پیپلز پارٹی کی ایم کیو ایم کو اتحاد کی دعوت

ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کی اس پیشکش پر ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے. بلکہ باوثوق ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے ترجمان نے کہا کہ ابھی تک انھوں نے اس پر کوئی سوچ بچار تو نہیں کیا

Chaudhry Amer Abbas چوہدری عامر عباس بدھ 1 جنوری 2020

Peoples Party Ki MQM Ko Ittehad Ki Dawat
گزشتہ دنوں کراچی میں چار مختلف میگا پراجیکٹس کے افتتاح کی ایک بہت بڑی تقریب کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی کیساتھ صوبہ سندھ کی حکومت میں اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے وفاق میں ایم کیو ایم کو جتنی وزارتیں دی ہوئی ہیں پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو اتنی ہی وزارتیں صوبہ سندھ کی حکومت میں دینے کیلئے تیار ہے بشرطیکہ ایم کیو ایم پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دے.

ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کی اس پیشکش پر ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے.

(جاری ہے)

بلکہ باوثوق ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے ترجمان نے کہا کہ ابھی تک انھوں نے اس پر کوئی سوچ بچار تو نہیں کیا لیکن ملک کے مفاد میں وہ کسی بھی سیاسی جماعت کیساتھ چل سکتے ہیں. اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی اگرچہ اتحادی ہیں لیکن ان کے درمیان تعلقات اتنے خوشگوار نہیں ہیں جس قدر ہونے چاہئیں.

ایم کیو ایم کے ترجمان وقتاً فوقتاً اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں. معلوم ہوتا ہے کہ اسی بات کو بھانپتے ہؤے پیپلزپارٹی کی طرف سے یہ پیشکش کی گئی ہے. سیاسی جماعتوں کے درمیان بیک ڈور رابطے تو پہلے بھی چلتے ہی رہتے ہیں اور یہ جمہوری عمل کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس طرح کھل عام ایک تقریب کے دوران ایک پارٹی چیئرمین کی طرف سے دوسری جماعت کو اتحاد کی پیشکش بہت کم ہی دیکھنے میں آئی ہے.

پی ٹی آئی کی طرف سے بھی اس سے قبل پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے کے بیانات سامنے آتے رہے ہیں تو ایسے میں پیپلز پارٹی کی طرف سے ایم کیو ایم کو اتحاد کی دعوت دینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے. اس کو معمول کے مطابق ایک سیاسی بیان ہی سمجھا جائے. اگر وسیع تناظر میں دیکھیں تو ایم کیو ایم جو کہ کافی عرصہ سے مشکلات کا سامنا کر رہی ہے اب اس کے لیے ماحول کافی بہتر ہوتا ہوا نظر آتا ہے.

دوسری بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے پہلے بھی پیپلز پارٹی کیساتھ کافی عرصہ تک اتحادی کے طور پر کام کیا ہے اس دوران کافی اونچ نیچ بھی آتے رہے بہرحال پھر بھی دونوں جماعتوں کو اکٹھے کام کرنے کا پہلے بھی کافی تجربہ ہے. اگرچہ پیپلزپارٹی کا اپنا مزاج ہے اور ایم کیو ایم کا اپنا مزاج ہے. لیکن چونکہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم اس سے قبل بھی کافی عرصہ اتحاد کرکے کام کر چکے ہیں لہٰذا دونوں جماعتوں کے درمیان کافی حد تک مزاج آشنائی تو پہلے سے ہی موجود ہے لیکن اگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کے پاس اب اتنی ذیادہ نشستیں نہیں ہیں جتنی پہلے ہوا کرتی تھیں.


یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے دو اہم اراکین آج بھی پی ٹی آئی حکومت میں وفاق کے اندر کافی اہم وزارتوں پر براجمان ہیں. وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم عمران خان کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں. اس سے بھی دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک تقریب کے دوران عمران خان نے ایم کیو ایم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ جماعت بہت نفیس لوگوں پر مشتمل ہے.

ان کے نظریات بہت واضح ہی. اپنی تقریر کے احتتام میں وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اگلا الیکش پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم مل کر لڑیں گے.
اب پیپلزپارٹی کے چیئرمین کی حالیہ پیشکش کو دیکھیں تو انتہائی دلچسپ منظرنامہ بنتا ہوا نظر آتا ہے. اب پی ٹی آئی بھی صوبہ سندھ کے اندر کافی نشستیں رکھنے والی جماعت ہے اور پی ٹی آئی سندھ کے اندر بہت تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی جماعت ہے.

بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان سے قبل پی ٹی آئی بھی کئی بار سندھ کے اندر گورنر راج کی باتیں کرتی رہی ہے. اب بلاول بھٹو زرداری کے بیان کیساتھ کھیل ایک دلچسپ مرحلے میں داخل ہوتا ہوا نظر آتا ہے. پیپلزپارٹی ہمیشہ سے ہی جمہوریت کی قائل رہی ہے اور کہتے رہے ہیں کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے تو بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے والی بات بہت عجیب لگتی ہے.

بلاول بھٹو زرداری کی اس پیشکش کی ٹائمنگ بڑی حیرت انگیز ہے. اگر ہم حکومت کی دیگر اتحادی جماعتوں کو دیکھیں تو جی ڈی اے نے واضح طور پر حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے. اختر مینگل کے حالیہ بیانات کو دیکھیں تو وہ بھی حکومت سے کھچے کھچے نظر آتے ہیں. اب ایسے وقت میں بلاول بھٹو زرداری کی یہ پیشکش بہت اہمیت اختیار کر جاتی ہے.

اب بلاول بھٹو زرداری نے کس تناظر میں یہ بات کہی ہے یہ آنے والے دنوں میں ہی واضح ہو پائے گا. لیکن یہاں یہ امر بھی دیکھنا ہو گا کہ اس وقت ایم کیو ایم کے پاس اسقدر نشستیں نہیں ہیں جتنی اس سے پہلے ہوتی تھیں. لہٰذا موجودہ وقت میں پیپلز پارٹی کی پیشکش قبول کرنا ایم کیو ایم کیلئے کافی مشکل ہے. اگر فرض کر لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیج بھی دیا جاتا ہے جو کہ فی الحال ممکن ہی نہیں ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاق میں حکومت کون بنائے گا؟ کیونکہ پیپلزپارٹی تو پھر بھی وفاق میں حکومت بنا نہیں پائے گی.

ویسے بھی اب تو ایم کیو ایم پی ٹی آئی کی اتحادی ہے. فروغ نسیم بھی وزیر اعظم عمران خان کے کافی قریب سمجھے جاتے ہیں. لہٰذا ایم کیو ایم وفاق سے الگ ہونے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی. ہاں البتہ اگر کل کو ہواؤں کا رخ بدلتا ہے تو اور کوئی نئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو پھر شاید ایم کیو ایم کوئی ایسا فیصلہ لے لے. فی الحال میرے خیال میں ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کی پیشکش کا کوئی مثبت جواب نہیں دے گی اور وفاق کے اندر پی ٹی آئی کیساتھ اتحاد میں شامل رہے گی لیکن ماہرین سیاسیات کے مطابق پی ٹی آئی کیساتھ بارگیننگ کی پوزیشن میں آ گئی ہے.
ملک اب بہت نازک دور سے گزر رہا ہے.

ملک کی معیشت بھی بہت کمزور ہے. اس وقت ہم کسی طرح کے بھی سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتے. ہمیں داخلی اور خارجی معاملات میں بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے. اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی بیحد ضرورت ہے. لہٰذا یہ جمہوری عمل جاری و ساری رہنا چاہیے تاکہ حکومت عوامی مسائل کے حل کیلئے بھی سنجیدگی سے کوششیں کر سکے جو کہ ایک جمہوری نظام کا فرض ہوتا ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Peoples Party Ki MQM Ko Ittehad Ki Dawat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 January 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.