افغان،کمبل اور مہمان نوازی

پیر 21 جون 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

1947 ء میں قیام پاکستان کے بعد مملکت خداداد کو ہندوستان سے آنیوالے لاکھوں مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنا پڑااس کے بعد 1971 کے بعد بنگلہ دیش اور1979میں افغانستان سے آنیوالے لاکھوں مہاجرین نے پاکستان میں پناہ حاصل کی اورآج بھی یہاں مقیم ہیں۔ہندوستان سے پاکستان آنے والے مہاجرین تحریک پاکستان کاحصہ تھے اورانہوں نے پاکستان کیلئے قربانیاں دیں اپناسب کچھ پاکستان کیلئے قربان کرکے اپنے نئے وطن کیلئے ہجرت کی اور1971 میں مشرقی پاکستان ہمارے ازلی دشمن بھارت اور کچھ ہمارے اپنے کوتاہ اندیشوں کی ریشہ دوانیوں سے الگ ملک بنگلہ دیش بن گیا،بنگلہ دیش سے پاکستان سے محبت کرنے والے پاکستانیوں کومجبوراََ ہجرت کرناپڑی کیونکہ وہاں مکتی باہنی کے غنڈوں سے انہیں خطرات درپیش تھے یہ وہ محب وطن تھے جنہوں نے مکتی باہنی کے غنڈوں کی بجائے پاک فوج کاساتھ دیا تھا۔

(جاری ہے)

افغان مہاجرین کی پاکستان کیلئے کیاخدمات ہیں انہوں نے پاکستان کیلئے کون سی قربانیاں دی ہیں ،ہمارے بچوں کے مستقبل کوداؤپرلگاکر 40سال سے زائد عرصہ سے یہ ہمارے بن بلائے مہمان بنے ہوئے ہیں جو واپس جانے کانام ہی نہیں لیتے، بزرگوں سے کئی مثالیں سنتے آرہے ہیں جن میں سے ایک مثال بہت مشہور ہے کہ میں تو کمبل چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑ تا۔

کہتے ہیں کہ کوئی بندہ دریا کنارے کھڑا پانی کو دیکھ رہا تھا تو اسے پانی کے اندر ایک کمبل بہتا ہوا دکھائی دیا، وہ اس کمبل کے لالچ میں دریا میں کود گیا اور جب کمبل کو پکڑنے لگا تو پتا چلا یہ کمبل نہیں بلکہ ایک ریچھ ہے اب ریچھ کو بھی سہارا چاہیے تھا اس نے بندے کو جپھی ڈال لی، کنارے سے کسی دوسرے شخص نے آواز لگائی کہ کمبل کو چھوڑو اپنی جان بچا کر واپس آجاؤ،دریا کے اندر سے اس شخص نے جواب دیا کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں لیکن کمبل بھی تو مجھے چھوڑے ،میں باہرآؤں۔

کچھ یہی حال افغانوں نے ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے اب یہ ہمارے لئے کمبل بن چکے ہیں جن کی وجہ ہماری زندگیاں اور ہمارے بچوں کامستقبل تاریک ہوچکاہے ۔
1979 میں سوویت یونین کی فوجوں کی آمد کے بعد 60لاکھ کے قریب لٹے پٹے افغانیوں نے بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان کا رخ کیا اور پاکستان نے خود وسائل کی کمی کے باوجود فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے افغان بھائیوں کو پناہ دی اور انہیں ہر طرح کا سہارا دیا جبکہ آج بھی پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، پاکستان میں 15لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور 15لاکھ سے زائد غیر قانونی طور پر افغانی رہائش پذیر ہیں ۔

پاکستان میں 40سال سے زائدعرصہ سے مقیم افغان مہاجرین کے قیام کی مدت 30جون 2020 کو ختم ہوگئی تھی،افغان مہاجرین کی تیسری نسل پاکستان میں جوان ہوچکی ہے۔خیبر پختونخواہ میں8 لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں، 3 لاکھ 20 ہزار افغانی مہاجر بلوچستان ، ایک لاکھ 60 ہزار پنجاب جبکہ 63 ہزار سندھ میں مقیم ہیں، اسلام آباد اور آزاد کشمیر میں بھی رہائش پذیر ہیں ۔

ملک بھر میں پناہ گزینوں کے لیے 56 کیمپ ہیں لیکن صرف 4 لاکھ 46 ہزار افغان مہاجرین ان میں مقیم ہیں باقی 62 فیصد مختلف شہروں میں قیام کیئے ہوئے ہیں۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہائش پذیر ساڑھے 8 لاکھ مہاجروں کو افغان سٹیزن کارڈ جاری کیے گئے ، پاکستان نے خود وسائل کی کمی کے باوجود فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے افغان بھائیوں کو پناہ دی اور انہیں ہر طرح کا سہارا دیا اور آج بھی پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔

ان افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی وجہ سے پاکستان کوپورے ملک میں امن وامان کے مسائل سے دوچار ہونا پڑا، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی ،کاروبار اور انفراسٹرکچر تباہ ہوا، معاشی مشکلات میں اضافہ ہوالیکن پاکستان کو اس ہمدردی کا برانتیجہ بھگتنا پڑا، افسوس کہ آج بھلائی کا دور جاتارہا، جس کا بھلاکیا جائے وہی انسان کا سر کاٹتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اگر آپ سرکش کے ساتھ اچھائی کریں گے تو وہ اور زیادہ سرکش اور نافرمان ہوجائے گا۔ افغان مہاجرین کے ساتھ ہمدردی کے نتیجے میں پاکستان کوکلاشنکوف، خودکش بم دھماکے، قتل وغارت گری، منشیات اور غیرقانونی اسمگلنگ ،اغوابرائے تاوان سمیت دیگرتحفے ملے ان افغان مہاجرین کی آمد کے بعد یہاں فرقہ وارانہ تشدد، اجرتی قاتلوں کے گروہوں کی آبیاری ہوئی، دہشت گردی کی لہریں اور منظم جرائم کا ایسا ہولناک کلچر استوار ہوا جس نے پنجاب ،سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا ہ کے سماجی اور انتظامی ڈھانچے کی چولیں ہلا ڈالیں،انہی افغانوں کے روپ دشمن ملکوں کی خفیہ ایجنسیز جن میں خاص طورانڈیاکی را،امریکہ نوازافغان ایجنسی این ڈی ایس ودیگرکے ایجنٹ پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں جویہاں پرہرقسم کی تخریبی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں ،ان میں سے کئی کوہمارے اداروں نے رنگے ہاتھوں پکڑابھی ہے۔

افغان مہاجرین کے یہی گروہ جنہیں اس پاک سرزمین سے کوئی ہمدردی نہیں ہے ، اپنے مقاصد کے حصول کیلئے خیبر پختونخوا ہ اور بلوچستان کی تمام مرکز گریز تحریکوں کی مالی معاونت کے علاوہ قابل لحاظ افرادی قوت بھی فراہم کرتے ہیں اور نام نہاد قوم پرست اپنے ذاتی مفادات کیلئے ان کے آلہ کاربنے ہوئے ہیں اورجعلسازی سے ان افغانوں کو پاکستانی شہریت دلانے کیلئے ان کے شناختی کارڈ اورپاسپورٹ بنواتے ہیں،یہی افغانی دنیامیں پاکستان کے سبزپاسپورٹ کی بے توقیری کاباعث بن چکے ہیں ۔

گزشتہ ماہ24مئی کو50افغان باشندوں کو ڈیرہ غازیخان میں پولیس چیک پوسٹ سخی سرور پرہمارے اداروں کے بروقت نوٹس لینے پر روکا گیاجوپنجاب میں غیرقانونی طور داخل ہورہے تھے باوثوق ذرائع کاکہناہے کہ ڈیرہ غازیخان میں ایک ٹرانسپورٹراور دوسرا گڈزٹرانسپورٹ کاصدر ان افغانوں کومکمل سپورٹ کرتے ہیں ،افغانوں کورہائش کے علاوہ نادراکے افسران سے ملی بھگت کرکے خفیہ طورپرکسی جگہ پروین بھجواتے ہیں جہاں ان افغانوں کے پاکستانی شناختی کارڈ بنائے جاتے ہیں کچھ عرصہ قبل بھی پل ڈاٹ کے قریب افغانوں کے شناختی کارڈ بناتے ہوئے ایک وین کو ہمارے اداروں پکڑاتھا ،گذشتہ ماہ 50پکڑے گئے افغانی باشندوں کے بھی ڈیل کے ذریعے کسی جگہ پر پاکستانی شناختی کارڈبنائے جانے تھے ۔

جس بس میں افغان باشندے سوارتھے وہ اسی مشہور ٹرانسپورٹرکی کمپنی کی بس تھی جنہیں واپس کوئٹہ افغان کیمپوں میں بھیجاگیا،ہمارے ملک کے اداروں کوچاہئے کہ ان ملک دشمن عناصر کیساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹاجائے۔
پاکستان نے چار دہائیوں تک ان افغان مہاجرین کی تین نسلوں کا بوجھ اٹھا لیا اور دکھ کی بات یہ کہ ان افغانیوں کو اپنا نہ بنا سکا ۔ان ہی میں سے ہزاروں منظور پشتین کے ہمنوا بن کرلر اور برایک افغان کا نعرہ لگا کر کھلم کھلا پاکستان دشمنی کرتے ہیں پھر ان کو کیسے مہمان بنا کر رکھا جائے، کٹھ پتلی افغان حکومت نے جو سلسلہ چلایا اور اپنے آقا بھارت کی محبت کے جو بیج افغانیوں کے دل میں بوئے ،بات یہاں تک بھی نہیں رکی بلکہ ساتھ ساتھ وہی افغان جو خود کو بہت اچھا مسلمان کہتے ہیں ایک برادر اسلامی ملک کے خلاف غیر مسلموں کے ساتھ مل کر صف بستہ ہو گئے اور اگر یہ افغان مہاجرین کم از کم اس احسان کے بدلے میں ہی پاکستان کے ساتھ کسی وفاداری کا ثبوت دیتے تو شاید خود کو انصار ِ مدینہ کے جانشین سمجھنے والے پاکستانی مزید بھی اس بوجھ کو اٹھانے کو تیار ہوتے اس کے برعکس افغانیوں نے جان بوجھ کر خود یا اپنی حکومتوں کی ایما پر پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندیوں میں شامل رہے ہیں۔

وقت نے ثابت کردیا ہے کہ ان افغان مہاجرین کی تعداد پاکستان کے امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے لہذا پاکستان اپنی کمزور معیشت کے ساتھ انکا مزید بوجھ اٹھانے کا پابند نہیں ہے ،پاکستان اپنی عوام کے ساتھ ساتھ ان افغانوں کی ضروریات کا بھی بندوبست کرے اور بدلے میں وہ پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر اس کیخلاف بولیں اور سازش کریں اور دشمن کے ہمنوا بن جائیں۔

پاکستان نے بہت مہمان نوازی کرلی اورجوتمغے افغانوں سے ملنے تھے اپنے سینے پر سجالئے،مہمان صرف چند دن کے لئے ہوتے ہیں لیکن یہ توہمیں 40سال سے زائدعرصے سے دریا والے کمبل کی طرح چمٹ چکے ہیں ،اب اس کمبل سے پاکستانیوں کی جان چھڑانے کاوقت ہے اوراپنے وسائل اپنی عوام پرخرچ کیجئے ،افغان مہاجرین ہماری ذمہ داری نہیں ہیں انہیں واپس اپنے ملک افغانستان بھیجئے ، موجودہ صورتحال میں نفرت اور بدامنی پیدا ہونے کے خطرات اب مزیدبڑھ چکے ہیں کیونکہ امریکہ بہادرافغانستان چھوڑکرجارہاہے اورپاکستان نے امریکہ کوفوجی اڈے دینے کادوٹوک اور واضح الفاظ میں انکارکردیاہے اورامریکہ بہادراس انکارکوآسانی سے برداشت نہیں کرسکے گا، ان حالات میں امریکہ بہادراپنے ایجنٹوں کے ذریعے انہی افغان مہاجرین کو استعمال کرکے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کوناکام بنانے اورپاکستان کے حالات خراب کرنے کی بھرپورکوشش کرے گا، اس سے پہلے کہ حالات خراب ہوں اورپانی سرکے اوپرسے گذرجائے، خدارااپنی عوام اورمملکت خدادادپاکستان کی بقاء وسلامتی کوملحوظ خاطررکھتے ہوئے ان بن بلائے اورکمبل کی طرح چمٹے ہوئے مہمانوں سے پاکستان کی جان چھڑائے ، مہمان نوازی بہت ہوچکی ہے اوراب ایسانہ ہوکہ مزیدمہمان نوازی گلے کی ہڈی بن جائے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :