سانحہ کولگام اور 27 اکتوبر کا یوم سیاہ

یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ویسے بھی 60 یا 70 برس قوموں کی زندگی میں کوئی بڑا وقفہ نہیں ہوتے۔ 27 اکتوبر 1947ء کو بھارت کی فوج کشمیر میں داخل ہوئی جسے گزشتہ 70 برس سے کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔

ہفتہ 27 اکتوبر 2018

saneha kolgam aur 27 october ka yom e siyah
جی این بھٹ
یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ویسے بھی 60 یا 70 برس قوموں کی زندگی میں کوئی بڑا وقفہ نہیں ہوتے۔ 27 اکتوبر 1947ء کو بھارت کی فوج کشمیر میں داخل ہوئی جسے گزشتہ 70 برس سے کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس روز پوری دنیا میں کشمیری اپنے وطن پر بھارتی فوج کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کشمیریوں کے حق میں اقوام متحدہ میں رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی قرارداد منظور کرنے کے بعد نجانے کہاں سو گئی ہے۔

یہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی منظور شدہ قراردادوں پر عمل بھی کرائے۔ بھارت ستر برسوں میں کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا گیا۔

(جاری ہے)

عالمی برادری اور اقوام عالم کا ضمیر چپ رہا۔ اس کے باوجود کہ کشمیری نہتے ہیں۔ انہوں نے 1947ء سے لے کر 2018ء تک اپنی تحریک آزادی کو چلا رہے ہیں۔ بھارت کا کوئی دبائو، جبر یا دھونس ان کو نہ جھکا سکا نہ دبا سکا۔

7 لاکھ سے زیادہ فوجی پوری وادی کشمیر کے چپے چپے میں تعینات ہے۔ نہتے کشمیریوں کو آئے روز شہید کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں وہ ممنوعہ ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں جن پر اسرائیل بھی پابندی لگا چکا ہے۔ان پیلٹ گنوں کی وجہ سے ہزاروں کشمیری معذور ہو گئے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ ملک کر رہا ہے جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتے ہوئے نہیں شرماتا۔

27 اکتوبر 1947ء کو شروع ہونے والا کشمیریوں کی بدبختی کا دور آج 2018ء تک جاری ہے۔ اس ماہ اکتوبر میں گزشتہ روز کشمیر کی تاریخ کا ایک اور یوم سیاہ بھی رقم ہوا جو سانحہ کولگام کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔ 22 اکتوبر 2018ء کو بھارتی فوجیوں نے جس بربریت کے ساتھ 3 مجاہدوں کی شہادت پر احتجاج کرنے والے پرامن مظاہرین کو جو نہتے تھے براہ راست فائرنگ کی اس سے 10 افراد شہید ہو گئے۔

50 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اس پر پوری وادی غم و اندوہ میں ڈوب گئی اور مکمل شٹر ڈائون ہو گیا۔ بھارتی غاضب افواج نے مختلف شہروں میں کرفیو نافذکر رکھا ہے۔ حریت قیادت گھروں میں نظربند ہے۔ یاسین ملک جیل سے گزشتہ روز رہا ہوئے وہ روپوش ہو گئے۔ کیونکہ 23 اکتوبر کو حریت کانفرنس نے لال چوک پر دھرنے کا اعلان کیا تھا۔ وہ صبح سویرے قریبی مسجد سے لوگوں کے ساتھ لال چوک کی طرف بڑھے تو فوج نے انہیں مزاحمت کے بعد پھر گرفتار کر لیا۔

شہر میں کرفیو تھا پوری وادی کشمیر میں بارہ مولا سے لے کر کشتواڑ تک رام بن سے لے کر کرگل تک مکمل ہڑتال ہے۔
پوری وادی شہدائے کولگام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے بند ہے۔ شہدائے کولگام نے اپنے لہو سے ایک بار پھر پوری وادی کشمیر کے مسلمانوں کو یکجان کر دیا ہے۔ یہ اتحاد ی کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ شرم کی بات یہ ہے کہ مجاہدین کی شہادتوں کی وجہ مقامی مخبر بتائے جاتے ہیں جن کو بھارتی فوج بھاری معاوضہ ادا کرتی ہے۔

کئی مخبروں کو مجاہدین نے پکڑنے کے بعد معافی دی تھی مگر یہ سلسلہ نہیں رکا تو اب ان کے لیے مجاہدین کی طرف سے سزائے موت تجویز ہوئی ہے جو ایک درست قدم ہے۔ اسی طرح مجاہدین نے جموں کشمیر پولیس کے مقامی مسلمان و غیر مسلم اہلکاروں سے اپیل کی ہے کہ وہ احتجاجی مظاہروں پر تشدد سے گریز کریں اس پر کئی پولیس اہلکاروں نے نوکری چھوڑ دی مگر باقی باز نہ آئے تو ان کے لئے بھی اب موت کی سزا کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔

کئی مقامی مخبر اور تشدد میں پولیس اہلکار مجاہدین کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ مگر بھارتی افواج کی طرف سے درندگی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ جس کے جواب میں اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیری اس ظلم و تشدد کا جواب اس انداز میں دیں جس طرح 1990 میں دیا جانے لگا تھا۔ تب پوری وادی مسلح مجاہدین کے قدموں تلے تھی۔ بھارتی فوج چھائونیوں تک محدود تھی۔ کاش اس وقت بھی مقامی مخبروں اور بھارت نواز غدار کشمیریوں نے غداری نہ کی ہوتی تو آج کشمیر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔

اس وقت بد قسمتی یہ بھی تھی کہ میڈیا کمزور تھا۔سوشل میڈیا کا تصور ہی نہیںتھا سخت پابندیوں کی وجہ سے بھارتی مظالم دنیا کے سامنے بے نقاب نہیں ہو سکے تھے۔ صرف اے ایف پی، بی بی سی یا وائس آف امریکہ کے توسط سے کچھ خبریں باہر آتی تھیں۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ رتی بھر خبر بھی چند سکینڈوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ پڑھے لکھے کشمیری اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جس سے بھارت پریشان ہے۔

نئی نسل جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا رہی ہے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر پھیلا رہی ہے۔ تحریک آزادی میں پڑھے لکھے پی ایچ ڈی نوجوان اسلحہ اٹھا کر شامل ہو رہے ہیں۔ بھارتی ظلم و بربریت اور دھونس و دھاندلی سے کوئی خوفزدہ نہیں ہوتا۔ 1990ء کی دہائی میں ہر قسم کے نوجوان کلاشنکوف اٹھائے تحریک میں شامل تھے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کا رجحان اس طرف کم تھا۔

مگر اب 2018ء میں گریجویٹ، ایم ایس، ایم فل، پی ایچ ڈی والے نوجوان پروفیسر، ڈاکٹرز تک کلاشنکوف اُٹھا کر بنا کسی ترغیب و لالچ کے اپنے وطن کی آزادی کی جنگ میں شامل ہو رہے ہیں اور یہ سب کچھ کشمیری نوجوان کسی کے ورغلانے پر نہیں‘ اپنی مرضی سے کر رہے ہیں۔ کیا یہ بھارت کی مکمل ناکامی نہیں کہ 70 سال تمام تر کوششوں مظالم اور سیاسی مراعاتوں کی باوجود کشمیری بھارت سے علیحدگی چاہتے ہیں۔

وہ آزادی کے سوا کسی اور بات پر رضا مند نہیں۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ کشمیری بنا کسی معاوضہ کے تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہاں پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں۔
شہدا کے قبروں پر پاکستانی پرچم نصب کرتے ہیں۔ بھارتی فوج کے سامنے پاکستانی پرچم کے سائے تلے مظاہرے کرتے ہیں۔ گولیاں کھاتے ہیں۔ 22 اکتوبر 2018ء کے سانحہ کولگام کے بعد حریت کانفرنس پر سخت دباؤ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ عوامی دباؤ برداشت کرتے ہوئے سیاسی مذاکرات کی میز پر پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل کرمسئلہ کشمیر کے حل کے اصولی مؤقف پر کاربند رہتی ہے جس کا اقوام متحدہ بھی وعدہ کر چکی ہے کہ کشمیر میں پاکستان اور بھارت میں رائے شماری کرائیں تا کہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں یا اب وہ موجودہ خطرناک حالات میں مسلح مجاہدین کے طرف سے ایک بار پھر 1990ء کی طرح کلاشنکوف اٹھانے کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار اُٹھا کر جنگ آزادی لڑنے کی راہ اپنائیں گے۔

اس وقت مسئلہ کشمیر غزہ اور شام بن چکا ہے۔ جہاں اب مارو یا مر جاؤ کے سوا بھارت نے کوئی راہ نہیں چھوڑی اگر حُریت کانفرنس جلد کوئی فیصلہ نہیں کرتی تو خطرہ ہے کہیں مشتعل کشمیری اب اپنے فیصلے خود نہ کرنے لگیں جس کامظاہرہ برہان وانی شہید کی شہادت کے بعد سنگبازوں کی شکل میں سامنے آچکا ہے۔ اب کشمیری کسی واقعہ کے خلاف رد عمل میں حُریت کانفرنس یا مجاہدین کی طرف نہیں دیکھتے از خود کارروائی کرتے ہیں۔

ہڑتال ہو یا مظاہرہ اب سب ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ بس اب فیصلہ کرنا ہے کہ پتھر پھینکنے کی بجائے اب انتفاذہ کی طرز پر غلیل اور پٹرول بم استعمال ہو گا یا نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر وہی نہتے ہاتھ غلیل، پٹرول بم سے آگے نکل کر پھر کلاشنکوف اُٹھا لیں گے۔ جس کے لئے پاکستان کو تیار رہنا ہو گا۔ بھرپور مدد کے لئے کیونکہ جنگ آزادی کا یہ آخری مرحلہ بھارتی فورسز کی مقبوضہ وادی سے واپسی سے ہی مکمل ہو گا۔

یہ تخت یا تختے کا مرحلہ ہے اگر پاکستان مشرف دور میں ہاتھ نہ کھینچتا مجاہدین کے مراکز بند نہ کرتا گارگل سے شرمناک واپسی نہ ہوتی تو بات کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہوتی۔ اب ایک ہی نعرہ باقی ہے وہ ہے۔ کشمیر بنے گا قبرستان بھارتی فوج کے لشکر کا۔ یہ بات بھارت نواز سیاستدان غدار کشمیری، بھارتی مخبر اور سرکاری اہلکار بھی جان لیںتو بہتر ہے ورنہ پھر ان کا بھی خاتمہ قریب ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

saneha kolgam aur 27 october ka yom e siyah is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 October 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.