پہلے کہتا رہا مجھے کیوں نکالا ؟اب کہتے ہیں مجھے نکالو

جمعرات 21 مارچ 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

پاکستان کے تین مرتبہ منتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف مشکل میں ہیں اور کیوں نہ ہوں ۔انسان جب اپنی اوقات کی حدیں پار کرکے خدا کی زمین پر اکڑ کر چلنے لگتا ہے جب معصوم جانوں کے گلاب وجود سے خون رستا ہے جب معصوم لوگ ظلم وجبر کی چکی میں پستے ہیں تو اُن کی آنکھیں اُوپر کی طرف اُٹھتی ہیں ۔عرشِ الہٰی جب ہلتا ہے تو پھر خدا کی لاٹھی گھومتی ہے اور ظالم اپنے انجام کی طرف بڑھنے لگتا ہے ۔

رب کریم پھر دنیا کو دکھاتا ہے اور دنیا دیکھتی ہے اُسے جو گزشتہ کل اپنے آپ کو اپنے قادرِ مطلق کو بھول گیا تھا۔ 
میں جب قلم اُٹھاتا ہوں تو مجھے میاں محمد نواز شریف کا مجھ پر اور میرے شہید قائد کے جیالوں پر ،جیالیوں پر لاہور میں براہِ راست فائرنگ یاد آتی ہے وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے جب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز شریف نے شہید بی بی بے نظیر بھٹو کیلئے آوازِ حق بلند کرنے والوں پر گولیاں برسائیں ۔

(جاری ہے)

میں میوہسپتال کا وہ منظر کیسے بھول سکتا ہوں جیالوں کے وجود گولیوں سے پھٹ چکے تھے لیکن آواز بلند ہورہی تھی جئے بھٹو ،،جئے بے نظیر ۔
میں میاں صاحب کے ظلم کو کیسے بھول سکتا ہوں لیکن مجھے افسوس ہے کہ آج پیپلز پارٹی کی قیادت میاں محمد نواز شریف سے محبت میں پیپلز پارٹی کے جیالوں اور قیادت پر ہونے والے جبر اور بربریت کو بھول چکی ہے ۔

پیپلز پارٹی کے نظریاتی جیالوں کو اُمید تھی کہ شہید بی بی کا بیٹا بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کی قیادت میں قومی مذہبی اور حب الوطنی کے رنگ بھر دے گا لیکن بلاول بھٹو وا لد اور پھوپھی جان سے محبت میں شہید قیادت کے نظریات کو بھول گیا ہے لیکن ہم کیسے بھول سکتے ہیں ۔ہم تو پاکستان اور پاکستان کی عوام سے محبت کرنے والے شہید قیادت کے سپاہی ہیں ۔

پیپلز پارٹی کی شہید قیادت کے نظریات کے امین وہ وقت کیسے بھول سکتے ہیں جب روزنامہ پاکستان کے مالک اور چیف ایڈیٹر حاجی اکبر نے میاں محمد نواز شریف کی انتخابی مہم کے دوران ایک تنقیدی مضمون لکھا تھا اس لیے کہ میاں صاحب بے نظیر بھٹو کے خلاف انتخابی مہم میں اخلاقی حدوں سے گزر چکے تھے میاں صاحب کو حاجی اکبر کا مضمون پسند نہیں آیا اور اُس نے ہیلی کاپٹر سے شہید بے نظیر بھٹو کی جعلی فحش تصاویر گرائیں اور جب 1992ء میں برسرِ اقتدار آئے تو روزنامہ پاکستان اخبار بمعہ پریس ضبط کر لیا اور حاجی اکبر کو جیل میں ڈال دیا ۔

میاں صاحب آج اپنے علاج کا ڈرامہ کر رہے ہیں حاجی اکبر کو جیل میں علاج کی سہولت نہیں دی او رحاجی اکبر اُسی بیماری کے دوران انتقال کر گئے ۔حقیقت میں یہ قتل عمدتھا آج حاجی اکبر کی اس وقت کی خوشحال فیملی غربت کی آخری حدود کو چھورہی ہے ۔میاں صاحب یاد تو ہوگا جب آپ نے صرف5لاکھ روپے میں روزنامہ پاکستان کا ڈکلیئریشن بمع پریس آفس بلڈنگ اور تمام اثاثہ جات مجیب الرحمان شامی کو دئیے اگر آج مجیب الرحمان شامی آپ کے گیت گارہے ہیں تو اس لیے کہ وہ منافق نہیں وہ آپ کے احسان کو کیسے بھول سکتے ہیں جب لبرٹی چوک کے پیٹرول پمپ سے بھی وہ خاطر خواہ آمدنی کھارہا ہے ۔

میاں صاحب!جیل کی تنہائی میں کچھ دیر کیلئے اپنے گریبان میں دیکھ کر 2013ء میں سوچئے جب آپ نے وزیر اعظم بنتے ہی پرائم منسٹر قرضہ سکیم کا اعلان کرکے اس کی سربراہ اپنی بیٹی مریم نواز کو بنایا ایک درخواست کیساتھ ایک سو روپے کی فیس کیلئے نیشنل بینک میں مریم نواز کا کرنٹ اکاؤنٹ کھولا ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ ستر لاکھ درخواستوں کیساتھ ایک سوستر کروڑ روپے جمع ہوئے تو مریم نواز نے استعفیٰ دے دیا اور آپ نے اس کا استعفٰی پہلی فرصت میں منظور کر لیا اس لئے کی اس کی ضرورت پوری ہو چکی تھی، اُس سکیم سے کسی کو کوئی قرضہ نہیں ملا لیکن آپ کی بیٹی کی ضرورت پوری ہو گئی یہ کرپشن کی ابتداء تھی پیپلز پارٹی کے میٹر ریڈرسابق اپوزیشن لیڈ رخورشید شاہ ضرورت سے کچھ زیادہ آپ سے پیار کرنے لگے ہیں اس لیے کہ اُن کو نہ صرف اپنا بلکہ اپنے قائد آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی بھی فکر ہے ، وہ اپنی شہید قیادت کو بھول چکے ہیں ۔

لیکن میاں صاحب !کسی غلط فہمی میں نہ رہیں ۔پیپلزپارٹی کی زندہ قیادت بھی آپ کی طرح اپنے آنے والے کل سے خوفزدہ ہے ۔اور بقول اعتزاز احسن صا حب یہ دوستی بھی زیادہ دیر نہیں چلے گی !!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :