مجھ کو پانی پلا دیجئے

پیر 8 اپریل 2019

Engr.Iftikhar Chaudhry

انجینئر افتخار چودھری

ترستی تڑپتی پیاسی اس قوم کا سوال ہے مجھ کو پانی پلا دیجئے انصاف کا پانی اخلاص کا پانی اس قوم کی کشتی کو بھنور سے نکال دیجئے کسی زمانے میں محمد علی کیا یکا فلم آئی تھی جس میں وہ جج صاحب سے اپنی کھوئی ہوئی جیل میں بسر زندگی کے چند سال مانگ رہے تھے۔اک سمندر نے آواز دی مجھ کو پانی پلا دیجئے
عوام کا یہ سمندر عدالتوں سے یہی کچھ مانگ رہا ہے
جناب ہم پے کون ہاتھ ڈال سکتا ہے ہم تو اس دنیا میں الگ سے ہیں اور یہ پاکستانی ادارے انہیں ہم کیا سمجھتے ہیں۔

مارو انہیں اور منہ توڑ کے رکھ دو۔سچ پوچھو دو نہیں ایک پاکستان ابھی نہیں بنا عمران خان کی حکومت بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی البتہ جس کے پاس کچھ شرم ہو تھوڑی سی حیا اور چھٹانک بھر غیرت تو اس کے لئے تو موت ہے جب بیٹی باپ داماد بھائی داماد سب ہی جیل کی چیزیں ہوں۔

(جاری ہے)

دو بیٹے ہوں اور وہ بھی کہیں ہمارا اس ملک سے کیا تعلق ہے جہاں پیدا ہوئے جہاں پلے بڑھے ہم تو انگریز کے دیس کے ہیں البتہ وہاں کوئی پوچھے تو کہتے ہیں جناب ہم تو پاکستانی ہیں۔

حمزہ بٹ کو حکومت نے ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی اس کے ایک با اختیار ادارے نیب نے انہیں پکڑنے کی کوشش کی تو ان کے ذاتی محافظوں نے اس جثہ عظیم کی طرف بڑھنے والوں کو روک دیا۔ویسا اللہ کے کام جناب حمزہ کے تایا ابو نے بلال کے ابا جان سے مل کر ایک قانون بنایا جسے کہتے ہیں شکنجہ اتبداد یعنی جسے چاہیں ماہ تک تحقیق کے لئے پکڑ سکتے ہیں ۔گڑھا کھودا تھا مخالفین کے لئے اور گر گئے منہ پرنے خود۔

ان دو پارٹیوں نے سوچ رکھا تھا کہ ہم ہوں گے یا پیپلز پارٹی مگر ہوا یہ کہ دونوں کو ایک تیسرے نے قابو کر لیا۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عمران خان ان سے اقتتدار چھین سکتا ہے جسے ایک پرانی شیروانی کے ٹوٹے ہوئے بٹن نہ ملنے کا کہا گیا تھا اور کہتے تھے آئیں آپ کی ایک تصویر شیروانی میں کھنچوا دیتے ہیں۔کیا کیا نہ کہا گیا اور وہ بھی کمال کا آدمی تھا اس نے کہا نہیں پہنتا میں شیروانی مانگ کے واسکٹ فوٹو کھنچوائی اور بن گیا وزیر اعظم۔


قارئین دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ وہ جو خواب عمران نے دکھائے تھے انہیں پورے ہونے میں کون حرکت میں ہے؟کیا عمران خان نے نیب کو کہا ہے کہ انہیں پکڑو۔اس آزاد ادارے کے دائرہ کار سے تو پی ٹی آئی کو بھی اعتراض ہے۔لیکن عمران خان نے تو علیم خان کے معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کی۔علیم خان تو سج دھج کے نیب کے مقتل میں گیا ہے اس کے لئے سینئر وزارت منتظر ہے اگر نیب اسے کلیئر کرتی ہے۔

لیکن حمزہ شہباز شریف جیسے لاڈلے جو کچھ کیا نیا نہیں۔اس پارٹی کو عدالتوں سے پھل ہی ملا کل چار اپریل تھی پاکستان کے ایک زیرک وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی تیس سال پہلے گردن لمبی کر دی گئی تھی۔بھٹو کے چاہنے والے اس قتل کو تو کبھی نہیں بھولیں گے اسی لئے کہتے ہیں بھٹو زندہ ہے کاش وقت کا پہیہ رکتا اور اسے بھی دیس نکالا دے دیا جاتا وہ بھی کسی سرور پیلیس میں رہ کر اپنی کہہ مکرنیوں کو جاری رکھتا اور ایک دن اقتتدار کے سنگھاسن پر آ بیٹھتا۔

انصاف کے دروازے کھلے تو سب پاکستانیوں کے لئے ہیں مگر ان بائیس کروڑ میں سے نو کروڑیوں کو خیرات ملی باقی بیچارے وقت اور اور اس اندھے قانون کا شکار ہو گئے۔
حد مک گئی نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی جسٹس نسیم حسن شاہ جدہ آئے نون لیگیوں کے اجتماع سے خطاب کیا قد چھوٹا تھا ارشد خان نے ٹول پر کھڑا کیا سپریم کورٹ کا حاضر جج اس سٹول پر کھڑا ہو کر کہتا ہے فکر نہ کریں میں حکومتی بحالی کا ایسا فیصلہ دوں گا جس سے آپ خوش ہو جائیں گے۔

اور ہوا بھی وہی جو جدہ کے لاہور ہوٹل کی بالائی منزل پر لاہوری جج جناب نسیم حسن شاہ نے فیصلہ دیا۔عدالتوں پر تنقید نہیں کی جا سکتی لیکن ان کے فیصلوں پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے ۔اور پھر یوں ہوا کہ ایک فیصلہ اسے انوکھے لاڈلے کے خلاف ایک سندھی جج دینے جا رہا تھا کہ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور عدالت پر حملہ کر دیا گیا۔کہتے ہیں ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں نہیں میاں صاحبان عدالتیں اللہ کے فضل و کرم سے آپ کا احترام کرتی ہی اور جو احترام کرتے ہیں انہیں صدر پاکستان بھی آپ بنا دیتے ہیں۔

جسٹس قیوم ملک آپ سے پوچھ کے فیصلہ دیتے ہیں سزائیں سنائی جاتی ہیں۔اور جب کوئی جج آپ کے خلاف فیصلہ دے دیں تو پھر آپ مجھے کیوں نکالا کی کیسٹ لگا دیتے ہیں۔
ایک نون لیگ ہی نہیں جو پاکستان کے قوانین کی داڑھی نوچتی ہے پیپلز پارٹی بھی اس حمام میں ستر پوش نہیں اس کا بھی جی چاہتا ہے تو کالا کوٹ پہنوا کر معروف لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کا کہتی ہے اور وہ پولیس کے کھنے کھول دیتا ہے۔


حمزہ بٹ نے گرفتاری نہ دے کر جس گردی کا مظارہ کیا ہے وہ ہم آئے روز دیکھ رہے ہیں۔نیب کیا صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو خوف سے خود کشیاں کر لیتے ہیں۔انہیں ہتھکڑیاں لا کر نیب اسی طرح عدالت میں پیش کرے جس طرح شاہد مسعود کو لایا گیا تھا جس طرح پروفیسر کامران کو پیش کیا گیا تھا۔قانون اگر سب کے لئے ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے بٹ صاحب کو کیوں چھوڑا گیا؟اگر وہ گرفتاری نہیں دیتے تو پولیس کیوں منہ دیکھتی رہ گئی؟کیا پنجاب پولیس میں بیٹھے نون لیگیوں کے وفادار ان کا حق نمک ادا کر رہے ہیں جس طرح سندھ میں ہوتا ہے۔


میرے سندھی دوست گھر آئے ہوئے تھے ان کا کہنا تھا سندھ میں بے نظیر دور میں سینکڑوں آفیسر بھرتی ہوئے جو آج اپنی سرکار کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں ۔عمران خان سچ کہتا تھا سیاسی پولیس ان کے اپنے گروؤں کی شاگرد پولیس ہے۔جازی خان سچ کہتا ہے پولیس ہمارے لوگوں کی نہیں سنتی بزدار جو وسیم اکرم ہے اسے عدالتوں سے پھر توصیف احمد کیوں بنایا جاتا ہے؟کیا ۳۶ پولیس افسر جو راشی تھے ان کی معطلی نہیں ہوئی وہ معطل ہوئے دوسرے روز لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دے کر واپس دفتروں میں بھیج دیا کہ جاؤ تمہارا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔


نبی پاکﷺ کا فرمان ہے کہ تم میں سے پہلی قومیں اس لے برباد کر دی گئیں کہ انہوں نے امیروں کے ایک قانون اور غریبوں کے لئے دوسرا بنا رکھا تھا۔
اس ملک میں آرام سے جیل میں رہنا ہے ہسپتال اور گھر کو قید خانہ قرار دلوانا ہے تو کوئی چوری کوئی فراڈ اربوں سے کم نہیں ہونا چاہئے۔چھوٹے موٹے چوروں کی تو لترول ہوتی ہے۔چھترول ہوتی ہے۔
عمران خان کی فلک شگاف تقریریں اس کے نعرے خاک میں ملانے کی بھونڈی اور گھناؤنی سازش جاری ہے۔


میڈیا کو انڈیا پاک وار سے جیسے ہی فرست ملی اس نے بیماری نواز کا رونا شروع کر دیا۔موصوف کو تناؤ ہے ٹینشن ہے اسے گھر جانا ہے اس کا علاج پہلے لندن میں کئے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا جب لوگوں نے احتجاج کیا اور کہا کہ آپ لوگ کیا مخلوق ہو کہ اپنے برسوں کے اقتتدار کے دوران ایک چج کا ہسپتال نہیں بنا سکے تو انہیں شریف ہسپتال لے جایا گیا اب کہا جا رہا ہے کہ چھ ہفتے بعد ڈاکٹر رپورٹ دیں گے کہ ان کی ذہنی کیفیت کیسی ہے تو ضمانت کو آگے بڑھانے کی بات کی جائے گی۔

یعنی شریف ہسپتال میاں شریف کے بیٹے نواز شریف کو ایک لیٹر دے گا کہ آپ کی ٹینشن قائم و دائم ہے اور پھر وہ عدالت کے پاس جائیں گے کہ عزت ماب جج صاحب ہمارا موئکل جو ذہنی طور پر ہیجان کا شکار تھا ابھی تک اسی کیفیت میں ہے لہذہ اسے مزید وقت دیا جائے۔
جج صاحبان سے گزارش ہے خدا را اس پوی قوم کو ذہنی دباؤ سے نکالئے ہمیں اس ٹینشن سے باہر کیجئے نہیں چاہئے ہمیں یہ لوگ جیلوں میں انہیں بری کر دیں اور انہیں کہیں جائیں آپ آزاد ہیں جائیں جا کر اس ملک کے ان لوگوں پر حکمرانی کریں جن کی پشت پر کاٹھی موجود ہے اور جسے آپ جیسا سوار چاہئے۔


عدالتیں مزید رحم کریں اور اس فیصلے میں لکھ دیں کہ آئیندہ خبردار لوگ ان لوگوں کو اقتتدار سے نکالنے کے لئے دھرنے دیں دھرنوں پر پابندی عائد کریں احتجاج بند اور خبر دار کوئی ان گنگا دھلے لوگوں کے بارے میں کچھ کہے۔
قارئین جو خواب دیکھے گئے ان کی تعبیر کہاں ہے یہ کس نے دینی ہے تعبیر اور کون رنگریز اس کو سہانے رنگ دے گا۔
میں دو گھنٹے پہلے شیر بہادر کے بیٹے عمر شیر کی شادی میں شرکت کے بعد پہنچا ہوں ایبٹ آباد میں تین روزہ قیام کے بعد لوگوں کا سوال یہی تھا کہ کیا تحریک انصاف اس بحران سے نکل پائے گی۔

سچی بات ہے اپنے اور غیروں سب کا سوال یہی تھی نون لیگئے مرجھائے ہو چہروں پر بھی بہار سی آئی ہوئی تھی لیکن سوال سب کا یہی تھا کہ پی ٹی آئی موجودہ بحران سے نکل نہیں پائے گی شیر بہادر کچھ اس ادا سے پی ٹی آئی سے بچھڑا ہے کہ وہ اب سیخ پاء بھی ہوتا ہے اس کے دکھ کو میں سمجھتا ہوں وہ لوگ جو ق لیگ کے چہیتے تھے وہ آئے اور دو بار منتحب ضلعی صدر کو پارٹی سے اٹھا پھینکنے میں کامیاب ہوئے۔

میں شیر بہادر کا پرانا دوست ہوں بہت سوں کی طرح اسے بھی پارٹی میں لایا لیکن جو کچھ اس سے ہوا اور جس قدر اسے دیوار کے ساتھ لگایا گیا مناسب نہ تھا انسان کو جب آپ ہر موڑ پر دکھ دیں گے تو وہ احتجاج تو کرے گا ہی۔اس ولیمے کو میں جلسہ عام کی بجائے خاص کہوں گا یہ آل پارٹیز کانفرنس تھی مسلم لیگی دوستوں میں پرانے دوست سردار مہتاب بھی تھے مرتضی جاوید عباسی اورنگ زیب نلوٹھہ اور بیرسٹر جاوید بھی۔

پی ٹی آئی کے زر گل خان خاکسار کے علاوہ کوئی خاص دوست نظر نہ آئے۔نگاہیں بہت سوں کو ڈھونڈتی رہیں۔ہزارہ کے کلچر کے برعکس دوستوں کی عدم موجودگی اچھی نہیں لگی البتہ ایک ہجوم تھا ایک دنیا تھی بہت سے نوجوان ملے سردار اعظم سے برسوں بعد ملاقات ہوئی۔سردار پرویز سے نشست ہوئے سردار مشتاق کٹھانہ نے ہزارہ کے دکھڑے سنائے۔
وہاں کے ہر فرد نے یہی سوال کیا کیا عمران خان نے جو کچھ کہا اس پر وہ عمل کر پائیں گے۔

بہت سوں کا سوال تھا کہ سولین لوگوں کو اب سوچنا پڑے گا کہ یہ ملک ان کی حکومتوں کے لئے نہیں ہے۔
لوگ کیا کہتے ہیں میں ان تین دنوں میں سچی بات ہے اپنے آپ کی خاطر مدارت میں لگا رہا مجھے شیر بہادر کے نوجوان چچاؤں اس کے دوستوں منصور جواد عباسی سردار فضل الرحمن اور بہت سوں نے سر پر اٹھائے رکھا شیر کے قریبی ہمسائے واحد میر اور ان کے بچوں نے ہمیں میزبانی کے ان معیاروں سے آشناء کرایا کہہ سکتے ہیں گھر سے دور ایک بہتر گھر دیا اللہ ان سب کو خوش رکھے۔


کچھ کا یہ خیال تھا کہ عمران خان سے وہی کچھ ہو رہا ہے جو میاں نواز شریف کے ساتھ ہوا۔میں اپنے ان بھائیوں کو صاف جواب دے آیا ہوں عمران خان کو نواز شریف سے نہ تولیں وہ پاکستان کو اس مشکل حالات سے نکال لے گیا اسحق ڈار نے پہلے تین دنوں میں آئی ایم ایف کے پاؤں پکڑے اور آج آٹھ ماہ ہو گئے ہیں اسد عمر آئی ایم ایف کی شرائط نہیں مان رہا۔اور میرا خایال یہ بھی تھا کہ معیشت کے سدھارنے کے لئے جو اقدامات اسد عمر کر رہے ہیں ان کے نتائیج بھی جلد سامنے آئیں گے۔

حفیظ پاشا،مفتاح اسمعیل تو مانتے ہیں عام لوگ بھی مان جائیں گے۔سردار مہتاب کا خیال تھا کہ افتخار صاحب کیسا لگا؟ میں نے جواب دیا میں کون سا نواز شریف کے برے دنوں میں پارٹی کو مفارقت دے گیا میں نے تو ٹانگے کی سواری والی پارٹی جائن کی۔دیکھئے وقت تو مشکل ہے مگر رولا حقیقت سے کم ہے۔منصور کی یہ بات صیح لگی اس نے کہا ڈالر اڑان بھر رہا ہے اسے فکس کر دیجئے دیکھئے کتنا ڈالر باہر آتا ہے جواد عباسی جو جانوروں کی دوائیاں بیچتے ہیں وہ بھی یہی سوچتے ہیں۔

لوگوں نے گھروں میں چھپا رکھے ہیں وہ انویسٹ کرنے کے چکر میں جواء کھیل رہے ہیں۔
قارئین میرا خیال ہے وقت برا ہے سخت ہے لیکن وقت کی خوبصورتی یہ ہے یہ اچھا ہو برا ہو کٹ جاتا ہے۔ایبٹ آباد میں اپنے مرحوم مربی انجینئر عبدالرفیع کے نواسے کی شادی تھی ان کے خاندان کے لوگوں بچیوں بھتیجوں سے مل کر دل خوش ہو گیا۔عبدالرفیع جدہ میں برسوں رہے کمال کے شخص تھے قائد اعظم سے ملنے کا بھی موقع ملا۔

عمر شیر ان کا نواسہ تھا۔عمر شیر کے ذہین ماموں پرواز رفیع کے پاس بیٹھیں تو دل فراز کو یاد کرتا ہے سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔مجھے سچی بات ہے شیر بہادر کے بیٹے کی شادی میں شرکت کی خوشی ہوئی لیکن اس سے زیادہ ایسا لگامیرے بھانجے کی شادی تھی۔اللہ پاک سب ایبٹ آبادینز کو خوش رکھے۔حالت بدلے نہیں چار روز پہلے کالم شروع کیا اب ختم کرتا ہوں۔منصور کا منی بیگم کی گائی ہوئی مشہور غزل کے دو شعر نذر کئے دیتا ہوں ان کا انداز بیاں کیا خوب تھا
لذت غم بڑھا دیجئے
 آپ یوں مسکرا دیجئے
اک سمندر نے آواز دی
 مجھ کو پانی پلا دیجئے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :