یروشلم کو”صہیونی دارالحکومت“میں تبدیل کرنے کا راستہ صاف․․․․․

غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کی ظالمانہ بمباری گیارہ ستمبر سے لیکر موجودہ حالات تک تمام کوششیں اسرائیل کی عالمی سیادت کیلئے ہیں

ہفتہ 13 اپریل 2019

Yaroshallam ko shyoni dar-al-hakoomat mein tabdeel karne ka rasta saaf
 محمد انیس الرحمن
مشرق وسطی سے آمد خبروں کے مطابق اسرائیل نے غزہ کے علاقے میں مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر ایک مرتبہ پھر قیامت ڈھادی ہے اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ سوائے ترکی کے کوئی مسلم ملک غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں آواز بلند نہیں کررہا۔خود فلسطینی اتھارٹی کا نام نہاد صدرمحمود عباس فلسطین کی اسلامی تحریک حماس کے مقابلے میں اسرائیل کی حمایت کررہا ہے ۔


یہ سب کچھ کیا ہے ؟ہم پہلے بھی مختلف زاویوں سے اس بات کی جانب اشارہ کرتے رہے ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ کے صہیونی منصوبوں کے تحت مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کا وقت قریب آچکا ہے اسی لئے تمام مشرق وسطی میں جنگوں کی آگ بھڑ کادی گئی ہے عرب حکمرانوں کو باورکرا دیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے عالمی صہیونی منصوبوں کے سامنے کوئی مذمتی بیان بھی دیا تو ان کی حکومتیں گرادی جائیں گی اسی خوف نے عرب حکمرانوں کو اسرائیل کا اتحادی بنادیا ہے ۔

(جاری ہے)


خود عمان کے وزیر خارجہ نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں فرمایاہے کہ”عرب ملکوں کو چاہئے کہ اسرائیل کو اس خدشے سے آزاد کریں کہ اسے عربوں کی جانب سے کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے“۔فلسطینی اتھارٹی کا صہیونی بھائی صدر محمود عباس کہتا ہے کہ”میں فلسطین سے زیادہ اسرائیلی نوجوانوں کے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہوں“۔جہاں صورتحال یہ ہو چکی ہوتو اس بات میں کیسے دیر ہو سکتی ہے کہ عنقریب یہ صہیونی مسجد اقصی کو منہدم کرکے اس کی جگہ اپنے دجالی ہیکل کی تعمیر شروع کردیں گے اور عرب حکمران شہیدوں میں نام لکھوانے کے لئے محض ایک کانفرنس ہی کر سکیں گے ۔


پاکستان کے مقتدراداروں کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ مسئلہ افغانستان کا ہو،عالمی اقتصادیات کا ہو،نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا ہو ،ان تمام عوامل کے تانے بانے”عظیم تر اسرائیل“کے قیام کی جانب جاتے ہیں جس کا دارالحکومت یروشلم(مقبوضہ بیت المقدس)ہو گا اسی لئے جس وقت امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی سفارتخانے کا مقبوضہ بیت المقدس میں افتتاح کیا اور جب جولان کے مقبوضہ علاقے کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا تو عرب حکمرانوں کی جانب سے چوں تک نہ ہو سکی ۔


یہی وجہ ہے کہ ایسی کچھ عرب حکومتیں خود یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو چکی ہیں اس کے لئے بہت پہلے سے مقبوضہ بیت المقدس کے اسلامی تشخص کو ختم کرکے اسے یہودیت میں رنگنے کاکام شروع ہو چکا تھا۔یا سر عرفات کو دنیاسے رخصت کرنے کے بعد بہائی العقیدہ ابوماذن محمود عباس کو فلسطینی اتھارٹی کا صدر بنا کر صہیونیت نواز مغرب نے اصل میں مقبوضہ بیت المقدس کو پوری طرح یہودی تحویل میں دینے کا منصوبہ آخری مرحلے میں پہنچادیا تھا۔


اسی نکتہ ارتکاز کے گرد گیارہ ستمبر کے واقعات کا محور گھومتا ہے ۔اس سلسلے میں سب سے پہلے گیاہ ستمبر کے حوالے سے خود امریکہ اور یورپ میں اب تک لجو تحقیقات سامنے آچکے ہیں اگر صرف ان پر ہی مختصر نظر ڈال لی جائے تو معلوم ہو گا کہ اسلامی دنیا اس دہشت گردی سے مکمل طور پر بری الذمہ ہے ،کیونکہ اس واقعے کا اصل سبب خود امریکہ میں موجود تھا جبکہ مسلمانوں کو اس واقعے میں ملوث کرکے اسلامی تحریکوں پر ضرب لگانا،شرق الاوسط کے تیل پر قبضہ مستحکم کرنا اور مقبوضہ بیت المقدس کو مکمل طور پر صہیونی دارالحکومت قرار دلوانا تھا۔


اب ان معاملات پر مغرب میں کھل کر لکھا جارہا ہے کیونکہ عالمی صہیونیت کے پنجوں میں جکڑا ہوا مغرب نہ تو گیارہ ستمبر کے واقعات کا کوئی ثبوت پیش کر سکا اور نہ اس کے پاس عراق کے مبینہ خطر ناک ہتھیاروں کا کوئی ثبوت تھا۔مقبوضہ بیت المقدس کو کس انداز میں یہودی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے پہلے مغرب میں شائع ہونے والی چند کتابوں کا تذکرہ کر لیا جائے ۔

کویت سے شائع ہونے والے عربی اخبار ”المجتمع “‘کی ایک رپورٹ کے مطابق کچھ عرصہ قبل گیارہ ستمبر سے متعلق لاس اینجلس پولیس کے شعبہ انسداد منشایت سے تعلق رکھنے والے سابق آفیسر مائیکل سی رابرٹ کی کتاب” Cross the Rubican River“منظر عام پر آئی جس میں کہا گیا ہے کہ گیارہ ستمبر کا واقعہ اصل میں امریکی حکومت کے اندر سازشی طور پر تیار کیا گیا اس سلسلے میں الزامات کی انگلیاں سب سے زیادہ امریکی نائب صدر ڈک چینی پراٹھتی ہیں جو اس وقت سیکرٹ سروس اور امریکی مسلح افواج کی جائنٹ کمان کررہے تھے یہ جائنٹ سیکرٹ یونٹ مکمل طور پر امریکی کی اساسی قیادت سے الگ کام کررہا تھا اسی نظام کے تحت ڈک چینی نے گیارہ ستمبر کو ہونے والے واقعے کو روکنے کی کوشش نہیں کی جبکہ یہ نظام بھی ان کی سر براہی میں آتا ہے اس واقعے کے نتیجے میں نائب صدر ڈک چینی ایسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے تھے جس کے ذریعے عالمی سطح پر طاقت کے مراکزپر قبضہ جمایا جا سکے“۔


اس کتاب سے پہلے فرانسیسی مصنف ”تیری میسان“کی کتاب ”بڑادھوکہ“منظر عام پر آئی تھی اس کتاب میں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ ثابت کیا گیا تھا کہ عرب اور غیر عرب مسلمان اس واقعے سے مکمل طور پر بری الذمہ ہیں ۔اس کے علاوہ ایریک لوران کی کتاب”گیارہ ستمبر کا چھپا چہرہ“بھی اسی موضوع پر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گیارہ ستمبر کا اصل محرک امریکہ میں ہی موجود ہے اور اس واقعے کا اصل سبب استعماری مقاصد کی بار آوری تھا۔


جرمن انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اندر یاس فان بیلوف کی کتاب”گیارہ ستمبر کے واقعات میں سی آئی اے کا کردار “شائع ہو چکی ہے ،یہ کتاب ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ کی ہے یقینی بات ہے اس نے اس واقعے کا اس باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے جو ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا خاصہ ہوتا ہے ۔
اندر یاس فان نے وقیق دستاویزات اور دیگر شواہد کی بنیاد پر جو نچوڑ اس کتاب میں پیش کیا ہے اس کے مطابق”امریکہ نے اس واقعے کے ذریعے دنیا میں عسکری مداخلت خصوصاً افغانستان میں لشکر کشی کے جواز کے طور پر استعمال کیا،جبکہ عراق پر حملے کا منصوبہ گیارہ ستمبر کے واقعے سے پہلے ہی امریکی نائب صدرڈک چینی کی لسٹ میں آچکا تھا تاکہ شرق الاوسط کے دیگر ممالک کو بھی اس کی لپیٹ میں لے کر اسرائیل کے وجود کو مکمل تحفظ دیا جا سکے ۔


اس سلسلے میں مصنف نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا امریکی حکومت اپنی جنگوں کی آگ بھڑ کانے کے لئے اپنے ہی ہم وطنوں کو قربانی کا بکرابناتی ہے ؟مصنف کے مطابق گیارہ ستمبر کے واقعے میں تین ہزار امریکی لقمہ اجل بن گئے جس کی وجہ سے امریکہ نے عالمی سطح پر اپنی سیاست کی دکان چمکائی ،مگر ایسی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں مثلاً امریکی بحری اڈے پرل ہار پر پرجاپانی فضائی حملہ،اس حملے سے امریکہ کی بحری کمان اور اس علاقے کی سیکورٹی کے ذمہ داروں کو مکمل طور پر بے خبر رکھا گیا تھا،اس حملے کے نتیجے میں دو ہزار سے زائد امریکی فوجی مارے گئے تھے ۔


یہ حملہ اس لئے ضروری تھا کہ امریکی عوام دوسری جنگ عظیم میں امریکی شمولیت کے خلاف تھے مگر اس حملے کے فوراً بعد ان کا موقف تبدیل ہو گیا یوں امریکہ میں موجود ہ عناصر کامیاب ہو گئے جو امریکہ کو دوسری جنگ عظیم کی آگ میں جھونکنا چاہتے تھے ۔اسی طرح 1962ء میں امریکی جنرل لیمنسٹر نے کیو با پر حملے کے لئے آنجہانی صدر کینیڈی کو منصوبہ”نارتھ جنگل“کے نام سے پیش کیا تھا وہ کچھ اس طرح تھا کہ امریکہ میں ایسی خانہ جنگی کو ہوادی جائے جس کے تمام شواہد کیو با سے جاملتے ہوں تا کہ کیوبا کے خلاف کا رروائی کے لئے امریکی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں مدد مل سکے، اس منصوبے میں سب سے زیادہ خطر ناک پہلو یہ تھا کہ امریکی طالب علموں سے بھرا ہوا ایک امریکی طیارہ کیو با کی فضا میں مار گرایا جائے اور اس کا الزام کیوبا پر لگا دیا جائے۔


اس خطر ناک منصوبے کی صدر کینیڈے نے منظوری دینے سے انکار کر دیا اس کے کچھ عرصے بعد صدر کینیڈی کو پر اسرار طور پر قتل کر دیا گیا۔۔۔۔! ان مثالوں کے ذریعے جرمن مصنف کا موقف ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعات سے مسلمانوں کا معمولی سابھی تعلق نہیں جبکہ غالب گمان یہی ہے کہ اس کے عوامل داخلی ہیں طرف رکھ کر ان عوامل کی جانب رجوع کیا جائے جو گیارہ ستمبر کے واقعات کی کوکھ سے جنم لے کر منظر عام پر آئے،اس واقعے کے فوراً بعد افغانستان کو جارحیت کا نشانہ بنایاگیا تاکہ یہاں قائم ہونے والی اسلامی حکومت کو ختم کرکے یہاں پر سی آئی اے کے ایجنٹ اور منشیات کے سودا گر مسلط کئے جاسکیں اور ایسا فی الواقع ہوا ،مگر عالمی مافیا کے گماشتے یہ عناصر صرف کابل یا چند بڑے شہروں تک محدود ہو کررہ گئے ۔

کرائے کے وارلارڈز اور ان کی فوجوں کو افغانستان کی قومی فوج بنادیا گیا یہ قومی فوج کس قسم کی خدمات انجام دے سکتی تھی اس کا نظارا افغان عوام کے ساتھ ساتھ دنیا کی غیر جانبدار رائے عامہ نے بھی کیا ہے ۔
افغانستان پر جارحیت کے بعد امریکہ نے منصوبے کے تحت عراق کا رخ کرنا تھا اس سلسلے میں ٹونی بلئیر امریکی صدر بش کو ڈک چینی کی مدد سے اکساتے رہے ۔

امریکی حکومت نے صدام حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے ایسے ایسے بے بنیاد الزامات عائد کئے جن کازمینی حقیقتوں سے دور پرے کا بھی تعلق نہیں تھا۔
صدام حکومت کو القاعدہ سے متعاون باورکرایا گیا ،وسیع تباہی کے ہتھیاروں کا واویلا کیا گیا جن کا آج تک سراغ نہیں مل سکا،مگر در حقیقت یہ تمام کارروائی صہیونی ریاست اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے کی جارہی تھی اس سلسلے میں صہیونیت کی آلہ کار امریکی انتظامیہ نے ان جھوٹے دعوؤں کا سہارا لیا جو کبھی ثابت نہیں کئے جاسکے۔


گیارہ ستمبر کا منطقی نکتہ اب مقبوضہ بیت المقدس کی جانب پیش قدمی کررہا ہے یہ منطقی نکتہ ہے مقبوضہ بیت المقدس کو مکمل طورپر صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دینا اس سلسلے میں سابق امریکی صدر بش اپنے پہلے دور کی صدارتی مہم میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوبیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا یہ اعلان صرف بش کی ہی جانب سے نہیں تھا بلکہ صہیونی حمایت حاصل کرنے کے لئے دیگر کئی صدارتی امیدواروں نے بھی اس قسم کے منشور کا اعلان کیا تھا اور اب ٹرمپ نے ان تمام اعلانات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے امریکی سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر دیا ہے ۔


مقبوضہ بیت المقدس کے ایک حصے پر قبضہ قبضے کے لئے 1948ء میں ہی کوششیں شروع کر دی تھیں اس کے بعد سے ناجائز صہیونی ریاست نے اس مقدس اسلامی شہر کا ہر وہ نشان مٹانے کی کوشش شروع کر دی جس سے اس شہر کا اسلامی عربی تشخص ختم کیا جا سکے۔1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے اس کے باقی ماندہ مشرقی حصے پر بھی قبضہ جمالیا اس وقت سے لیکر آج تک اس مقدس اسلامی شہر کے اسلامی اوقاف کو تباہ کرنے کی مہم جاری ہے ۔


یہودی تخریب کاری کے ہاتھ اب مسجد اقصی کی جانب بھی دراز ہونا شروع ہو چکے ہیں اس سلسلے میں ہیکل سلیمانی کی بنیادوں کی تلاش کے نام پر مسجد اقصی کے نیچے سرنگیں کھودنے کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری رہا۔اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ بیت المقدس میں رہنے والے عرب مسلمانوں کی زندگیوں کو اس قدر مشکل بنانے کی کوششیں کی جارہی ہے کہ وہ یہاں سے نکل کر مقبوضہ فلسطین کے دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں ۔


اسرائیلی مقبوضہ بیت المقدس کے اسلامی اوقاف کو مسخ کرنے کی جو کوششیں کررہے ہیں وہ اقوام متحدہ اور سلامتی کو نسل کی قرادادوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے ،مسلمانوں سے زبردستی ان کی جائیدادیں خرید کر انہیں منہدم کیا جارہاہے اور ان کی جگہ یہودی بستیاں آباد کی جارہی ہیں اس وقت تک تقریباً 35یہودی بستیاں بسائی گئی ہیں جن میں تقریباً دو لاکھ یہودی آباد ہیں۔


مقبوضہ بیت المقدس کی نہ صرف جغرافیائی ہیت تبدیل کی جارہی ہے بلکہ اس کا اسلامی تاریخ سے نام ختم کرنے کے لئے منظم کوششیں جاری ہیں۔فلسطینیوں کی تنظیم المجلس الوطنی الفلسطینی کی جانب سے شائع ہونے والے عربی جریدے ”المجلس “میں ڈاکٹر عزالدین العراقی کا ایک مقالہ شائع کیا گیا تھا جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس کے قدیم محلوں کے عربی نام تبدیل کرکے عبرانی نام رکھے جارہے ہیں اس کے علاوہ اس مقدس شہر کے مشرقی اور مغربی مضافاقی حصوں کو منہدم کرکے وہاں کی مسلمان آبادی کو دوباہر تعمیرات سے روکا جارہا ہے جبکہ شہر کی جن مارکیٹوں میں مسلمانوں کی دکانیں تھیں انہیں تعمیر نوکے نام پر منہدم کرکے اب وہاں مسلمانوں کو اپنی جائیداد پر تعمیرات سے روک کر اقتصادی طور پر انہیں بد حال کیا جارہا ہے تاکہ وہ یہاں سے نکلنے پر مجبور ہو جائیں ،عربی مجلے کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیت کے مکمل رنگ میں رنگنے کے لئے نہ صرف اسلامی اوقات کو خراب کیا جارہا ہے بلکہ صہیونیوں نے عیسائیوں کی املاک پر بھی ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا ہے ۔


ڈاکٹر عزالدین العراقی کی تحقیق کے مطابق اسرائیل نے 1968ء سے ہی مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی نرغے میں لینے کے لئے سازشوں کا آغاز کر دیا تھا اس سلسلے میں شہر کی شمالی اور جنوبی جانب سے یہودی آباد کاروں کی بستیوں کی ایک زنجیر بنائی گئی تاکہ یہ مقدس شہر آہستہ آہستہ یہودی آبادی کے نرغے میں آتا چلا جائے ،اس کے بعد ان بستیوں کو شہر کی پرانی دیوار کے ساتھ ساتھ لایا گیا اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہودیوں بستیوں کے تین سلسلے شہر کی پرانی دیوار سے متصل ہو چکے ہیں جو اس طرح ہیں:
پہلا سلسلہ رامات اشکول کے نام سے مشہور ہے یہ دیوار کے مغربی جانب ہے۔


دوسرا سلسلہ بستی یعقوب صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل ہے جو شمال کی جانب واقع ہے اس کا قیام 1970ء میں عمل میں لایا گیا تھا،اس بستی تل بیوت ۔غیلو بھی کہا جاتاہے۔
یہودی بستیوں کا تیسرا سلسلہ پرانے شہر سے کچھ باہر ہے یہ جنوب مشرقی القدس کی یہودی بستی سے متصل ہو جاتی ہے۔
اس سلسلے میں اگر اس بات کا گمان کیا جائے کہ یا سر عرفات کی موت کے بعد محمود عباس کو فلسطینیوں کا ”انچارج “بنا کر علاقے میں پیدا ہونے والی بے چینی کا خاتمہ ممکن ہے تو ایسا سوچنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہو گا۔

جوں جوں امریکی کی نگرانی میں نام نہاد فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن بات چیت کا سلسہ جاری رہتا ہے فلسطینی عوام کی مشکلات بڑھتی ہی جاتی ہیں اور بے گھر پناہ گزینوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔
ایسی صورت میں نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کے یہ دعوے کہ اس کا قیام فلسطینی عوام کی مشکلات ختم کرنے کی غرض سے وجود میں آیا آج فلسطینی عوام میں اپنی افادیت کھو چکا ہے جبکہ فلسطینیوں کے نزدیک حماس ہی اس وقت فلسطینی کاذ کی نمائندہ جماعت ہے ۔

موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی ذی شعور انسان اب یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ فلسطینیوں کے مسائل صرف”مذاکرات“سے حل نہیں ہو ں گے ۔فلسطینی عوام کے حقوق غضب کرنے کا پس منظر اتنا مکروہ ہے جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں ملنا محال ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Yaroshallam ko shyoni dar-al-hakoomat mein tabdeel karne ka rasta saaf is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 April 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.