انڈین ہولو کاسٹ

جمعرات 11 نومبر 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

1933 ء میں جب جرمنی میں نازی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے کم و بیش 60 لاکھ یہودیوں کے نہایت ہی منظم، ریاستی ایما پر مبنی اور سرکاری سرپرستی میں ہونے والے ظلم و ستم اور قتلِ عام کیاگیاتویہودیوں کی ہونے والی اس نسل کشی کے واقعہ کوہولوکاسٹ کہتے ہیں۔ نازی اِس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جرمن نسلی طور پر سب سے اعلی و ارفع قوم ہے جبکہ یہودی سب سے گھٹیا ہیں جس جرمن نازی ہٹلرنے یہودیوں کوچن چن کرمارا۔

1933 ء میں یہودیوں پرجرمنوں کی ظلم زیادتیاں تودنیاکو دکھائی دیتی ہیں لیکن انڈیامیں مسلمانوں پرڈھائے جانے والے مظالم اورقتل عام نظرنہیں آتاکیونکہ دنیامیں مسلمانوں کوانسان ہی تسلیم نہیں کیاجاتا،مغرب جواپنے آپ کومہذب دنیاکہلاتی ہے انہوں نے انڈیاکی مسلمانوں کے خلاف بربریت پرچشم پوشی اختیارکی ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

1947 ء کے جموں میں ہونے والے قتل عام کے کوئی سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن برطانوی پریس کی رپورٹس کیمطابق۔

16 جنوری 1948میں ہووریس الیگزینڈر کے ایک مضمون کاحوالہ موجود ہے جس میں اس نے جموں میں ہلاک ہونے والوں مسلمانوں کی تعداد200000بتائی،دی ٹائمز لندن میں شائع ہونے والی 10 اگست 1948 ء کی ایک رپورٹ میں لکھاگیاکہ 3'72'000 مسلمانوں کومنصوبہ بندی سے قتل کردیاگیا۔ تقسیم ہندکے فوراََ بعدہندوتوا کاپرچارکرنے والے آرایس ایس کے دہشت گردوں نے جموں میں لاکھوں کشمیری مسلمانوں کا منظم قتل عام کیا ،جس کے تحریری و زندہ ثبوت ہونے کے باوجود اس واقعے اور ظلم کی بھیانک تصویر سے دنیا جان بوجھ کرلاعلم ہے کیونکہ انڈیاایک بہت بڑی منڈی ہے دنیاکواپنی تجارت اورصرف اپنے مفادات ہی عزیزدکھائی دیتے ہیں اس لئے انڈین گورنمنٹ کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی انہیں دکھائی نہیں دیتی ،مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم جاری ہیں اورگذشتہ چندسالوں میں اندازوں کے مطابق 70 ہزار سے زائد بے گناہ کشمیریوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

بھارتی فوج کی جارحیت کا ایک خوفناک پہلو یہ ہے بھارتی فورسز اپنی کارروائیوں کے دوران کشمیریوں کو شہید کرنے کے بعد اکثراوقات ان کی نعشیں ورثا کے سپرد کرنا بھی گوارا نہیں کرتے اور انہیں تجہیز و تکفین کے بغیر دفنا دیا جاتا ہے۔ جموں کشمیر کے شمال میں اجتماعی قبریں برآمد ہوئی ہیں جہاں کم از کم 2 ہزار 900 افراد کو دفن کیا گیا ہے۔دی ہندو اخبار کی رپورٹ کے مطابق ، انٹر نیشنل ہیومن راٹس کورٹ اور کشمیرمیں عدالتِ انصاف (آئی پی ٹی کے)نامی این جی او کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ میں کشمیر کے شمال میں بانڈی پورہ ، بارہ مولہ اور کپواڑہ گاؤں میں55 دیہات میں کی جانے والی کھدائی کے دوران 2 ہزار 700 قبریں دریافت ہوئی ہیں اور ان قبروں میں کم از کم 2 ہزار 900 افراد کی نعشوں تک رسائی حاصل کرنے سے آگاہ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں اب تک 8000 افراد لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اسی طرح کشمیر کے مختلف علاقوں، پونچھ، راجوڑی، بارہ مولا، باندی پورہ اور کپواڑہ سے دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کا معاملہ بھی جوں کا توں ہے۔ کشمیر کے انسانی حقوق کمیشن نے ڈی این اے ٹیسٹوں، کاربن ڈیٹنگ اور دیگر جدید طریقوں کی مدد سے مدفون افراد کی شناخت طے کرنے کا مطالبہ کیا ہے مگر اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق اب تک 7000 سے زائد بے شناخت اور اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں انڈیاکے زیرقبضہ کشمیر میں قتل، تشدد، جبری اغوا، تذلیل، ہراس، جنسی بدسلوکی، زنابالجبر، غیر قانونی گرفتاریاں، مظاہرے، ماتم، ناکے، چھاپے، پولیس مقابلے اور جلا ؤگھیراؤمعمول بن چکا ہے۔ اس دوران آزادی کا مطالبہ کرنے والے کارکن اور انہیں کچلنے کے لیے موجود 10لاکھ سے زائدانڈین فورسزکے روپ میں آرایس ایس کے دہشت گردموجود ہیں جن کی وجہ سے جنوبی ایشیا دنیا کا خطرناک ترین خطہ بن چکاہے۔


انگریزوں نے 1947 ء میں باضابطہ طور پر ہندوستان چھوڑ دیا، لیکن اس نے مختلف ریاستوں کے بادشاہوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہو جائیں یا آزاد رہیں توریاست حیدرآباد کے نظام دکن میر عثمان علی خان آزاد رہنا چاہتے تھے لیکن انڈیا کووسائل سے مالامال ریاست حیدرآبادایک آزاد ملک کی صورت میں برداشت نہ ہوئی تو آزادی ہند کے محض ایک سال ہی میں یعنی 1948 ء میں ریاست حیدرآبادکو انڈین یونین میں ضم کرنے کیلئے ریاست پرچڑھائی کردی اوراسے آپریشن پولوکانام دیا، آپریشن پولو کے نتیجہ میں لاکھوں مسلمانوں کاقتل عام کیاگیا۔

انڈیامیں اقلیتوں خاص طورمسلمان ہندوانتہاپسندوں کے نشانے پر ہیں احمد آباد فساد، تلشیری فساد اور جمشید پور فرقہ وارانہ فسادات بھیRSS کے شیطانی ذہن کی اختراع قرار دیے جاتے ہیں۔ دسمبر 1992 ء میں جب بابری مسجد کا انہدام ہوا تو اس کی پشت پربھی یہی تنظیم موجود تھی اورمسلمانوں کوتلواروں ،نیزوں اورچاقوں سے چھلنی کرکے مارڈالا یا پھرانہیں زندہ جلاڈالا،جب موجودہ وزیراعظم نریندر مودی وزیراعلی گجرات تھے تواس انسانیت کے دشمن شخص نے 2002 ء میں مسلمانوں کی بدترین نسل کشی اپنی سرپرستی میں کرائی تھی۔

اس وقت لاتعداد مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام کیا گیا تھا،مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا تھا،مسلمان خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی تھی اور عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی محافظ پولیس سمیت دیگر متعلقہ اداروں نے محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا تھا۔آر ایس ایس کے ایک پرچارک سوامی اسیمانند نے اعتراف کیاہے کہ وہ2007 ء کے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں جس میں 68 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے بھارتی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل پرساد شیری کانت پروہت کے ساتھ شریکِ جرم تھا،پروہت مہاراشٹرا اینٹی ٹیررازم سکواڈ کی نظر میں دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔

29 ستمبر 2008 ء کوریاست گجرات اور مہاراشٹر امیں ہونیوالے تین بم دھماکوں میں بھی پروہت ذمہ دار ٹھہرا۔ 2007 ء کے درگاہ اجمیر شریف دھماکے میں بھی ملوث تھا جس کا حکم آر ایس ایس کے جنرل سیکرٹری موہن بھگوات نے دیا۔انڈیامیں مسلمانوں کیخلاف کبھی محبت جہاد(love jehad)،، کرونا جہاد اور سول سروسز جہاد ، ریڑھی جہاداوراب لینڈ جہادکے نام پرمسلمانوں پرظلم کے پہاڑتوڑے جارہے ہیں،اب بھارت میں مسلمانوں کاقتل عام پولیس کے ذریعے کرایاجارہا ہے ،سوشل میڈیاپرایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں واضح طورپردیکھائی دیاکہ بھارتی ریاست آسام میں احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر پولیس نے سیدھی فائرنگ کی اور مسلمانوں کوقتل کرنے کے بعدان کی لاشوں کی بے حرمتی بھی کی جاتی رہی، براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں کے800گھروں کو غیر قانونی کہہ کر گرا دیا گیا تھا،جس کے خلاف وہاں کے رہائشی احتجاج کررہے تھے۔


انڈین ریاست تریپورہ میں انتہا پسند ہندوتوا سے منسلک بلوائیوں کی جانب سے مسلمانوں کی املاک اور مساجد کی توڑ پھوڑاوربے حرمتی کی گئی ہے،انڈیامیں ہندو انتہا پسندوں نے نمازِ جمعہ کے دوران جے شری رام کے نعرے لگا دیے۔ پولیس نے نماز میں خلل ڈالنے والے متعدد افراد کو گرفتار کیالیکن بعدمیں انہیں چھوڑدیاگیا،ٹائمز آف انڈیا کے مطابق واقعہ بھارتی دارالحکومت نئی دلی کے نواحی شہر گروگرام میں پیش آیا ہے جہاں ہندو انتہا پسندوں کا ایک گروہ نمازِ جمعہ کے دوران ایک مسجد کے اطراف میں بلند آواز میں جے شری رام کے نعرے لگاتا رہا جس کے نتیجے میں نماز کی ادائیگی میں خلل پڑا۔

اس سے قبل26 اکتوبر 2021 ء کو ہندؤوں نے گروگرام کے ڈپٹی کمشنر کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے علاقوں میں نمازِ جمعہ کے اجتماعات کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔انڈین ریاست تریپورہ کی بنگلہ دیش کے ساتھ 850 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جہاں اس ماہ ہندو مندر میں توڑ پھوڑ کے دوران سات افراد مارے گئے تھے۔بنگلہ دیش کے اس مندر میں ہندو تہوار کی تقریبات کے دوران ایک ہندو دیوتا کے قریب مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک رکھے جانے کی فوٹیج سامنے آنے کے بعد بنگلہ دیش میں فسادات پھوٹ پڑے تھے، جن کی آگ 12 اضلاع تک پھیل گئی۔

اے ایف پی کے مطاق بنگلہ دیش میں ہونے والے ان فسادات کا انتقام لینے کے لیے بھارت کے ہندو انتہا پسند گروپ وشو ہندو پریشد کے سینکڑوں کارکنوں نے ریاست میں مسلمانوں کی املاک اور مساجد پر دھاوا بول دیا۔ اب تک کم از کم چار مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں کو بھی نذر آتش کر دیا گیا ہے۔تریپورہ میں ہندو قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔

انڈیا کی اقلیتی مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 2014 ء میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انہیں حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہندوتوا کی علم بردار بی جے پی اور آر ایس ایس کے اتحاد کا 2002 ء میں گجرات سے لے کر 2020 ء میں نئی دہلی تک مسلمانوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کا ٹریک ریکارڈ موجود ہے۔ آج کے انڈیامیں اقلیتوں اور ان کی زندگی گزارنے کے انداز کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے۔

انڈیا کی ریاستی مشینری مبینہ طور پر نہ صرف مسلمانوں اور ان کی املاک کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ انہوں نے مقامی مسلم تنظیموں کی جانب سے مدد کی اپیلوں کا بھی جواب نہیں دیا۔انڈیامیں بیس کروڑ سے زائدمسلمان بستے ہیں لیکن اس ملک میں اِن بیس کروڑ مسلمانوں کی حیثیت بس اتنی ہے کہ جس کا دل چاہا جہاں چاہا انہیں نشانہ بنا لیا جرم کو ئی ہو نہ ہووہ مجرم بن جاتے ہیں اور انہیں نشانہ بنانے والے انتہاپسند ہندؤوں کے ہیروہیں۔

انڈین ہندو انتہا پسند حکومت اور ہندو شدت پسند جماعتوں کے شر سے یوں تو سکھوں اور مسیحیوں سمیت کوئی اقلیت محفوظ نہیں، لیکن ان انتہاپسندوں کا پہلا ہدف مسلمان اقلیت ہے۔ صاف لگتا ہے کہ انتہاپسند انڈیا کوجرمن نازیوں کی طرح مسلمانوں سے پاک کرنے اورانڈیاکی سرزمین سے اسلامی تاریخ کی ہر یادگار مٹا دینے کوتیارنظرآرہی ہے۔انڈیامیں مسلم اقلیت دنیاکے منصفوں کوچیخ چیخ کراپنے اوپرہونے مظالم کی داستانیں سنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن عالمی برادری ہی نہیں بلکہ او آئی سی اورمسلم ممالک نے مسلمانوں قتل عام پرمجرمانہ خاموشی اختیارکررکھی ہے جومسلم امہ کیلئے لمحہ ء فکریہ ہے،انڈیا میں ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں پرڈھائے جانے والے مظالم اوران کاقتل درحقیقت یہ ایک دھیمی رفتار سے کیا جانے والا انڈین ہولوکاسٹ ہے ،جس پرمہذب دنیااور اقوام متحدہ کونوٹس لیکر انڈین حکومت کے جرائم پراسے عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لاناچاہئے تاکہ انڈیا میں اقلیتیں خاص طورپر مسلمان آزادی سے بلاخوف وخطراپنی زندگیاں گذارسکیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :