"اپوزیشن کا غیر اعلانیہ معاہدہ"‎

اتوار 26 اپریل 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر بعض سیاسی تجزیہ کاروں اور قومی سیاست پر نظر رکھنے والے دانشوروں کے نذدیک یہ اب یہ خیال پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ حکومتِ عمرانیہ اپنی بقایا مدت با آسانی پوری کر سکے گی تو یہ غلط بھی نہیں ۔
آنے والے دس بارہ ماہ تو کرونا کے چکر میں گزریں گے اور باقی ماندہ ڈیڈھ دو سال کا عرصہ بھی اس حکومت کو اپنا وقت پورا کرنے کے غیر اعلانیہ وعدے کے مطابق دے دیا جائے گا ۔

جی ہاں وہی’’ غیر اعلانیہ معاہدہ‘‘ جو اپوزیشن نے موجودہ حکومت کے آتے ہی اس کے ساتھ کر دیا تھا ۔ اس غیر اعلانیہ معاہدے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سرِفہرست تھے ۔
 اس معاہدے کا پول اس وقت ہی کھل گیا تھا جب مولانا فضل الرحمان نے اس حکومت کے آتے ہی تمام اپوزیشن جماعتوں کو صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں سے اپنے اپنے استعفے دینے کا مشورہ دیا تھا لیکن اس مشورے پر عمل در آمد نہیں کیا گیا تھا، حلانکہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس وقت بدترین انتخابی دھاندلی کا شور اٹھایا تھا اور اپوزیشن کے اس شور میں سو فیصد صداقت تھی ۔

(جاری ہے)

یہ غیر اعلانیہ معاہدہ اس و قت مذید آشکارا ہوا جب پیپلز پارٹی نے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن اور پھر صدارتی انتخاب میں واک آوٹ کر کے حکومت کے لیئے آسانی پیدا کی اوریوں کھل کر اپنا’’ موقف‘‘ قوم کے آگے بیان کر دیا ۔
دوسری جانب مسلم لیگ "ن" نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے معاملے میں سامنے آ کر سرنڈر کر کے اس بات کو ثابت کیا کہ حکومتِ عمرانیہ کے سامنے رکاوٹوں مشکلات کا اتنا بھی پہاڑ کھڑا نہیں کرنا چاہیئے کہ حکومت ہی دانوں ڈول ہو جائے ۔

اس بات کی ایک اور بڑی مثال مولانا فضل الرحمان کا دھرنہ بھی تھا جس میں وعدے کے باوجود پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی عدم شرکت نے واضع کر دیا کہ یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے غیر اعلانیہ معاہدے کی پابند ہیں ،جس باعث ان کے ہاتھ بندے ہیں ۔
دوست احباب ناچیز کو اس حوالے سے سابقہ موقف ضرور یاد دلانے کی کوشش کریں گے جو اس تحریر سے متصادم ہے لیکن یہاں تصویر کا دوسرا رخ بیان کیا جا رہا ہے ۔


آرمی ایکٹ ترمیم اور مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں نواز شریف کی واضع ہدایات کے باوجود اگر دستیا ب قیات نے اپنے کان نہیں دھرے تو آج اس کا نتیجہ بھی ان کے سامنے ہے ۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کے چیئر مین سینیٹ اور صدارتی الیکشن میں حکومتِ عمرانیہ کا ساتھ دینے کا تعلق ہے تو واقفِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ اس کے پسِ پردہ کیا کہانی کارفرما تھی ۔

مختصر کہ اگر آج سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے اور زرداری صاحب جیل سے باہر بیٹے ہیں تو اسی’’ ساتھ دینے‘‘ کے طفیل بیٹھے ہیں
گویاوقت ابھی تک اپوزیشن کو ملک کا سیاسی منظر نامہ بدلنے کے دو مواقع فراہم کر چکا ہے ۔ یعنی ایک حکومت کے ابتدائی دنوں میں اجتماعی استعفے دینے اور دوسرا مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شمولیت اختیار کرنے کا ۔

ان دونوں میں سے اگر ایک موقع سے بھی فاہدہ اٹھا لیا جاتا تو یقینا آج پاکستان کا سیاسی منظر نامہ مختلف ہوتا ۔
یہاں واضع کر دوں کہ اس غیر اعلانیہ معاہدے میں نواز شریف کسی طور شامل نہیں ۔ وہ اگر شامل ہوتے تو نہ جیلوں کی صعوبتیں برداشت کرتے، نہ ان کی بیٹی ہاءوس ارسٹ ہوتی اور نہ وہ ہی مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں واضع طور پر پاکستان میں دستیاب قیادت کو بھر پور شمولیت کی ہدایات جاری کرتے،اگر انہوں نے ابتداء میں مولانا کے استعفے دینے والے مشورے پر عمل نہیں کیا تو وہ آج بھی اس پر مولانا سے معزرت خواہ ہیں ۔


اب اگر پیپلز پارٹی اور "ن" لیگ کی "دستیاب قیادت" سر پکڑ کر بیٹھی ہے تو یہ سب اسی’’ غیر اعلانیہ معاہدے‘‘ کی پابندی کے باعث ہے جو انہوں نے اپنی اپنی جان بچانے کے چکر میں کیا لیکن پھر بھی ا شٹبلشمنٹ کے دھوکے کا شکار ہوئے ۔
مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اداروں کی محبت اور الفت میں مارے گئے اور جنابِ زرداری صرف اپنی صوبائی حکومت اور اپنی جان بچانے کے چکر میں ، جبکہ دھوکہ ہوا تو صرف ان کروڑوں ووٹرز سے جنہیں اس حکومت سے جلد چھٹکارے کی امید دلائی گئی تھی ۔

مختلف حکومتی کمیٹیوں کے اپوزیشن ارکان اور عام ممبرانِ اسمبلی اپنی مراعات اور تنخواہوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور آج بھی اپنے مسائل کے مارے ووٹرز کو جلد حکومتی تبدیلی کا لالی پاپ دیئے ہوئے ہیں ۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ پٹواریوں اور جیالوں کے سرپرستوں نے اپنے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر اگر ایسا کوئی معاہدہ کیا ہے جس کی رو سے وہ حکومتِ عمرانیہ کو بچانے کے پابند ہیں تو پھر اگلے عام انتخابات تک دیواروں کو ٹکریں مارنے کے بجائے پارٹی امور پر توجہ دیجیئے اور اپنے سیاسی سرپرستوں کی جانب سے "حکومتی تبدیلی" کا پالی پاپ اپنے منہ سے نکال باہر پھینکئے ۔
عقلمندی اسی میں ہے آگے اپنی اپنی مرضی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :