پی پی پی اور ن لیگ میں قربتیں پھر بڑھنے لگیں !

کیا نواز شریف کی سچائی ثابت ہو گئی؟ کلثوم نواز کو اپنی بیماری کا یقین دلانے کے لئے مرنا پڑا

جمعہ 5 اکتوبر 2018

ppp aur N league mein kurbateen phir bharnay lage
 عارف ایرانی
محترمہ فاطمہ جناح مادرِ ملت ،بینظیر شہید ،عاصمہ جہانگیر ،کلثوم نواز اور دیگر خواتین کا بے مثال کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جنہوں نے آمریت کے خلاف مثالی جدوجہد کی اور ہمیشہ آمریت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اپنی اس جدوجہد کی وجہ سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی شہرت دوام ائی بیگم کلثوم نواز کا جنازہ اُن چند جنازوں میں ایک تھا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔

ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ جوق در جوق آئے اور جنازے میں شریک ہو کر اپنی عقیدت محبت وبے پناہ خلوص کا اظہار کیا اور ”تعزیت“بھی کی ہر دل سے بیگم صاحبہ کے لئے دعائیں نکلتی رہیں کئی کئی کلومیٹر لوگ”پیدل “چلتے ہوئے آئے اور جنازے میں شرکت کی ایسا منظر بی بی شہید کی شہادت پر دیکھنے میں آیا اور آج کلثوم نواز کی رحلت پر ہر آنکھ اشکبار ،ہر چہرہ غمز دہ ،دشمن مخالف سب آپ کی رحلت پر اپنے غم کا اظہار کررہے تھے۔

(جاری ہے)


عام طور پر سیاسی جلسوں میں شرکت کرنے والوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ ان کو لایا گیا ہے لیکن بیگم صاحبہ کے جنازے میں لوگ اپنی عقیدت ومحبت کے لئے شریک ہوئے وہ سمجھتے تھے کہ بیگم صاحبہ مثالی اور غیر متناز عہ شخصیت ہیں ۔ہر ایک کیلئے ہمدردی ،شفقت ،محبت رکھتی تھیں ،ان کی کسی بات پر کبھی کسی کی دل آزادی نہیں ہوئی ،ایسی باوقار خاتون تھیں وہ ۔


مشرف کے خلاف تن تنہا میدان میں نکل آئیں انجام کی پرواہ کئے بغیر اور اس کے ”اعصاب “پر چھائی چلی گئیں اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ ”ان کو وطن سے بے وطن کر دیا جائے اس نے ان کو ”دیس نکالا“ دے دیا۔بیگم صاحبہ نے تاریخی جملہ کہا۔”ہم بھاگ نہیں رہے ہم کو نکالا جا رہا ہے “بعد میں سیاستدان نے شریف خاندان کی”جلاوطنی“کو اپنی اپنی مرضی کے رنگ دےئے اور معنی پہنائے ۔

کسی نے بھگوڑا کہا، کسی نے کہا ٹھیک ہوا،”کسی نے کچھ کسی نے کچھ ”،غرض ہر طرح کی تاویلیں گھڑی جاتی رہیں ۔لیکن سب کچھ غلط ثابت ہوا۔میاں صاحب اور بی بی شہید واپس آئے اور ثابت کر دیا کہ عوام ان کے ساتھ ہے ۔
”آمروں “کے ساتھ نہیں ۔میاں صاحب اور بی بی شہید وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے ان کی حکومتیں بنیں ان پر الزام لگانے والوں کوشرمندگی کے سوا کچھ نہ ملا،آج بھی وہ بدنام زمانہ ”ڈکٹیٹر“دربدر کی ٹھو کریں کھا رہا ہے اس میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں کہ ملک میں واپس آکر مقدمات کا سامنا کرتے ۔

ایک کمانڈواتنا بزدل ہو گا یہ کبھی دیکھا نہ سُنا۔جو قوتیں اُس کو تحفظ فراہم کرتی آرہی ہیں ان کو چائے اگر عوام کا منتخب وزیراعظم جو تین باروزارت عظمیٰ پر فائز رہا۔اتفاقات اور مفروضوں پر مبنی مقدمات میں ضمانت سے نواز شریف کی سچائی ثابت ہوگئی اس لئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف ان کی صاحبزادی اور داماد کی ضمانت منظور کر لی۔
تین بار خاتون اول رہنے والی ہستی کی بیماری کو بھی نہیں بخشا گیا۔

بیمار ذہن کے لوگوں کی سوچ اور ان کے کردار پر افسوس ہوتا ہے جو محترمہ کی بیماری کو ”ڈرامہ “قرار دیتے رہے۔ایک سال 25دن کینسر کے موذی مرض کے ساتھ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہیں ۔مخالفوں کے بیانوں میں کمی واقع نہیں ہوئی ۔اُنہوں نے اپنے اندر کے گند کو نہ صرف باہر نکالا اپنی نفرتوں کا اظہار بھی کھل کر کیا۔ہم اس کو حسد کہیں ،بعض کہیں ،عناد کہیں جو بھی کہہ لیں یہ حقیقت ہے کہ اُنہوں نے پست ذہنی کا ثبوت دیا ہے ۔


اُ ن کی یہ بد ضمیری شاید ساری زندگی اُن کو اس کا احساس دلاتی رہے گی،ہم کیسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں موت وحیات کی ”کشمکش“میں مبتلا لوگوں کو ”مرکر اپنی بیماری کا یقین دلانا پڑتا ہے “بیگم کلثوم نواز بھی مرکرامر ہو گئیں اور اپنی بیماری کا یقین بھی دلا گئیں جس کے لئے اُن کو مرنا پڑا ،یہ لوگ تو مر کرامر ہو جاتے ہیں اور وہ لوگ اپنی بد اخلاقی کی موت مرجاتے ہیں وہ کس طرح ”یقین دلائیں گے“۔

کیا لوگوں نے نہیں دیکھا کہ لوگوں کی شرکت اندرون ملک میں تو رہی بیرون ملک سے بھی بڑی تعداد نے شرکت کی جن کو اس خاندان سے ہمدردی تھی۔
جو اس خاندان کو محترم جانتے تھے جن کو اس خاندان کی ”پارسائی “کا یقین تھا۔جس طرح پاکستانیوں نے اپنی تعزیت کا اظہار اس غمز دہ خاندان سے کیا ”غیر ملکیوں نے بھی بیگم صاحب کی رحلت پر اپنے غم اور دُکھ کا اظہار کیا۔

غیر ملکی حکومتوں کے سربراہوں اُن کے ملک میں مقیم ”سفراء “نے خود جنازے میں شرکت کرکے اپنی حکومت کی طرف سے تعزیت کی۔چین فرانس ترکی ایران سعودی عرب قطرمتحدہ عرب امارات کے علاوہ تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں نے شریف خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور تعزیت کی یہ کسی گواہی سے کم نہیں ،شریف خاندان پر لگنے والے یا لگائے جانے والے الزامات کو سیاسی اور انتقامی سمجھتے ہو اس پر یقین نہ رکھنے کی گواہی دی چوروں ڈاکوؤں کے جنازوں پر ”تعزیتی“ہمدردیاں نہیں کی جاتیں ۔

قطر کے حکمران کے بھائی خصوصی طیار ے پیرس سے آئے تعزیت کے لئے ،پچھلے 2سال سے میاں نواز شریف سیاسی انتقال کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔
ان پر چلنے والے مقدمات پر بھی رائے زنی ہورہی ہے ۔ماہرین قانون بھی اس کو صاف وشفاف قرار نہیں دیتے ۔کل ماہر قانون ”عرفان قادر “ایک نجی ٹی وی میں اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ سب غلط ہورہا ہے ۔ان مقدمات پر پہلے دن سے اعتراضات تھے اس پر سزا معطلی کا فیصلہ آجانے سے شریف برادران کی سچائی سامنے آگئی ۔

اس کے باوجود یہ بحرانوں کا شکار خاندان انتہائی صبرو استقامت سے حالات کا مقابلہ مردانہ وار کرتا آرہا ہے۔
اتنے بڑے غم سے گزرنے کے بعد بھی میاں صاحب ”صبر واستقامت “کی تصویر بنے ہوئے ہیں وہ لوگ جو اَب اُن کے پیچھے ہیں کہ میاں صاحب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں ان سے عرض ہے کہ ان کے چہرے کو غور سے دیکھیں وہاں آپ کو ”عضولی اعصاب “استقامت اور صبر کی تمام علامتیں نظر آئیں گی۔

وہ اس غم کو بھی پی جائیں گے کسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر نہیں آئے وہ بلکہ صبر کی علامت بن چکے ہیں ۔جو شخص ”پیرول “پر رہائی نہیں چاہتا ۔حکومت سے کسی رعایت کا طالب نہیں وہ کیسے پست حوصلہ ہو سکتا ہے ،اس کے صبر کی انتہا تو یہ ہے کہ اُس نے “”صبر کیا صبر بھی قیامت کا “․․․․
میاں صاحب کے سیاسی قد کاٹھ میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی وہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور توانا نظر نہیں آتے ہیں ۔

بیگم صاحبہ کی ”رسم قل “ادا کرنے کے بعد وہ جیل منتقل ہو گئے ہیں اُن کی بیٹی اور داماد بھی ۔“بیگم کلثوم نواز“ہی تھیں جن کی مشاورت سے ”مریم نواز“کو میدان سیاست میں اتارا گیا۔ٹی وی کی ایک خبر سٹکر کی شکل میں چل رہی تھی کہ ”مریم نواز “کا سیاسی کردار اب ختم ہوتا نظر آرہا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں مریم کا ”سیا سی کردار “تواَب شروع ہوا ہے ۔

میاں صاحب اُن کی بیٹی ،اُن کا خاندان پہلے سے زیادہ مضبوط اور معتبر ہوا ہے ۔مئورخ اس بات کی ثابت کرے گااور آنے والے دن بھی ۔”نا انصافیوں کے یہ دن زیادہ عرصہ نہیں رہیں گے بہت کچھ بد لے گا ۔چوروں ڈاکوؤں اور کرپشن میں ڈوبے لوگوں کے لئے اندرون و بیرون ملک ”محبتوں “کا تصور کیا جا سکتا تھا جو اس خاندان کو ملی ہیں جس طرح ان کے غم اور دکھ میں شرکت کی گئی ہے وہ ثبوت ہے ان کی پارسائی اور نیک نامی کا جنہوں نے بد نام کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

ان کے لئے میر تقی میر کا یہ شعر ہی کافی ہے :
”ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختار کی ․․․․چا ہتے ہیں سو آپ کریں ہم عبث بد نا م کیا“
کوئی فرق نہیں پڑتا وقت سے بڑا منصف کوئی نہیں ہوتا ۔اُس کے فیصلے کبھی غلط ثابت کبھی غلط ثابت
 نہیں ہوتے ۔آصف علی زرداری بلاول بھٹو زرداری اور چودھری شجاعت کا تعزیت کے لئے آنا ،غمزدہ خاندان اور میاں نواز شریف کیلئے ”تقویت “کا باعث بنے گا،گلے شکوے ہوئے اپنے اپنے غم کے فسانے بھی سنا ئے گئے ۔

زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان جیل کے حالات پر بھی باتیں ہوئیں ان کا خلوص ومحبت کے ساتھ آنا بہت بڑی بات ہے صاحب ظرف ایسے ہی ہوتے ہیں ،پچھلی کدورتوں کو بُھلا دینا ہی بہتر ہے اس وقت کا گلے ملنا آنے والے دنوں کے لئے یہ اچھی نوید ثابت ہو گا ۔سیاست اپنی جگہ ذاتی تعلق ومحبت میں کمی نہیں آنی چا ہیے۔اللہ تعالیٰ ان بہادر نڈر باوقار خواتین کے درجات کوبلند فرمائے ۔”جمہوریت کی علمبر دار یہ خواتین سرمایہ ملت ہیں “۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

ppp aur N league mein kurbateen phir bharnay lage is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 October 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.