
سینیٹ میں امیدواروں کی آزادانہ”بولیاں“
حفیظ شیخ کی ناکامی اور یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے کئی راز فاش کر دئیے
پیر 15 مارچ 2021

سیانے کہتے ہیں کہ”آغاز سے پہلے ایک نگاہ انجام پر بھی ڈال لینا انسان کے لئے بہتر ہوتا ہے اور اپنے کسی بہت ہی پیارے کے ساتھ مذاق کرنے سے قبل کم از کم سو بار تو ضرور سوچ ہی لینا چاہئے کیونکہ تمام جھگڑے ہنسی مذاق کے بطن سے ہی جنم لیتے ہیں“مگر چونکہ آج کل ہماری سیاست میں سیانے پائے ہی نہیں جاتے لہٰذا سیاست کے متعلق یہ ہی سیانے کچھ یوں فرماتے ہیں کہ”سیاست میں تمام مذاق ”سیاسی جھگڑے“ کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں“یعنی 2 سیاسی جماعتوں کے درمیان جتنے مضبوط اور قدیم سیاسی جھگڑے ہوں گے یقینا پھر سیاسی مذاق بھی اُتنا ہی واہیات اور ہنسا ہنسا کر رلا دینے والا ہو گا،حیران کن طور پر سندھ کی سیاست کی حد تک تو سیانوں کی یہ بات اس بار بھی 100 فیصد درست ثابت ہوئی ہے اور واقعی تازہ ترین ”سیاسی مذاق“ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے دیرینہ”سیاسی جھگڑے“ کی سنگینی،شدت اور طوالت کی پوری طرح سے عکاسی بھی کرتا ہے۔
(جاری ہے)
پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ میں صرف اپنے ووٹ ملتے تو اس کی سینیٹ کی 6 نشستیں بنتی تھیں لیکن سندھ میں سیاسی مفاہمت کے تازہ ترین دور کا آغاز ہونے کا بعد یہ نیا بندوبست ہوا کہ پیپلز پارٹی کو سندھ سے 6 کے بجائے با آسانی سینیٹ کی 7 عدد نشستیں حاصل ہو گئیں ہیں یقینا یہ کمال وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی انتظامی صلاحیتوں کا ہی ہے کہ جنہوں نے بروقت تحریک انصاف کے اہم ترین رہنما حلیم عادل شیخ جیل کی چار دیواری تک پہنچا کر تحریک انصاف کی صفوں میں سراسیمگی پیدا کر دی جس کے باعث سندھ سے پیپلز پارٹی 6 کے بجائے7 نشستیں کمال سیاسی مہارت و مفاہمت سے جیت جانے میں کامیاب ہو گئی ہے دوسری جانب پیپلز پارٹی سینیٹ کی اضافی نشستوں کے حصول کیلئے بلوچستان میں اس غیر معمولی سیاسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی جس کے پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے دعویٰ کئے جا رہے تھے۔ذرائع کے مطابق بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کی سیاسی تمنائیں کماحقہ پورا ہونے سے اس لئے رہ گئیں ہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) ابھی تک مقتدر حلقوں کی نظروں سے اس قدر نہیں گری ہے کہ اس کے سارے ووٹ ہی پیسے کی طاقت سے خرید لئے جاتے بلاشبہ باپ پارٹی کی اپنی زیادہ تر سینیٹ نشستیں جیت جانے کی وجہ سے سینیٹ کے ایوان میں تحریک انصاف کم از کم معمولی سی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو ہی گئی ہے،واضح رہے کہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کو سینیٹ میں ملنے والی سادہ اکثریت اپوزیشن جماعتوں کو ایوان بالا میں دیوار سے لگانے کے لئے کافی و شافی ”سامان سیاست“ ہر گز مہیا نہیں کر سکے گی بلکہ الٹا اب تو تحریک انصاف کو سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کا دباؤ مسلسل برداشت کرنا ہو گا تاہم سینیٹ انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کا کھیل ختم نہیں بلکہ شروع ہوا ہے۔
سندھ کی سیاست پر سینیٹ انتخابات کے ممکنہ نتائج کے انتہائی دور رس مثبت یا منفی سیاسی اثرات مرتب ہونے کی قوی امکانات پائے جاتے ہیں کیونکہ اگر عمران خان سینیٹ کے ایوان میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو وہ سب سے پہلے 18 ویں ترمیم میں ردو بدل یا پھر اس کی تنسیخ کا اقدام ہی کرتے اور یہ اندیشہ اس لئے بھی عین قرین قیاس لگتا تھا کہ گزشتہ 3 برس کے دوران بطور وزیراعظم پاکستان عمران خان ایک سے زائد بار اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں۔وفاقی حکومت کی مثالی انتظامی کارکردگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ 18 ویں ترمیم ہے۔لہٰذا حالیہ سینیٹ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی جیت 18 ویں ترمیم کی آئینی زندگی کے لئے یقینی طور پر موت کا پروانہ ثابت ہو سکتی تھی اور اس بات کا بخوبی ادراک پیپلز پارٹی کو قیادت کو بھی ہے یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی،اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے ساتھ مل کر سینیٹ کے ایوان میں تحریک انصاف کو اقلیتی جماعت میں بدلنے کا ناقابل یقین اَپ سیٹ کر دکھایا یوں اب 18 ویں ترمیم کی متوقع آئینی موت کے خطرات بھی وقتی طور پر ٹل گئے ہیں۔سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کی کامیابی نے سندھ حکومت کے حوصلے بھی خوب بلند کر دیئے ہیں۔جس کے مثبت اور منفی اثرات سندھ کے سیاسی منظر نامے میں جلد ہی ملاحظہ کے لئے دستیاب ہوں گے۔
یاد رہے کہ حفیظ شیخ کی عبرت ناک شکست اور یوسف رضا گیلانی کی فقید المثال جیت نے جس طرح سے تحریک انصاف کی حکومت کے اعتماد کے پرزے پرزے کئے ہیں یقینا وہ مناظر پاکستانی سیاست میں مدتوں یادگار رہیں گے کیونکہ گزشتہ 3 برسوں کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے متحدہ اپوزیشن کو اپنے خلاف کسی ایک محاذ پر بھی جیت کا معمولی سا مزہ بھی چکھنے نہیں دیا تھا مگر اتنی پے درپے سیاسی شکستوں کے بعد اچانک سے سینیٹ انتخابات میں ایک ناقابل یقین اور غیر معمولی فتح نے کم از کم اس بات پر تو پوری طرح سے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کے پاس”سیاسی تجربہ“ عمران خان سے کہیں زیادہ ہے مگر دوسری جانب حالیہ سینیٹ انتخابات میں آزادانہ خرید و فروخت نے یہ تلخ حقیقت بھی عوام پر آشکار کر دی ہے کہ پاکستان میں ”توازن“ شاید اب کبھی بھی درست نہیں ہو سکے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Senate Main UmeedWaroon Ki Azadana Booliyaan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 March 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.