سب کچھ بیچ دے

بدھ 29 جنوری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

نجکاری کمیشن بورڈ نے خسارے میں چلنے والی سرکاری ملکیتی ستائیس جائیدادوں کی نیلامی کے ذریعے فروخت کرنے کی منظوری دی ہے جبکہ دو پاور پلانٹس کی نیلامی کی کے لیئے بارہ فرموں کو پری کوالیفائیڈ بھی کرلیا گیا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ ان تمام اثاثوں کے لیے تقریباً سات ارب روپے کی قیمت مقرر کی گئی ہے ۔
پوچھنا تھا کہ قومی قیمتی اثاثوں کو پی ٹی آئی اور عمران خان پر سرمایہ کاری کرنے والے منظورِ نظر افراد کو کوڑیوں کے بھاو بیچنے کا مقصد اگر بجٹ خسارہ پورا کرنا ہے تو پھر اگلے مالی سال میں بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیئے کون سے قومی اثاثے بیچے جائیں گے؟ کیونکہ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے واضع اشارے دے رہے ہیں کہ پاکستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں خسارے میں مذید اضافے کے امکانات دیکھے جا رہے ہیں ۔

(جاری ہے)


 حقیقتِ حال یہ ہے کہ جب ملک کے وزیرِ اعظم کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہو کہ وہ بھری محفلوں میں یہ کہتا ہو کہ’’ جب مجھے ڈاکٹر نے ٹیکا لگایا تو مجھے حوریں نظر آنے لگیں اور میری دنیا ہی بدل گئی‘‘ اور اس کے لائق فائق وزیر ٹی وی ٹاک شوز میں میز پر بوٹ رکھ کر قوم کو اپنی’’ کارکردگی‘‘ بتائیں اور دوسری جانب تبدیلی کے گڑھ خیبر پختون خواہ کے وزیر حکومتی کرپشن بیان کرنے کی پاداش میں نکال باہر کیئے جائیں تو بجٹ خسارہ پورا کرنے کے حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر یہ حکمران مذید کچھ عرصہ قوم پر مسلط رہے تو وہ دن دور نہیں جب سب کچھ بیچ کر یہ کہ کر وزیرِا عظم اور صدر ہاوس بھی نیلامی کے لیئے پیش کر دیئے جائیں گے کہ’’ اتنی بڑی عمارت کی اب ضروت نہیں رہی‘‘
خزانہ خالی ہونے کا رنڈی رونے  اور خود کو معاشی ارسطو سمجھنے والے حکمرانوں سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ جب نواز شریف نا اہل ہوا تھا تو اس وقت اسٹیٹ بینک میں جو چوبیس ارب ڈالرز زرمبادلہ کے ذحائر خزانے میں موجود تھے ان کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا تو انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے ۔

حکومتی ممبران قومی اسمبلی میں ،سینیٹ میں یا کسی ٹی وی ٹاک شو میں موجود ہوں ان کا واحد موضع آج بھی سابقہ حکمرانوں پر ماسوائے تنقید کے اور کچھ بھی نہیں ،اگر ان سے ملک کی تباہ کی گئی معیشت کی بابت سوال کیا جائے تو سابقہ حکمرانوں کی ذاتیات پر اتر کر طوفانِ بد تمیزی برپا کر کے از خود ثابت کر دیا جاتا ہے کہ تحریکِ انصافیہ اور اس کے ترجمانوں کے پلّے زبانی جمع خرچ کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔


 حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ چھ ارب ڈالرز سعودی نقد امداد،تین ارب ڈالرز کا ادھار تیل، متحدہ عرب امارات کی جانب سے دیئے گئے تین ارب ڈالرز، چین کے چھ ارب ڈالرز،دو ارب ڈالرز آئی ایم ایف کی پہلی قسط، ایک ارب پچیس کروڑ ڈالرز کی امریکی امداد، ڈیم فنڈ کے چودہ ارب روپے اور اسی مد میں اکھٹے کیئے گئے، اکیس لاکھ پونڈز، بجلی بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اکٹھا کیا گیا، دو سو ستّر ارب روپیہ سوئی گیس کی اضافی قیمت کی مد میں اکٹھے کی گئے، دو سو پچاس ارب روپے ،ایک سو چالیس ارب روپے کی دو لاکھ پچاس ہزار نئے ٹیکس فائلرز سے وصول کی گئی رقم اور چیئرمین نیب نے اکہتر ارب روپے کی پلی بارگین میں وصول کی جانے والی باری رقوم کی بابت پوچھنے پر سو خاموشی اور مکمل سکوت طاری ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر ترقیاتی اخراجات اور حکومتی عیاشیاں اپنے زوروں پر ہیں .
سرکاری خرچے بدستور قائم ہیں لیکن ناکام حکومتی پالیسیوں کے باعث سرمایہ کار اپنا پیسہ لے کر ملک سے بھاگ چکا ہے اور جو ملک میں موجود ہیں وہ قسم کھائے ہوئے ہیں کہ اس حکومت کی موجودگی میں ایک روپے کی بھی سرمایہ کاری نہیں کریں گے ۔

ملک میں بے روزگاری بڑھنے کی ایک یہ وجہ بھی ہے لیکن یہ بات تو وہ حکمران سمجھتا ہے جو اپنے ہوش و حواس میں رہتا ہو،جو ٹیکے لگا کر حوروں کے نظارے کرتا رہے وہ کیا جانے معیشت ،بے روزگاری اور مہنگائی کس بلا کا نام ہے ۔ کسی منچلے نے کیا خوب کہا ہے کہ آصف زرداری پر یہ تنقید تھی کہ اس کے گھوڑے سیب کا مربہ کھاتے ہیں لیکن اب ان حکمرانوں پرکوئی تنقید نہیں کرتا جن کا کھوتا پوری معیشت کھا گیا ہے ۔


حقیقتِ حال یہ ہے کہ اوپر بیان کی گئی تمام تر کوششوں کے باوجود اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس صرف دس ارب ڈالرز کے لگ بھگ زرِ مبادلہ کے زخائرموجود ہیں ، وزیرِا عظم کابینہ کا اجلاس میں اپنی معاشی ٹیم پر برہم ہوتے ہیں کہ مہنگائی کیوں نہیں ختم ہو رہی؟ اور یہ کہ انہیں مس گائیڈ کیا جارہا ہے حالانکہ یہ بات معیشت کا ادنی طالب تو کیا ایک عام آدمی بھی بخوبی جانتا ہے کہ مہنگائی تبھی کم ہو گی جب کاروبار چلے گا، کاروبار تب چکے گا جب انڈسٹری اور صنعت لگے گی اور یہ سب تب ہی ممکن ہو گا جب سرمایہ کار آسانی سے کم سے کم شرح سود پر قرضہ لے سکے گا ۔


اسٹیٹ بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی میں تیرہ فیصد سے زائد شرح سود کو یعنی بلند ترین سطح پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے "صعنت کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے بیروزگاری اور مہنگائی میں بدترین اضافہ ہوگا" ۔ نیا پاکستان بنانے کے ٹھیکیداروں کو کوئی یہ سمجھائے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کی سب سے بڑی وجہ یہی بلند شرح سود ہے،کون سا سرمایہ کار اتنے مہنگے قرضے پر انڈسٹری یا صنعت لگائے گا؟ اور جب کارخانے نہیں لگیں گے تو روزگار اور نوکریاں کہاں سے پیدا ہوں گی ۔

معاشی ارسطوں کو کوئی یہ بھی سمجھائے کہ کاشت کار گندم اور دیگر فصلوں کی پیداواری لاگت بڑھنے سے پریشان اور مشکلات سے دوچار ہیں ۔ کاشت کاری کے لئے کسانوں کو نہری پانی میسر نہیں ، انہیں مجبوراً ٹیوب ویل چلانا پڑتا ہے جبکہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اور ڈیزل مہنگا ہونے سے ٹریکٹر کے اخراجات بڑھ گئے ہیں ۔ جن کی اپنی ٹربائن ہے انہیں آبپاشی کے لئے ایک گھنٹہ چلانے کا خرچہ تقریباً چار سو روپے پڑتا ہے ۔

ایک ایکڑ فصل کو پانی سے سیراب کرنے کے لئے ٹربائن کو چار گھنٹے تک چلاناپڑتا ہے اور پھر فصل کی تیاری تک تقریبا چار مرتبہ پانی دینا ہوگا، یوریا کھود کی بوری جو نا اہلوں کے دور میں سترہ روپے کی تھی وہ اب اہلوں کے دور میں اکیس سو روپے میں مل رہی ہے ۔
 لہذا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس لائق فائق حکومت کے دور میں چھوٹے کاشتکاروں کے مذکورہ مسائل کے پیشِ نظر گندم اور دیگر زرعی اجناس کی پیداوار دشدید طور پر متاثر ہو گی جس باعث اشیائے خود و نوش کی قیمتوں میں یقینی طور پر ہوشربا اضافہ، قلت اور بحران متوقع ہے اور پھر اس بحران سے نبٹنے کے لئے اربوں روپے مختص کیئے جائیں گے تا کہ زرعی اجناس کا امپورٹ کا جا سکے اور یوں کروڑوں روپے عمران خان اور اس کی حکومت کو لانے والے سرمایہ کار اپنی وصولیاں کریں گے ۔


اس وقت زمینی حقائق تو یہ ہیں یہ ایک عام آدمی چھوٹا جنرل اسٹور کھولنے سے بھی اس لیئے کترا رہا ہے کہ ایف بی آر،انکم ٹیکس،بورڈھ ٹیکس،لیبر ڈیپارٹمنٹ اور دیگر محکمے اسے آ گھیریں گے،تو اس کیفیت میں کون سا سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کرے گا؟ جس باعث نوکریاں پیدا ہوں گی اور بے روزگاری اور مہنگائی کم ہو گی ۔ مذکورہ صورتِ حال سے تو ملک کا ہر فرد آگاہ ہے اس میں کوئی لمبی چوڑی سائینس نہیں جو کسی کو سمجھ نہ آ سکے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کا سدِ باب کیسے کیا جا سکے یہی وجہ ہے کہ حالیہ گیلپ سروے کے مطابق ملک کی پچاس فیصد آبادی نے موجودہ بدترین معاشی بدحالی کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو قرار دیا ہے ۔

لیکن عمران خان کے معاشی ارسطو روزانہ کی بنیاد پر سب اچھا کے گیت گا کر قوم کا سنا رہے ہیں ۔
پی آئی اے پر کنٹینر سے دن رات کڑی تنقید کی گئی ۔ سینٹ کو مئی دو ہزار انیس میں بتایا گیا پی آئی اے کا خسارہ چار سو سولہ ارب ہوگیا ہے ۔ جنوری دو ہزار بیس یعنی اسی ماہ مین بتایا گیا خسارہ بڑھ کر چار سو بیاسی ارب ہوگیا گویا صرف آٹھ ماہ میں قومی ائر لائن میں خسارے میں چھاسٹھ ارب کا اضافہ لیکن یہ کہ کر جھوٹ کے ریکارڈ توڑے جا رہے ہیں کہ پی آئی اے اب منافع بخش بن چکا ہے ۔

حالانکہ ابھی چند روز قبل ہی چیف جسٹس سپریم کورٹ نے پی آئی اے کے سی ای او کے سامنے ایئر لائن کی کارکردگی اور منافعے کے سارے پول کھول دیئے تھے ۔
یہ تو ایک ادنی سی مثال تھی،ملک کے ہر ادارے اور کارپوریشن کا پی آئی جیسا حال ہے ۔ گویا لگتا ہے جان بوجھ کر تمام منافع بخش اداروں کو غیر فعال اور نقصان میں لایا جا رہا ہے تا کہ انہیں نیلامی میں اونے پونے داموں اپنے چہیتوں اور منظورں نظر افراد کے حوالے کیا جا سکے ۔ نجکاری کمیشن بورڈ کے حالیہ فیصلے سے تو یہی صاف طور پر نظر آ رہا ہےکہ سب کچھ بیچ دے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :