ستّر سال سے لوٹنے کا بیانیہ

جمعہ 28 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

سابق وزیراعظم نواز شریف مجموعی طور پر کل ملا کر تیرہ برس کے قریب اقتدار میں رہے ہیں۔ صوبہِ پنجاب کے وزیرِ خزانہ،وزیرِ اعلی اور پھر تین مرتبہ ملک کے وزیرِ اعظم رہے،لیکن انہیں بحثیت وزیرِ اعظم تینوں مرتبہ اپنی آئنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ انہیں ہمیشہ بندوق کی نوک پر اقتدار سے الگ کیا جاتا رہا۔ بحثیت وزیرِا عظم انہیں اقتدار سے باہر کرنے کی ایک ہی وجہ رہی کہ انہوں نے سول سپرمیسی، عسکری کے بجائے عوامی بالا دستی، ملکی خود مختاری،علاقائی سیاست اور ہمسایہ ممالک بلخصوص بھارت سے دوستانہ رویہ رکھنے کا عزم ظاہر کیا اور اس ضمن میں ٹھوس کوششیں شروع کیں۔

 
اسٹبلشمنٹ کی پراپیگنڈہ فیکٹری کی جانب سے ہمیشہ سے عام عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا تی رہی ہے جیسے اس ملک پر ستّر سالوں سے شریف خاندان ہی حکومت کر رہا ہے اور ملک کی تمام تر مشکلات اور مسائل کا ذمہ دار بھی نواز شریف ہے جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ جنرل یحیی خان،جنرل ایوب،جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے مجموعی طور پر اس ملک میں براہِ راست چالیس سال سے زائد عرصہ بلا شرکت غیرے حکمرانی کی،جبکہ قیام پاکستان سے لے کر دو ہزار اٹھارہ تک ملک میں اٹھارہ وزرائے اعظموں نے مختلف ادوار میں حکومتیں کیں لیکن ان میں سے بھی کوئی ایک اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا کیونکہ انہیں بھی مختلف الزامات اور کبھی نظریہِ ضرورت کے تحت چلتا کیا گیا۔

(جاری ہے)

آج بھی ملک میں جس حکومت کو عوام کے سروں پر مسلط کیا گیا ہے اس کی وفاقی کابینہ میں گیارہ سے زائد وہ بھی وزیر موجود ہیں جو سابق ڈیکٹیٹر پرویز مشرف کے کابینہ کے رکن تھے۔
اس مرتبہ کے سازشی کھیل میں بمشکل صرف سات سال بحثیت وزیرِا عظم حکومت کرنے والے نواز شریف سے سّتر سالوں کا حساب کتاب لیا گیا یہی نہیں بلکہ اس کے مرحوم والد اور بھائی کی قبروں سے بھی پائی پائی کا حساب لیا گیا لیکن جب کوئی بہانہ اور نام نہاد کرپشن کا ثبوت نہیں ملا تو پانامہ اور پھر اقامہ کے بہانے نہ صرف اقتدار سے باہر نکالا گیا بلکہ نواز شریف،اس کے خاندان اور ساتھیوں کو نشانِ عبرت بنانے کے لیئے تمام تر ریاستی ہتھکنڈے استعمال کیئے گئے۔

نواز شریف اور اس کے ساتھی تو انتہائی بہادری کے ساتھ تمام تر ریاستی جبر نہ صرف سہ گئے لیکن اگلوں کے لیئے بہت سے اور بڑے سوالیہ نشان بھی کھڑے کر گئے ہیں جن کے جواب بہرحال ریاست کو آج نہیں تو کل ہر صورت دینا ہوں گے،جنہوں نے بغضِ نواز میں آ کر جہاں خوشحال اور معاشی طور پر مضبوط ہوتے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجائی تو دوسری جانب سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کی نئی روایت رقم کی۔

جو کہتے تھے کہ نواز شریف سے ستّر سالوں کا حساب لیں گے، پہلے کوٹ لکھپت جیل اور اب آئے روز پیغام بھیجوا رہے ہیں کہ”ملک کی خاطر ہی سہی تعاون کیا جائے ہم سے بڑی بھول ہو گئی“۔ نواز شریف ایک مرتبہ نہیں بلکہ تین مرتبہ اسٹبلشمنٹ کے سانپوں سے ڈسا جا چکا ہے اسی لیئے اس مرتبہ کسی بھی طور ان کے جال یا ٹریپ میں پھنسنے کا کھلا اعلان بھی کر ڈالا ہے یعنی از سرِ نو الیکشن اور صرف اور صرف سیولین بالا دستی۔

کوئی قومی یا مخلوط حکومت کا ڈرامہ قابلِ قبول نہیں۔
چشمَ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ ملکِ خداداد پر چالیس برس براہِ راست اور بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والے آئین شکنوں اور ڈیکٹیٹروں سے حساب لینے کے بجائے انہیں پورے اعزاز کے ساتھ اقتدار کے ساتھ اور پھر دنیا سے بھی رخصت کیا گیا لیکن عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو اسٹبلشمنٹ کے سامنے سر نہ جھکانے کی پاداش میں پھانسی، جیلیں اورجلاوطنیاں جھلنی پڑی اور بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی جارہی و ساری ہے۔

اشٹبلشمنٹ کو ہر صورت اب دنیا کی حقیقتوں کا سامنا کرنا ہو گا،اور حقائق یہ ہیں کہ اگر ملک کو نارمل طریقے سے چلانا مقصود ہے تو ووٹ کو ہی عزت دینا ہو گی کیونکہ دنیا بھر کا اب یہی رواج اور چال چلن ہے۔ 
ملک کے عوامی نمائندوں کی جانب سے بے بنیاد ”قوم کوستّر سال سے لوٹنے“ کے بیانیئے کو اب دفن کرنا ہو گا۔ یہی اس ملک اور قوم کے بہتر مستقبل کے لیئے بہتر ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :