری دنیاکے دفاعی ماہرین اورسائنسدانوں کے سامنے مختلف تجربات نے اس کی تصدیق بھی کردی۔

فضاء سے فضاء میں،فضاء سے زمین پر،فضاء سے سمندرمیں،زمین سے زمین پر، سمندرسے فضاء میں میزائل قریب اوردورپھینکنے کی وہ صلاحیت حاصل کرلی ہے جودشمنوں کومنٹوں سیکنڈوں میں تباہ اور بربادکرنے کی حامل ہے۔اب توپاکستان کے پاس چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی بھی اطلاعات ہیں جن کی میدان جنگ میں فیصلہ کن حیثیت سمجھی جاتی ہے۔ تناسب کے لحاظ سے بھارت کوعددی برتری ضرور ہے مگرقوت و طاقت کے لحاظ سے اورمہارت کے حوالے سے پاکستان کی صلاحیتوں کی ایک دنیامعترف ہے۔

حال ہی میں پاکستان نے بھارت کے طیاروں کومار گراکرثابت بھی کردی ہے۔یہ کوئی فارسی پڑھنے کی بات نہیں جوبھارت نہ سمجھے اورایران سمجھ کربھی بھارت کی گودمیں جابیٹھے۔ایٹمی صلاحیت جنگ روکنے کابھی اہم ذریعہ ہے اوربھارت پاکستان کی اس صلاحیت سے خوفزدہ ہے۔وہ سرحدوں پرفوج تولاتاہے لیکن مہینوں اسے حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ 2002ء میں بھی وہ سرحدوں پر بھاری فوجی نفری اوربھاری ہتھیاروں کے ساتھ آیالیکن مہینوں خاک چاٹنے کے بعدپاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کے خوف سے ''لوٹ کے بنیاء گھر کو لوٹ گیا''۔

بھارت خوب جانتاہے کہ ایٹمی جنگ کیاہوتی ہے اورپاکستان کی تباہ کاری کی صلاحیت کہاں تک ہے۔اس وقت بھارت کاایک ایک چپہ پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کی باقاعدہ زدمیں ہے اوربھارت ہی نہیں بلکہ اس کے مربی بھی اس سے خوب آگاہ ہیں۔رسوال اکرم کافرمان امروزبھارت کی شکست کی انمٹ لکیرہے۔بھارت کے بت پرستوں کاانجام جو دنیاسے رخصت کے بعدسے آخرت کے میدان تک آگ میں جلناہے اوروہ موت سے خوفزدہ ہے کیونکہ ارشادربانی کامفہوم ہے جس میں وہ کافروں کومخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ ''اگرتم سچے ہوتوموت کی تمناکرو ''اوریہ حقیقت بھی ہے جس کوبھارت بھی سمجھتاہے۔

بھارت کے بت پرست جتناموت سے ڈرتے ہیں اتناپاکستانی شہادت سے محبت کرتے ہیں۔اگرپاک بھارت معرکہ آرائی بڑھی تودونوں ممالک ہی نہیں پوری دنیا تباہ کاری کاشکارہوجائے گی اوریہ خوف موت سے خوفزدہ عناصرکی نینداڑائے ہوئے ہے، چاہے وہ امریکاہویاان کے بیوپاری،وہ بھارت کی منڈی اجڑنے اورہتھیاروں کے کاروبارٹھپ ہونے کا اندیشہ کاشکاربھی بھارت کی تباہی سے ہیں۔
جنگ کی ترنگ انہیں حواس باختہ کئے ہوئے ہے اورمسلمان جہادکے جذبہ سے سرشارہیں ،یہی فرق مسلمانوں اورکافروں میں ہے۔ مسلمان جنگ کی تمنانہیں کرتامگراس پرتھوپ دی جائے تووہ پھرپیچھے نہیں ہٹتا کیونکہ وہ شہادت کاطالب اورجنت کامتمنی ہوتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

moot ya shahadat? is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 April 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.