"خاقان عباسی کی دہائی اور صورتِ حال"‎

جمعہ 1 مئی 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، عاصمہ شیرازی کے ٹاک شو میں دہائی دے رہے تھے کہ ’’اس حکومت کا ایک ایک لمحہ ملک پر بھاری ہے ۔ یہ حکومت ختم ہو چکی ہے کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی ۔ ملک میں کوئی حکومت نام کی چیز ہے ہی نہیں ‘‘ بلا شبہ اس وقت مسلم لیگ ن میں فرنٹ فٹ پر آ کر اگر کوئی حکومتِ وقت کے خلاف کھل کر بولنے والا بے باک اور نڈر لیڈر ہے تو وہ عباسی صاحب ہیں ۔

ان کا حرف حرف حقیقت پر مبنی اور عوام کے دل کی آواز ہے لیکن امر واقع یہ ہے کہ وہ از خود کریں تو کیا کریں ۔ انہوں نے جس قدر ہو سکتا تھا حکومت کی انتقام پر مبنی کاروائیوں کا دباءو برداشت کیا پارٹی کا بیانیہ آگے بڑھایا اوربطور سیاسی کارکن اپنا بھر پور کردار ادا کیا،جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملے گی ۔

(جاری ہے)

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ صرف مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ دیگر اپوزیشن جماعتیں اور خود حکومت بھی ان کی قربانیوں کی متعرف ہے ۔

بلکہ یہاں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ اگر شاہد خاقان عباسی موجود نہ ہوتے تو ن لیگ آج کے سیاسی منظر سے کسی حد تک پیچھے جا چکی ہوتی ۔
جہاں تک عباسی صاحب کی مذکورہ دہائی دینے کا تعلق ہے،وہ از خود بھی بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک پیپلز پارٹی عملی طور پر نیک نیتی سے فرنٹ فٹ پر آ کر نہیں کھیلے گی اور ن لیگ کی ٹاپ لیڈر شپ مصلحتوں کے دائرے سے خود کو آذاد نہیں کرے گی، اس وقت تک اس حکومت کا ایک ایک لمحہ ملک پر بھاری رہے گا ۔

بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ دونوں بڑی جماعتوں کے کروڑوں ووٹروں کی مایوسی میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا ۔ خبروں کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے حکومت کی جانب سے آئین کی اٹھارویں میں ترمیم کرنے پر اپنی حمایت کا اشارہ دیا ہے،اگر ایسا ہے تو پھر شاہد خاقان عباسی کیوں دہائیاں دے دے کر ہلکان ہو رہیں ہیں ۔
خاکسار نے اپنے گزشتہ کالموں میں کئی مرتبہ یہ گوش گزار کیا ہے کہ اپوزیشن بل خصوص ن لیگ جس قدر بھی حکومت کی پسِ پردہ یا سامنے آ کر حمایت کر ے انہیں کسی قسم کا ریلیف نہیں ملے گا بلکہ ان کے خلاف حکومتی انتقام پر مبنی کاروائیوں کا دائرہ مذید بڑھتا ہی چلا جائے گا ۔

شہباز شریف کی جانب سے ہتھ ہولا رکھنے کے باوجود ان کے صاحبزادے اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز تا حال بغیر کسی ثبوت اور ریفرنس کے پابندِ سلاسل ہیں ۔ کیا یہ مثال کافی نہیں ۔ بلکہ اب تو اطلاعات یہ بھی ہیں کہ احسن اقبال کو بھی دوبارہ گرفتار کیا جا رہا ہے ۔
اگر تو اپوزیشن کے خیال میں موجودہ حالات میں تحریکِ عدمِ اعتماد کے زریعے حکومت کو فارغ کرنے کا اس لیئے خاطر خواہ کوئی فائدہ نہیں کہ باقی ماندہ اڑھائی سالوں میں ملک میں کچھ بہتری نہیں آ سکے گی اور اس کا سیاسی نقصان آنے والے عام انتخابات میں دیکھنا پڑے گا ،اس لیئے کسی نہ کسی طرح موجودہ سیٹ اپ کو چلتے رہنا چاہیئے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ بقول شاہد خاقان عباسی، اگر اس حکومت کا ایک ایک لمحہ ملک پر بھاری ہے تو اس نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا،گویا اپنی سیاست بازی کو ملک کو ہونے والے نقصان پر فوقیت دی جا رہی ہے،اپوزیشن کی ٹاپ لیڈر شپ کے ارادے تو یہی ظاہر کر رہے ہیں ۔


تو پھر اپوزیشن کیا کرے؟،اپوزیشن میں اگر دم خم ہے تو ہمت کر بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجتماعی طور پر قومی،صوبائی اور سینیٹ سے استعفے دے اور عوام کے بیچ میں آ کر کھڑی ہو تا کہ اپوزیشن لیڈروں بھی کو اس حقیقت کا ا حساس ہو سکے کہ ملک کے بائیس کروڑ عوام کے ساتھ دو سال سے کیا بیت رہی ہے؟،وہ کس اذیت اور کرب سے گزر رہے ہیں اور اپوزیشن کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں ؟،اب اس پر یہ تاویل دینا کہ اس طرح تو حکومت کو فری ہینڈ مل جائے گا اور عوام کش پالیسیاں جاری رہیں گی تو عرض ہے کہ اسی اپوزیشن کے ایوانوں میں موجود ہوتے ہوئے کون سے تیر چلائے ہیں ؟
کون سی مہنگائی اور بے روزگاری کم ہوئی؟،کیا ان ہی اپوزیشن لیڈروں کے خلاف بے بنیاد اور سیاسی انتقام پر مبنی کاروائیاں آخری حدوں تک نہیں گئیں ؟،کیاملک کی معیشت کا بیڑہ غرق نہیں ہوا،کیا قومی ادارے متنازع نہیں ہوئے،؟کیا پارلیمنٹ کی عزت اور توقیر کم نہیں ہوئی،؟ کس کس نقطے کو بیان کیا جائے، لیکن اپوزیشن کے اجتماعی استعفے دینے سے، یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اس قدر دباءو برداشت نہیں کر سکے گی کہ اپوزیشن کے خالی ہونے والے انتخابی حلقوں میں دوبارہ الیکشن کروا سکے اور یوں از سرِ نو عام انتخابات کروانے کے امکانات سو فیصد پیدا ہو جائیں گے ۔

جس کے بعد ملکی حالات میں بہتری کے بدر جہا امکانات موجود ہوں گے ۔
ہماراشاہد خاقان عباسی صاحب کو یہی مشورہ ہے کہ اپنے اور پیپلز پارٹی کے قائدین کو اسمبلیوں سے استعفے دینے یا پھر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی تیاری پر قائل کریں ۔ اس سے کم از کم، اس حکومت کا ایک ایک لمحہ جو اس ملک پر بھاری ہے،اس جرم میں اپوزیشن شریک نہیں ٹہرے گی،وگرنہ تاریخ میں یہی لکھا جائے گاکہ جب حکومت کا ایک ایک لمحہ ملک پر بھاری تھا،اپوزیشن، عوامی مسائل سے لاتعلق ہو کر، حکمتِ عملی اور سیاسی دور اندیشی کے نام پر اپنے ٹی اے ڈی اے ،مراعات اور تنخواہوں کے چکر میں مصروفِ عمل رہی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :