ترکی میں قبل ازوقت انتخاب اور جشنِ استنبول

سلطنت عثما نیہ چار صدیوں تک ایشیا ،یو ر پ اور افریقہ میں جاہ و جلال سے حکمران رہی طیب اردگان نے شب وروزکی محنت سے استنبول کو ایک بار پھر عروس البلا د بنا یا ، اس کا مر جھا یا ہوا چہرہ نیر تاباں بنا دیا

پیر 23 جولائی 2018

turkey mein qabal az waqat intikhab aur jashne istanbul
س
تو ہم پر ستی میں یو نانی آج بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے وہاں جمعرات کے دن کو آج بھی منحوس سمجھا جاتا ہے کیونکہ 29مئی 1453کو جب سقوط قسطنطنیہ ہوا تھا تو وہ جمعرات کا دن تھا ۔اس روز تاریخ کا ایک باب تا قیا مت بند ہوا اور دوسرے کی ابتداہوئی ۔رو من ایمپا ئر 1480ء برس تک قائم رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی تو دوسری طرف سلطنت عثمانیہ نے اپنے نقطہ عروج کو چھو لیا او ر وہ اگلی چار صدیوں تک ایشیا ، یور پ اور افریقہ پر بڑے جاہ جلال سے حکمراں رہی ۔

یورپ پر سقوط قسطنطنیہ کا بڑا گہرا اثر ہوا وہاں اس سلسلے میں نظم ونثر پر مبنی ادب تخلیق ہوا متعدد پینٹنگز بنائی گئیں ۔مسلمان بھی تو ہسپا نیہ میں اپنے شا ندار دور کو آج تک نہیں بھول پائے ،قر طبہ سے اٹھتی تکبیر کی صداؤں اور الحمرا کی رعنائیوں کے قصے آج بھی ہمارے شعروادب میں زندہ ہیں۔

(جاری ہے)

نبی مکرم ﷺ نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے لشکر کے لئے جنت کی خو شخبری سنائی تھی ۔

اس سعادت کو پانے کے لئے مسلمان نے پہلا محا صرہ 674ء میں حضرت امیر معا ویہ کے دورامارت میں کیا تھا ،دوسرا حملہ موی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کے دور میں 717ء میں ہوا اس میں بھی مسلمانوں کو منہ کی کھانی پڑی اور پھر سات صدیوں یورپ میں مسلمانوں کی پیش قدمی رکی رہی ۔ عثمانیوں نے اس شہر کے تین محاصر ے کئے پہلا محاصر 1396ء میں بایز ید یلدرم کی قیادت میں دوسرا 1422ء میں سلطان مراد نے کیا ۔

تیسرا محاصرہ سلطان محمد ثانی نے کیا جو 6اپریل سے 29مئی1453ء تک 54دن رہا اور پھر سلطان محمد ثانی نے بحری جہازوں کو خشکی پر چلا کر محیر العقل کار نامہ سر انجام دیتے ہوئے اس شہر کو فتح کرلیا ۔قسطنطنیہ کی فتح نے محمد ثانی کو سلطان محمد الفاتح بنا کر راتوں رات شہرت کی بلند پر پہنچا دیا ۔ سلطان نے کلیسا ابا صوفیہ کو مسجد میں بدل دیا جسے عصمت انو نو کے دور میں میو زیم بنا دیاگیا لیکن جدید تر کی کے مرد آہن طیب ایر دوان کے حکم سے اب یہاں رمضان میں تلاوت قرآن کا اہتما م کیا جاتاہے ۔


ترکی میں رجب طیب ایر دوان کی حکومت آنے کے بعد ہر سال 29مئی کو جشن فتح استنبول منایا جا رہا ہے لیکن امسال چو نکہ الیکشن کی آمد آمد ہے اس لئے جشن فتح استنبول کو کافی جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا اور جشن کی اس خوب صورت پروقار تقریب میں ہزاروں ترک نو جوانوں کے ہمراہ طیب ایردوان خود بھی شریک ہوئے ۔ساحل سمندر سے 50میٹر کے فاصلے پر بہت بڑا اسٹیج بنایاگیا جہاں تھری ڈی میپنگ کے ذریعے 20منٹ کی ایک فلم دکھائی گئی جس میں سلطان محمد الفاتح کی اس شا ندار فتح کو نئے سرے سے پیش کیا گیا ۔


یہ استنبول شہرہی ہے جس نے صدر ایر دوان کو سلطان محمد الفاتح کی طرح راتوں رات شہرت کی بلند یوں پر پہنچایا ۔جب وہ استنبول کے مئیر منتخب ہوئے تو کوئی بھی میڈیا چینل ،اخبار،ٹی وی اور معتبر شخصیت ان کی حمایت نہیں کر رہی تھی ۔ایر دوان نے شب وروز کی محنت سے استنبول کو ایک بار پھر عروس البلا دبنا یا اس کا مرجھا یاہوا چہرہ نےئر تا باں بنادیا ،مغموم چہروں کو خو شیاں لو ٹا دیں ،تعفن وغلاظت میں جینے پر مجبور لوگوں کو معطر فضا میں سانس لینے کاڈھنگ سکھا یا ۔

ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی پروٹوکول کے بغیر لوگوں کے درمیاں پہنچ جاتے کیونکہ وہ براہ راست لوگوں کے مسائل سننے کے عادی تھے ،نہ صرف انتخاب سے پہلے بلکہ بعد میں بھی وہ لوگوں کے مسائل اپنی ڈائری میں لکھ لیتے اور واپس جاکر ان کوحل کرنے میں مگن ہو جاتے ۔پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی سو چا بھی نہیں جا سکتا یہاں لوگوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان کے خون کاآخری قطرہ بھی نچوڑ لیا جاتاہے ،صدر اور وزیر اعظم تو کجا ایک وزیر نے بھی گذ رنا ہوتو تمام شاہر اہیں بند کر کے قوم کوعذاب میں ڈال دیاجاتاہے ۔

ایردوان جب وزیراعظم بنے اور کسی شہر کا دورہ کرتے لوگ ان کی آمد سے قبل اپنے اپنے مسائل کا غذ پر لکھ لیتے بعض تو جلد ی میں ٹشو پیپر پر لکھ کر کسی محا فظ کو پکڑا دیتے ۔ایردوان اور ان کی ٹیم ان درخواستوں کو بہت اہمیت دیتی تھی انہیں فردا فردا حل کرتی اور درخواست کنندہ سے رابطہ کرکے اسے آگاہ کرتی کہ انہوں نے ان کامسئلہ حل کردیا ہے ۔اس خدمت کاصلہ تھا کہ وہ پہلی بار 86فیصد ووٹ لے کر ممبر اسمبلی بنے اورپھر وزارت عظمی کے مستحق قرار پائے ۔

ان کایہ بھی کارنامہ ہے کہ ملک کاوزیراعظم بن کر سرکاری رہائش گاہوں اور پار لیمنٹ لاجز کو فروخت کرکے ملکی معیشت کو مضبوط بنا یا ۔
ترکی میں ایسے بھی لمحات آئے جب سرد جنگ کے ایام میں سر حدیں سو یت یونین سے ملنے کی وجہ سے ترکی کواپنے تحفظ کے لئے اور امریکی حلیف کی صورت اس کے مقا صد کی تکمیل کے لئے نیٹو اور سینٹو کی رکنیت دی گئی لیکن جب ترکی کو اپنا دفاع کرنے اور مسئلہ قبرص پر یو نان سے جنگ کرنا پڑی توامر یکا نے ترکی کو تنہا چھوڑ دیا اور اسلحہ فراہم کرنے پر بھی پا بندی لگادی با لکل ایسے جیسے امریکہ نے 65ء کی جنگ میں چین کے بہانے ہند وستان کی دھڑا دھڑا اسلحہ دیا جو پاکستان کے خلاف استعمال ہوا لیکن دوران جنگ جب پاکستان کو اسلحہ کی شدید ضرورت تھی تواس پر پابند لگا دی 2002ء میں جب ایر دوان نے اقتدار حاصل کیا تو ان حالات سے وقفیت کی بنیادپرانہوں نے ملکی دفاع کی طرف بھر پور توجہ دی اور دفاعی صنعت کے شعبے کو دنیا کے گنے چنے ممالک کے معیار پرلاتے ہوئے اسے اپنے پاوں پر کھڑا کیا ۔

ایردوان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی ملک بڑی تیزی سے ترقی کی راہ پا گامز ن ہوا، زراعت ،سیاست ،اقتصاد یات ،صنعت و حر فت ،توانائی ،دفاعی اور دیگر تمام ضروری شعبوں میں چند سالوں کے اندر بے مثال ترقی نے ترکی کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لا کھڑا کیا ،اپنی قتصادی تر قی کی بدولت تر کی اس وقت دنیا کی سو لہویں بڑی قو ت بن چکا ہے اور 2023ء میں دنیا کی دسویں بڑی اقتصادی قوت بن کر سامنے آنا چاہتاہے ۔

تر کی کو سپر پاور بنانے کے لئے وہاں صدارتی نظام کاہوناضروری ہے ۔گذشتہ ریفر نڈم میں کامیابی کے بعد صدارتی نظام کے تحت نو مبر 2019ء میں صدارتی وپا ر لیمانی انتخاب کااعلاج کیا گیا تھا لیکن اب اردوان نے اپو زیشن کے کہنے پر قبل ازوقت انتخاب کے انعقاد کا اعلاج کردیا ہے جو 24جون2018ء کو پاکستان میں غیر یقینی سے دور چار پارلیمانی انتخابات سے ایک ماہ قبل ہوں گے ۔

ترکی میں اس وقت انتخاب کے لئے بھر پور تیا ر یاں جاری ہیں ۔نئے نئے اتحاد تر تیب پارہے ہیں تاکہ کسی طرح طیب اردوان سے اقتدار چھن لیاجائے ۔ اردوان کی جماعت آق پارٹی کی حلیف نیشلسٹ موومنٹ پارٹی ہے اور اسے اتحاد جمہوریہ کانام دیا گیا ہے جبکہ ان کے مقا بل جو اتحاد بن رہا ہے اس کانام اتحاد امت ہے مگر اس کاشیر ازہ امت کی طرح ابھی سے بکھر تا نظر آرہا ہے ۔

اس اتحاد کی اہم جماعت صطفیٰ کما ل کے سیکو لر نظریات کی حامل ریپبلکن پیپلز پا رٹی ہے جس کے امیدوار محرم انجے ہیں اس کے علاوہ سعادت پار ٹی ،گڈ پا رٹی اور ڈیمو کر ٹیک پارٹی اتحاد میں شامل ہیں ۔یہ جماعتیں اتحاد بنانے کے باوجود ایک دوسرے سے بہت دور کھڑی ہیں کیونکہ ہر جماعت صدرا ردوان کے مقابل اپنا امیدوار لارہی ہے ۔ایپبلکن پارٹی کے ماضی کے مظالم اور سیکولز سوچ کی وجہ سے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں ۔

ترکی میں ننانوے فیصد مسلمان ہیں ،روشن خیال اور تعلیم یا فتہ ہیں لیکن اسلام دشمن جماعت کو ووٹ دینے سے گر یز کر تے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر پارٹیاں بھی کوئی مضبوط امیدوار نہیں رکھتی۔سعادت پارٹی جو نجم الدین اربکان کی با قیات پر مشتمل ہے اسے پچھلے پار لیمانی انتخاب میں صفر اعشاریہ پانچ فیصد سے بھی کم ووٹ پڑے تھے ۔اگر چہ اتحاد ملت نے سابق صدر عبداللہ گل کو صدارتی امیدوار بنانے کی کوشش کی اگر ایساہو جاتا تو اردوان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرناپڑتا لیکن گل راضی نہیں ہوئے جس سے اردوان کی فتح اب یقینی نظر آتی ہے ۔

اردوان کی کامیابی میں حالیہ شام کی سر حد پر عفر ین کافوجی آپریشن بھی اہمیت کا حامل ہے ۔ ترک فوج نے امریکہ کی وار ننگز کی پر واکئے بنا شام کے سر حدی علاقوں کو فتح کر تے ہوئے جو تاریخی کا میابی حاصل کی اس سے ترکی میں دہشت گردی دم توڑ گئی ہے ۔ملک میں امن وامان سے سر مایہ کاری میں ریکارڈ اضافہ ہواہے
صدر ادوان نے اپنی صدارتی مہم کاآغاز کرتے ہوئے عوام کواس بات کا یقین دلایاہے کہ جس طرح ماضی میں معجزے رونما ہوئے اور ترکی کو عظیم تر ین طاقتوں میں شامل کیاگیا وہ مستقبل میں بھی ترکی کو دنیا کی ایک عظیم قوت بناتے ہوئے ترک عوام کے معیار زندگی کو نہ صرف بلند کریں گے بلکہ دفاع کے معاملے میں تر کی کا غیر ممالک پر انحصار ختم کر دیں گے ،مقامی سطح پر گاڑیاں اور طیارے تیار کئے جائیں گے ۔

ترکی کے مختلف علاقوں میں نئے نئے کارخانے قائم کرتے ہوئے روزگار کے نئے مواقع پیداکئے جائیں گے ۔بہر کیف 20جون 2018ء ترک قوم کیلئے فیصلے کادن ہے وہ عظیم ترکی کے لئے اردوان کاساتھ دیتے ہیں یا مغرب کی خو شنودی حاصل کرنے والی قو توں کاساتھ دیتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

turkey mein qabal az waqat intikhab aur jashne istanbul is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 July 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.