پاکستان اور اسرائیل کا ٹکراؤ مگر کیسے؟؟؟‎

منگل 1 جون 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

گزشتہ دنوں غزہ میں میں بدترین اسرائیلی جارحیت کے خلاف او آئی سی کی درخواست پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس ہوا ، جس میں پاکستان نے مسئلہ فلسطین کو بھرپور انداز میں اٹھایا۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں القدس کے تحفظ کیلئے ایک" بین الاقوامی تحفظ فورس"کے قیام کی تجویز بھی پیش کی ، اس مطالبے کو ترکی کی خصوصی حمایت حاصل تھی ۔

کیونکہ ترک صدر رجب طیب اردوان اس سے قبل بھی ایسی ہی تجویز پیش کرچکےتھے۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر سلامتی کونسل کو "دھوکے باز" کہا، امریکا کو "جانبدار" کہا، اور اسرائیل کو دہشتگرد کہا۔ اس کے بعد CNN کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے عالمی میڈیا کو ڈیپ پاکٹس یعنی "لفافہ" قرار دیا۔

(جاری ہے)

اس کے بعد پاکستان نے او آئی سی کی جانب سے اقوام متحدہ میں اسرائیل مخالف ایک قرارداد پر قائدانہ کردار ادا کیا۔

اس قرارداد میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اسرائیل کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس قرارداد کی روشنی میں انسانی حقوق کونسل نے انٹرنیشنل کمیشن آف انکوائری قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ انکوائری کمیشن اس بات کی تحقیقات کرے گا کہ اسرائیل منظم طور پر کس طرح فلسطینیوں سے ناانصافی کر رہا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فروغ دے رہا ہے۔

پاکستان کے اس کردار پر اسرائیل نے پہلی بار پاکستان کے بارے میں شدید ردعمل دیا ہے، اور یہ محسوس کیا جاسکتا ہےکہ تل ابیب تلملا اٹھا ہے ۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل ایلن شپز پاکستان کےمتعلق کافی تلخ زبان میں بیان جاری کیا اور کہا کہ ’’پاکستان درحقیقت کانچ کے محل میں رہ رہا ہے لیکن مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوری ریاست اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں سرگرم ہے۔

‘‘ صرف یہی نہیں اسرائیلی ڈائریکٹر جنرل نے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکہ کی تیار کی گئی ایک رپورٹ کا لنک بھی ٹویٹ کیا ہے۔     ہے۔ گویا پاکستان اور اسرائیل ایک طرح سے آمنے سامنے آچکے ہیں۔ اسرائیل پاکستان سے بدلہ ضرور لیناچاہےگا۔ اس مقصد کیلئے اسرائیل ماضی میں جس طرح پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ خاطر خواہ دوستی نبھاتارہاہے، سبھی جانتے ہیں ۔

اسرائیل بھارت کو جدیدترین اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے ، اب اسرائیل بھارت کو ہرطرح سے جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی سے لیس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر نسل کشی اور ہندو آبادی کاری کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ پہلے ہی اسرائیل کی جانب سے بھارت کو دیا جاچکاہے ۔

اب میں مزید شدت لائے جانے کا بھی امکان ہے ۔ اس کے علاوہ وہ عرب ممالک جو غیرسرکاری سطح پر اسرائیل سے خفیہ دوستانہ روابط استوار کیے ہوئے ہیں ، ان کے ذریعے پاکستان کو کئی طرح کے مسائل میں مبتلا کیاجاسکتا ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل حل کرنے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا عدم تعاون درپیش ہوسکتاہے۔ اس کے علاوہ تجارتی تعلقات استوار کرنے ، سرمایہ کاری کرنے اور افرادی قوت کے حصول میں پاکستان پر بھارت کو ترجیح دئیے جانے کا قومی امکان موجود ہے۔

بھارت نواز عرب حکمران پاکستان پر مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالنے کیلئے بھی دباؤ بڑھائیں گے۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کو ایک مرتبہ پھر ہوا دینے کےلیے راء ، موساد کا گٹھ جوڑ بھی اپنا اثردکھائےگا۔ پاکستان میں اہم شخصیات اور قومی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ پاکستان پربنیادی انسانی حقوق کی پامالیاں​ ثابت کرنے کےلیے سفارتی سطح پر ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائےگا۔

سی پیک کو ناکام بنانے کیلئے ہرحربہ آزمایا جائےگا۔ اس وقت پاکستان پر شدید دباؤ ہے کہ وہ امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرے ۔ پاکستان کے انکار کی صورت میں بھارت دوسرا ممکنہ آپشن ہے۔ بھارت یہ موقع کسی صورت نہیں گنوائےگا۔ اس کے نتیجے میں مشرقی سرحدوں پر ٹرائیکا کا شدید دباؤ پڑے گا ۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سودی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔

عالمی مالیاتی اداروں میں صہیونی موجودگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ایف اے ٹی ایف بھی امریکہ کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنا ہوا ہے ، فرانس اور امریکہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نہ نکلنے دینے کیلئے حتی الامکان پوری کوشش کریں گے۔ لہذٰا مسئلہ فلسطین پر اسرائیل کی کھل کر مخالفت کےباعث پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیے جانے کا قوی امکان ہے ۔ ہمیں کئ نئے اور غیر متوقع مسائل کا سامنا کرناپڑسکتاہے۔

اندرون ملک سے لسانیت پرستی ، فرقہ واریت ، صوبائی عصبیت اچانک سر اٹھاسکتے ہیں ۔ پاکستان کے دشمنوں کا ہمیشہ سے یہ ہی وطیرہ رہا ہے کہ پاکستان کو اقتصادی اور داخلی سیاسی محاذ پر الجھائے رکھا جائے۔ ہمیں تقسیم بھی کہاجاتاہے ، اور لڑایا بھی جاتاہے ۔ مختصر یہ کہ ٹرائیکا مشترکہ طورپر پاکستان کے خلاف ایک پراکسی وار لانچ کرسکتاہے ۔ ہمارے دشمن کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان مستحکم ہوکر عالمی سطح پر امت مسلمہ کا قائد بن کر ابھرے۔

وہ جانتے ہیں کہ ہم ایٹمی طاقت پہلے ہی حاصل کرچکے ہیں ، ہماری مسلح افواج روایتی و غیرروایتی سطح پر دشمن کو ناکوں چنے چبوا​ سکتی ہیں ۔ گویا پاکستان پہلے ہی ناقابل تسخیر بن چکاہے۔ لہذٰا داخلی طورپر اقتصادی اور سیاسی استحکام حاصل کرکے پاکستان ٹرائیکا پر دباؤ ڈالنے کے قابل ہوجائے گا۔ اسی لیے ہمیں ایک نئی ممکنہ پراکسی/ ہائبرڈ وار کیلئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے جوکہ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ذہنی چالبازیوں​ سے لڑی جائےگی ، کیا آپ واقعی تیار ہیں ؟؟؟؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :