سوال است ۔۔جواب ندارد

بدھ 12 فروری 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

اقتدار کی غلام گردشوں سے لیکر چائے کے ڈھابے پر کچھ سوالات زبان زد عام ہیں ۔سوال است جواب نداردکی عملی عکاسی نظر آرہی ہے مگر سوال کے حوالے سے افتخار عارف نے کہا تھا 
جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا توسہی 
پھر اس سوال میں پہلونئے سوال کے رکھ
کسی کوسمجھ نہیں آرہی کہ ملک میں چل کیارہا ہے؟کیاعوام اب موجودہ حکومت سے تنگ آچکی ہے ؟ ملک میں سیاسی ومعاشی بحران کے پیچھے اصل وجوہات کیاہیں ؟ مہنگائی میں ہوشربااضافہ مافیاز کی وجہ سے ہے یاناقص حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ؟ ملک میں بیڈ گورننس کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار ہیں یا حکمرانوں میں قوت فیصلہ سازی نہ ہونے کی وجہ سے ؟ ہر طرف اختلافات کی خبریں زیرگردش ہیں ان اختلافات کی اصل وجہ کیاہے ؟ پس پردہ کون سے عوامل ہیں ؟ وجہ اختلافات کون کون ہیں ؟ اس لڑائی کی وجہ کون بنا ہے ؟ لڑائی کروائی جارہی ہے یا لڑائی خود ہی شروع ہوگئی ہے ؟ کیا اختلافات کی وجہ کرپشن ہے یا اپنے مفادات کا تحفظ ؟ جھگڑا کس بات کاہے ؟ حکومتی اتحادی روٹھے ہیں یا انہیں کسی نے کہا ہے کہ آپ روٹھ جائیں ؟
کہانی آپ الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گاجب تماشہ ختم ہوگا
نئے کردار آتے جاررہے ہیں روشنی میں 
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشہ ختم ہوگا
کیا پورا پاکستان اب سڑکوں پر نکل آئے گا؟ کیااب راج کرے گی خلق خدا ؟ کیااب ریاست ہوگی ماں کے جیسی کاعملی نمونہ دیکھنے کوملے گا؟ کیااب سب کا احتساب ہوگا؟ فانی بدایونی نے کہاتھا 
کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر
کچھ امید جواب میں گزری
کیا امیر وغریب کے لئے ایک قانون ہوگا؟ کیااب طاقتور مافیاز بھی قانون کے شکنجے میں آئیں گے ؟ کیااب ملک میں نیو سوشل کنٹریکٹ کرکے واقعہ ہی ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی جائے گی ؟ کیا ملک میں خلیفہ ثانی حضرت عمرکی طرح حکمرانوں سے عام آدمی یہ پوچھ سکے گا کہ اس کے پاس یہ دولت کے انبار وسینکڑوں کنال کے محل نما گھر کہاں سے آئے ہیں ؟ کیا حکمران قوم کو اصل حقائق بتائیں گے کہ مافیاز کے سرپرستی کرنے والو ں میں ان کے اپنے مصاحبین بھی شامل ہیں ؟کیاملک میں انصاف کادوردورہ ہوگا؟ قتیل شفائی نے کہاتھا 
کون اس دیس میں دے گاہمیں انصاف کی بھیک 
جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے 
جس میں غلے کے نگہبان ہیں وہ گیڈرجن سے
قحط وافلاس کے بھوتوں نے امان چاہی ہے
ریاست مدینہ میں تو خلیفہ وقت حضرت علی ابن طالب  کایہودی سے معاملہ ہو تو قاضی شریح اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ یہودی کے حق میں دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

حضرت علی حق وسچ پر تھے مگر گواہ بیٹے تھے اس لئے قاضی شریح نے فیصلہ دیا کہ زرہ یہودی کے حوالے کردی جائے ۔ اگر غیر مسلم سے بھی کسی معاملے پرخلیفہ وقت کا اختلاف یا مسئلہ ہوتو اس وقت کا قاضی حق وسچ پر مبنی فیصلہ کرتا تھاکہ ہمارے ملک میں عدالتیں برابری کی بناپر فیصلہ کررہی ہیں ؟کیا ملک میں انصاف کابول بالاہونے والاہے ؟ کیااب وقت آگیاہے کہ آئین پاکستان کے پہلے 40 آرٹیکلز جن میں عوام کوبنیادی انسانی حقوق دینے کی گارنٹی دی گئی ہے ریاست اب عملی طور پر ان کوپورا کرے گی ؟ کیاملک میں دوہرانظام تعلیم ختم ہوجائے گا؟ کیا ملک میں صحت کی معیاری سہولیات سب کوبرابری کی بناپر ملیں گی ؟ کیاراجن پور کے ایک ہاری کی بیٹی کوبھی وہی دوائی مل سکے گی جواسلام آباد میں مقیم حکمران اشرافیہ کے بچوں کومل رہی ہے ؟ کیا ملک میں ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں ان کوبھی اشرافیہ کے بچوں کی طرح سکولوں میں بھیجنے کابندوبست ہوگاکبھی ؟ کیااس ملک کے 98 فیصد غریب عوام کو2 فیصد اشرافیہ اپنے ساتھ اقتدار میں شریک ہونے کا ،ملکی وسائل میں برابری کے حقدار ہونے کا موقع دے گی ؟
حیران ہوں دل کو روؤں کے پیٹوں جگر کومیں
مقدور ہوں توساتھ رکھوں نوحہ گر کومیں
 کیا اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی؟ کیاملک سے غربت وافلاس کاخاتمہ ہوجائے گا؟ لاکھوں بچے جوچائلڈ لیبر کرنے پر مجبورہیں، ریاست ان کو تعلیم ودیگر سہولیات دے گی تاکہ وہ اپنا بچپن مزدوری کی بجائے تعلیم حاصل کرنے پر صرف کریں ؟غربت سے تنگ لوگ خود کشیوں پر مجبور ہیں ان کے بارے میں کسی کوفکر ہوگی ؟لاکھوں لڑکیاں اس وجہ سے شادی کے بندھن میں نہیں بند سکیں کہ ان کے والدین کے پاس جہیز و دیگر اخراجات کے پیسے نہیں ہیں ان کے لئے ریاست نے کیا کیا ؟بے روزگاری کے ساتھ اشیاء خورونوش کی قیمتیں ایسے ہی بڑھتی رہیں گی تو عام آدمی فاقے کرنے پر مجبور ہوگا؟
کھڑا ہوآج بھی روٹی کے چار حرف لئے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
 ایسے میں ریاست کے پاس کیالائحہ عمل ہے ؟ وزیراعظم عمران خان سے اپنی جماعت کے مسائل حل نہیں ہورہے ان کے باہمی اختلافات ختم نہیں ہورہے تووہ عوام کے مسائل کیسے حل کریں گے؟ملک میں مسائل حل نہ ہونے کی وجہ نظام کا مضبوط شکنجہ ہے یا حکومت کے پاس کسی منشور کانہ ہونا؟
مصحفی ہم تویہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں توبہت کام رفوکانکلا
اہم مسئلہ ہماری ترجیحات کا بھی ہے جس کا اندازہ اکثروبیشتر نان ایشوز کوایشو بناکر پیش کرنے سے ہوتا ہے ۔

ملک کا اصل مسئلہ نوازشریف کی بیماری ہے یا ٹک ٹاک گرل حریم شاہ یا ملک کودرپیش سیاسی ،معاشی وانتظامی یا خارجہ پالیسی کے مسائل ؟ مسئلہ وفاقی حکومت کی ترجیحات کا ہے یا صوبائی حکومتوں کی نااہلی کا ؟ جووفاقی وصوبائی حکومت ایک آئی جی کی تقرری کا مسئلہ حل نہ کرسکے وہ حکومت این ایف سی ایوارڈ و دیگرسنجیدہ وحساس مسائل کیسے حل کرے گی ؟اگر موجودہ حکومت سے سوال پوچھیں کہ مسائل حل کیوں نہیں ہورہے تو وہ سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال کر اپنی جان چھڑالیتے ہیں وہ شاعر کی زبان میں یہ جواب دیتے ہیں 
کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ
تومجھ سے عہد گزشتہ کا اب حساب نہ پوچھ
مگر عوام حکمرانوں سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ
توادھر ادھر کی نہ بات کریہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کاسوال ہے
اپوزیشن اپنے اپنے مفادات کی خاطر تتربتر ہے ،مولانا فضل الرحمن بے وقت کی راگنی بجاکر اب مسلم لیگ ن وپی پی پی سے روٹھ گئے ہیں ایسے میں ملک کے وسیع تر مفادات کی خاطر حکومت ،اپوزیشن اور ادارے سب ایک پیج پر آسکتے ہیں ؟کیا ملک کے وسیع تر مفاد میں میثاق معیشت ہوسکتاہے ؟کیا خارجہ پالیسی کیلئے حکمران ،اپوزیشن ،ملکی سالامتی ودفاع کے ادارے سب ایک پیج پر آسکتے ہیں ؟کیامیڈیا عام عوام کوسچ بتائے گا؟ کیا میڈیا کے پالیسی ساز اپنے ذاتی مفادات سے باہر نکل کر عوام کواصل حقائق سے آگاہ کریں گے ؟اور تو کیا ہم نے اپنی شوبزنس انڈسٹری تباہ کرلی ہے ،ملک کی شوبزنس انڈسٹری کا بیڑہ کیوں غرق ہوا؟قوم نظریاتی وفکری انحطاط کا شکار ہے اس فکری انحطاط کی وجوہات کیاہیں ؟ہمارے ملک میں معیاری ادب کیوں نہیں ہے ؟کیابیوروکریسی روایتی ہٹ دھرمی وپروٹوکول سے نکل کر عوام کی خدمت کے لئے کمر کس لے گی ؟ کیا اب سرکاری دفتروں میں فائل مہینوں ُرلتی نہیں رہے گی ؟کیا اب ملک ریاض کے بقول فائل کوپہیہ لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ؟کیااب ہمارے ملک کے ریٹائیرڈ جرنیل غیر ملکی اداروں میں نوکریاں کرنے کی بجائے ملک میں رہ کر ملک کی خدمت کریں گے ؟ کیا اشرافیہ دوسرے ممالک کی دوہری شہریت چھوڑ کر صرف پاکستان کے وفادار رہیں گے ؟اپنے بچوں کویورپ کے پرتعیش زندگی سے نکال کر پاکستان لائیں گے ؟کیا حکمرانوں کے بچے پاکستان میں پڑھیں گے ؟کیا سیاستدان اپناعلاج لندن کی بجائے پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں کروائیں گے ؟حکمران کہتے ہیں ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے تومہنگائی میں اضافہ کیوں ہورہا ہے ؟ کاروبار کیوں نہیں چل رہا ؟ افراط زر کیوں بڑھ رہا ہے ؟بے روزگار ی کیوں بڑھ رہی ہے؟لاکھوں لوگ خط غربت سے نیچے کیوں آرہے ہیں ؟چھوٹے کاروبار کیوں بندہورہے ہیں ؟انڈسٹری کیوں بند پڑی ہے ؟جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ وزیراعظم خود کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ ان کاتنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا توایک مزدور کا کیسے ہوتا ہوگا؟جب صدر پاکستان خود کہہ رہے ہوکہ وہ مہنگائی سے پریشان ہیں تو عام آدمی کی بے بسی وپسماندگی کا اندازہ اس سے خود ہی ہوجاتاہے۔

آٹے وچینی کابحران کیوں پیدا ہوا؟ اس کے ذمہ داروں کو کیا سزا ملی یا صرف تقریریں کافی ہیں کہ چھوڑیں گے نہیں ؟کیا اب سرمایہ داروں سے زیادہ ٹیکس لیکر غریب و بے کس ،مجبور اوربے سہارالوگوں کی طرف وسائل کارخ موڑا جائے گا؟
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ سازہوتاکوئی غمگسارہوتا
زبانی جمع خرچ کے علاوہ عملی اقدامات کیوں نظر نہیں آرہے ؟ہر شخص ،جماعت کی اپنے مفادات و ترجیحات ہیں کیا کسی کی ترجیح پاکستان بھی ہے ؟ملک میں قومی یکجہتی کافقدان کیوں ہے ؟ لسانی ،مذہبی ،علاقائی وفرقہ وارانہ سوچ کو ختم کرکے ہم ایک قوم کیوں نہیں بن سکے ؟علامہ اقبال نے کہاتھا 
فرقہ بندی ہے اور کہیں ذاتیں ہیں 
کیا زمانے میں پنہنے کی یہی باتیں ہیں 
انتہاپسندی جیسے چیلنج سے ہم کیسے نمٹ سکتے ہیں ؟غصہ، انتقام اورنفرت ہمارے معاشرے میں اتنی عام کیوں ہوگئی ہے ؟ہم ایک ہجوم سے قوم کیوں نہیں بن سکے ؟اس جیسے درجنوں سوالات ہیں جو جواب کے متقاضی ہیں مگر ان کے جوابات دے گا کون ؟کیا ہمارے ماتم کناں دانشور ان سوالات کاجواب دیں گے ؟کیا ارباب اقتدار واختیار کے پاس فرصت ہے اس پر سوچنے وجواب دینے کے لئے ؟ہماری شاندار ماضی کے باوجود اب ہم زوال کا شکار کیوں ہیں ؟اس زوال کی وجوہات کون تلاش کرے گا؟ابن انشا نے کہاتھا
رات آکر گزربھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
 سارے سوالات جو زبان زد عام ہیں مگر ان کے جوابات وحل کی طرف توجہ دینے کے لئے کسی کے پاس فرصت نہیں ہے ۔

ان سوالات وتمہید کامقصد صرف یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی ذمہ داری دوسرے پر ڈال دیتاہے خود کوئی ذمہ داری لینے کوتیار کیوں نہیں ہے؟بے یقینی کی ایک فضا سی قائم ہے جوسارے ملک پر چھائی ہوئی ہے اس پژمردگی،یاس ،ناامیدی سے نکلنے کی کوئی سبیل ہے؟بقول شاد لکھنوی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی
مختصرابحث کا موضوع سارے ملک میں ایک ہی ہے ۔۔کیاہونے والاہے ؟ کیاحکومت جانے والی ہے ؟کیاعثمان بزدار کی جگہ نیاوزیراعلی پنجاب آرہاہے ؟ کیامحمود خان وزیراعلی کے پی کے آخری دن ہیں ؟ کیاشبر زیدی کی طرح حفیظ شیخ بھی جانے والے ہیں ؟ کیافوج و عمران خان کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی ہے ؟ کیا فوج نے عمران خان سے ہاتھ اٹھالیاہے ؟کیاعمران خان اسمبلیاں توڑ دیں گے ؟ کیاقومی حکومت بننے والی ہے یا ملک میں صدارتی نظام آنے والاہے ؟کیا یہ جمہوری نظام ڈلیور کرنے میں ناکام ہوگیاہے ؟ اگر یہ نظام ناکام ہوگیاہے تومتبادل نظام کیاہے ؟ اس بات کی کیاگارنٹی ہے کہ نیانظام ڈلیور کرسکے گا ؟ اگر اسی نظام کوچلاناہے تواس میں اصلاحات کیسے ہوسکتی ہیں ؟ اگر نظام ڈلیور کرنے میں رکاوٹ ہے توعمران خان کا متبادل کیاہے ؟ عمران خان کے بعد دوسرا آپشن کیاہے ؟اگر کوئی آپشن نہیں تو یہ سیاسی بھونچال کیوں ہے ؟اس سیاسی بھونچال کافائدہ کس کوہوگا؟یہ بھونچال پیدا کس نے کیاہے ؟
آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو
اک تیرا ذکرتھااور بیچ میں کیا کیانکلا
مگر یہ آئین وقانون کی گفتگو،کرپشن کے ہندسے ،سول وملٹری اختلافات ،گوورننس کے مسائل ،خارجہ پالیسی کے داؤ پیچ ،امریکہ ایران کشیدگی میں پاکستان کاکردار ،پاک امریکہ تعلقات ہویا سی پیک کے دوررس اثرات اور ان ساری پڑھی لکھی باتوں کا ،الفاظ کے گورکھ دھندوں ،معیشت پر موڈیز کی رپورٹ یابرطانیہ وامریکہ کی ٹریول ایڈوائزری میں تبدیلی ہو ،عام آدمی کواس بات سے کوئی سروکار نہیں اس کا مسئلہ دووقت کی روٹی ہے ،اگر بیمار ہوجائے تودوائی وعلاج معالجہ کی سہولت ہے ،بچوں کی تعلیم ورہنے کے لئے چھت کاخواب ،اس عام آدمی کے یہ مسائل کیسے حل ہونگے ؟مگر ہم سب یہ دیکھ رہے ہیں مگر بول کوئی نہیں رہا ؟ حل کوئی تلاش نہیں کررہا حفیظ بنارسی نے کہاتھا 
کس منہ سے کریں ان کے تغافل کی شکایت
خود ہم کومحبت کا سبق یاد نہیں ہے
ہم سچ کیوں نہیں بول رہے ؟ سچ کوکیوں چھپایا جارہا ہے ؟ حقائق کیوں سامنے نہیں آرہے ؟بقول شاعر
شب گزرجائے توظلمت کی شکایت بے سود
درد تھم جائے تواظہار تعزیت کیسا
ہر مسئلہ کا حل حکومت ودوسروں پر ڈال دینے سے مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا ۔

ہم میں سے ہر شخص کواپنی ذمہ داری کا احساس خود کرناہوگا اوراحمد فراز کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنے حصہ کی شمع جلانے ہوگی 
شکوہ ظلمت شب سے توبہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے 
ورنہ ماؤزے تنگ نے کہاتھا کہ ایک قدم آگے دوقدم پیچھے ۔وہی حال ہمارا ہے کہ ہم آگے کی بجائے پیچھے کی طرف سفر کررہے ہیں ۔کیا ملک کے درپیش بحرانوں و مسائل کو حل کرناصرف حکومت وسیاستدانوں کا ہی کام ہے یا عوام کا بھی اس میں کچھ کردار ہوتاہے ؟
کوئی چراغ جلاتا نہیں سلیقے سے
مگر سبھی کوشکایت ہوا سے ہوتی ہے
دوسرا اہم ایشو یہ ہے کہ عوام بھی تضادات کا شکار ہے اور ان کوروزی روٹی کے چکر میں اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ انہیں کسی چیز کی پرواہ ہی نہیں بقول قتیل شفائی 
ہم کوآپس میں محبت نہیں کرنے دیتے 
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں
ایک اور المیہ بقول شاعر
خاک کر دیوے جلاکر پہلے پھر ٹسوے بہائے 
شمع مجلس میں بڑی دل سوزپروانے کی ہے
مایوسی وناامیدی کی بھی کوئی بات نہیں ہے بقول فیض احمد فیض 
ہر چارہ گر کوچارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جودکھ تھے بہت لادوا نہ تھے
جن قوموں نے ترقی کی ہے انہوں نے یہ کٹھن راستہ بہت لمبے پرخطر سفر کے بعد ترقی کی منزل حاصل کی ہے ۔

کامیابی وترقی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے ۔ترقی کا سفر طے کرنے کے لئے بہت لمبے سفر کی ضرورت ہے ہم توآج تک اپنی منزل کا صحیح طرح تعین نہیں کرسکے درست سمت میں سفر تودرکناربقول میر تقی میر
شکوہ آبلہ ابھی سے میر
ہے پیارے ہنوزدلی دور
مگر اس میں گھبرانے کی بھی کوئی بات نہیں ہے ہم میں سے اگر ہر کوئی آج سے اپنا کام پوری ایمانداری وخلوص نیت سے کرنا شروع کردے توبہت سے مسائل ،شکوے وشکایات کاحل خود ہی نظر آنا شروع ہوجائے گا۔

ہم سب کو اپنے حصے کی شمع جلانی چاہئے تب جاکر ہم تاریکیوں وجہالت سے نجات حاصل کرسکتے ہیں ۔
یہ اور بات ہے کہ آندھی ہمارے بس میں نہیں
مگر چراغ جلانا تواختیار میں ہے
قرآن کریم کے تیرہویں پارے کی سورہ رعدمیں ارشاد باری تعالی ہے کہ ترجمہ :بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا ،جب تک وہ خوداپنے آپ کونہ بدل ڈالے۔قرآن پاک کی اسی آیت مبارکہ کا شعری ترجمہ ہمارے لئے نشان منزل بن سکتا ہے 
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہوجس کوخیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :