جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع

جمعرات 22 اگست 2019

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے ایکسٹینشن ملنے کے بعد آئندہ 3سال تک چیف آف آرمی سٹاف رہیں گے کچھ لوگ اس ایکسٹینشن کو لے کر موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان حکومت نے خطہ کی سیکیورٹی صورتحال کی پیچیدگی کو مدنظر رکھ کر جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی بلکہ اپنے سیاسی مقاصد اور آمرانہ طرز حکمرانی کے لئے جنرل باجوہ کو اگلی تین سالہ مدت کے لئے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر برقرار رکھا ہے جنرل قمر جاوید باجوہ ایکسٹینشن کے ذریعے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر برقرار رہنے والے دوسرے فوجی سربراہ ہیں اس سے پہلے جنرل کیانی کو مدت ملازمت میں توسیع دے کر فوجی سربراہ کے عہدے پر برقرار رکھا گیا تھا اب چیف آف آرمی سٹاف قمر جاوید باجوہ نومبر 2022تک اس عہدے پر براجمان رہیں گے۔

(جاری ہے)

آرمی چیف کی ایکسٹینشن کو عہد حاضر کی حکومت نے ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا ہندوستان کے ساتھ فوجی کشیدگی اور کشمیر کی خونچکاں صورت حال کی وجہ سے لائن آف کنٹرول پر عسکری حکمت عملی کی ازسرنو ترتیب کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔جبکہ اندر کی خبر رکھنے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آرمی چیف کی ایکٹینشن کی اصل وجہ بیرونی سے کہیں زیادہ اندرونی محاذ ہے اور اس محاذ پر قابو پانے کے لئے جنرل باجوہ سے زیادہ کوئی اور جنرل موزوں نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کی خونچکاں صورت حال،ہندو انتہا پسندوں کے جارحانہ عزائم اور برصغیر میں ابلیس کے نامزد چیلے نریندر مودی کے شیطانی فلسفے ،،جس سے پورا خطہ آگ و خون کے دہانے پر ہے،،،اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے تناظر میں اس ایکٹینشن کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے مگر جب ہم عالمی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو اس سے بھی کہیں زیادہ مخدوش حالات میں بھی جنرلوں کی مدت ملازمت میں توسیع کی مثال نہیں ملتی جنرل کیانی کی ایکسٹینشن کے موقع پر جناب عمران خان صاحب نے خود کہا تھا کہ عالمی جنگوں میں بھی کسی جنرل کو توسیع نہیں دی گئی تو پھر ہمارے دیس میں ایسا کیوں کیا جا رہا ہے ایسے میں خان صاحب سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا ذاتی اور سیاسی مقاصد کی خاطر اصولوں کو توڑا جا سکتا ہے اقدار کی بلی چڑھائی جا سکتی ہے اپنے ہی آدوشوں اور اقوال کی نفی کی جا سکتی ہے ۔

میں ا س تمہید میں نہیں جانا چاہتا کیوں کہ اس سے تحریر طول پکڑ جائے گی۔مگر میں اتنا ضرور کہنا چاہتا ہو ں کہ میرے وطن کی سپاہ دنیا میں ایک منظم ،مضبوط،قابل رشک اور دلیر عسکری قوت کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی ہے اور اس مستحکم ادارے میں اہلیّت اور قابلیّت کی کوئی کمی نہیں زمانہ جانتا ہے کہ جب اس ادارے کی کمان جنرل راحیل شریف کے ہاتھوں میں تھی تو پوری دنیا کہتی تھی کہ جنرل راحیل شریف جیسا قابل اوردور اندیش جنرل کوئی نہیں اس نے اپنی عسکری قائدانہ صلاحیتوں اور دہشت گردوں کے خلاف کامیاب فوجی کاروائیوں سے پاکستانی قوم اور پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اگرکچھ اور مدت کے لئے فوج کی کمان جنرل راحیل شریف کے ہاتھوں میں رہے تو بعید نہیں کہ پاکستان تھوڑے ہی عرصے میں پاک سر زمین کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کر دیں گے مگر انہوں نے نظام کے تحت فوج کی قیادت جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد کی اور چلتے بنے جب جنرل قمر جاوید باجوہ منظر پر نمودار ہوئے تو انہوں نے باجوہ داکٹرائن کچھ ایسے انداز سے متعاف کرائی کہ اس نے جنرل راحیل صاحب کی قوم کو یاد بھی نہیں آنے دی جنرل باجوہ نے 2008سے دہشت گردوں ،ملک دشمنوں اور دھرتی ماں کی حرمت کو پامال کرنے والے بدبختوں کے ناپاک وجودسے تقریبا پاک دھرتی کو پاک کر دیا ہے میجرجنرل عاصم سلیم باجوہ جس شان و شوکت ،خود اعتمادی اور تمکنت سے ،،آئی ایس پی آر،،کو چلاتے تھے وہ بھی قابل رشک تھا ان کی خوش دلی ،مہارت اور انداز بیاں کو دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا تھا کہ عاصم باجوہ کے بعد شاید کوئی اور میجر جنرل اس شعبے کو اتنے احسن طریقے سے چلا نہیں پائے گا مگر جب میجر جنرل آصف غفور کے ہاتھوں میںآ ئی ایس پی آر کی کمان آئی تو انہوں نے اپنے بے باکانہ انداز خطابت سے پوری قوم کو اپنا گرویدہ بنا لیاان کے لہجے میں عاجزی،انکساری کے ساتھ دشمن کو دھمکی کا جو انوکھا انداز پنہاں ہوتا ہے میجر جنرل آصف غفور انتہائی مہارت اور افکار کے جس توازن کے ساتھ عمل کا رد عمل دیتے ہیں یقینا وہ قوم کے جذبات،احساسات اور امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے ان کے اس طرز تکلم نے عاصم باجوہ کی یاد کو ذہنوں سے کھرچ دیا ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وطن عزیز کے ا س مقدم اور محترم ادارے میں قابلیّت کی کمی ہے اورنہ ہی اہلیّت کا کوئی فقدان ہے یہ اور بات ہے کہ وزارت اعظمیٰ کے منصب پر پہنچنے والوں کی ترجیحات اور خواہشات یکسر تبدیل ہو جاتی ہیں ۔


2008سے لیکر راہ نجات تک اور راہ نجات سے لیکر ردّ الفساد تک جنوبی وزیرستان سے لیکر افغانستان تک اور افغانستان کے مغربی بارڈر سے لیکر مشرقی بارڈرتک ہمارے فوجی جوانوں نے دلیری ،شجاعت،بہادری اور قربانیوں کی ایسی داستاں رقم کی ہے جس پر پوری قوم کو فخر ہے یہ انہی قربانیوں کا ہی ثمر ہے کہ آج ہر پاکستانی کے چہرے پر خوشی اور مسکراہٹ ہے گلستاں مہک رہے ہیں باغوں میں پرندے چہک رہے ہیں فاٹا میں امن کا پرچم لہرا رہا ہے اور پوری قوم کو یہ بھی یقین ہے کہ پاکستانی سپاہ ہندو ابتہاء پسندی اور جارحیّت کو کچلنے کی بھر پور طاقت اور جذبہ رکھتی ہے ہمارا دشمن بھی ا س سے بخوبی آگاہ ہے ۔

مگر دکھ اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے کل پر اپنا آج قربان کرنے والوں،ہر میدان جنگ میں کامیابیاں سمیٹنے والوں کے خلاف کچھ لوگ غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں فوج کو گالیاں نکالتے ہیں ملکی ترقی و خوشحالی کا فوج کو دشمن گردانتے ہیں لیکن ایسا دنیا کے کسی کونے میں نہیں ہوتا جہاں لوگ اپنی افواج کے خلاف اس طرح کی غیر اخلاقی اور غیر مہذبانہ زبان استعمال کرتے ہوں دنیا کی سپر پاور امریکہ نے پچھلے پانچ عشروں میں دنیا کے کئی حصوں میں انگنت جنگیں لڑی ہیں اور ہنوز اس کی فوج کئی محاذ پر جنگوں میں مصروف ہے لیکن کسی محاذ پر بھی کامیابی امریکی فوج کا مقدر نہیں بنی اس کے باوجود نہ کسی امریکی نہ کسی امریکی سیاستدان اور نہ ہی کسی دلالی این جی اوز کو یہ جرات ہوئی ہے کہ وہ امریکی فوج کے خلاف کوئی ایسا بیان دے سکے جس سے امریکی فوج کی تضحیک ہو۔


جنرل قمر جاوید باجوہ کا اگلا تین سالہ دور حکومت اور فوج کے درمیان مفاہمت اور اشتراک کے رشتے کو اور مضبوط کرے گا ،جنرل باجوہ کی قیادت میں ہماری فوج نہ صرف کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے میں کامیاب ہوگی بلکہ فوج اور حکومت کے درمیان اعتماد سے ملک کے سیاسی ،معاشی اور اقتصادی مسائل بھی حل ہونگے ،انشاء اللہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :