آل پارٹیز کانفرنس ۔ مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو آ منے سامنے

پیر 1 جولائی 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

مولانا فضل الرحمان نے آل پارٹیز کانفرنس میں کہا کہ ہم مڈٹرم الیکشن کی طرف جائیں گے، اگرمارشل لاء لگ گیا تو اس کا مقابلہ کریں گے۔بلاول بھٹو نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے جواب میں کہا میں نانا، دو ماموں اور والدہ کوگنوا چکا ہوں، قوم کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے، پارلیمنٹ کسی صورت ڈی ریل نہیں ہونے دوں گا۔مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان یہ تکرار کم و بیش 45 منٹ تک جاری رہی۔

عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رہنما نے مداخلت کر کے بیچ بچاؤ کرایا، اے این پی کے رہنما نے کہا ہم مشترکہ گراو نڈز پر بات کرتے ہیں، اور اگر یہ معاملہ یہیں ختم ہو گیا تو لوگ اپوزیشن کی ناکامی پر شادیانے بجائیں گے۔
 مولانا فضل الرحمان نے تجویز دی کہ عمران خان نے چونکہ صحابہ کی توہین کی، اس لئے اس کا ذکر بھی اعلامیے میں کیا جائے۔

(جاری ہے)

جس پر بلاول بھٹو نے کہا کہ مذہب کا نواز شریف، عمران خان سمیت کسی کے خلاف بھی استعمال قبول نہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے تکرار کی کہ کیا کسی کے خلاف جمہوریت کا استعمال قبول ہے؟ تو قمر زمان نے لقمہ دیا یہ تو تحریک لبیک والی بات ہو گئی۔مولانا غفور حیدری بھی بیچ میں بول پڑے اور کہا آ پ نے ہمیں تحریک لبیک سے کیسے جوڑا؟حاصل بزنجو نے مداخلت کر کے معاملہ ٹھنڈا کرایا اور تجویز دی کہ احتجاج کیسے اور کب کرنا ہے ایک کمیٹی بنا دی جائے۔ کمیٹی کا فیصلہ حاصل بزنجو کی تجویز پر کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دوران مسلم لیگ ن کے رہنماؤ ں نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔
مولانا فضل الرحمان کو یقین تو آگیا ہوگا کہ وہ جوچاہتے ہیں وہ ہونے والانہیں مسلم لیگ ن کو پی پی کی ضرورت ہے اور پی پی کی اعلیٰ قیادت جمہوریت کیلئے خون دے چکی ہے آل پارٹیز کانفرنس میں عمران خان کی دشمنی میں وہ بولے جو پی پی اور مسلم لیگ ن کی حکمرانی میں اُن کے درباری رہے اپنی ذات میں اُن کی کوئی حیثیت نہیں لیکن حیثیت جتلانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔

بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمان کی تجاویز کی مخالفت کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی کہ مولانا وہ نہیں ہوگا جو آپ چاہتے ہیں بلکہ وہ ہوگا جو پی پی چاہتی ہے ۔آل پارٹیز کانفرنس میں پی پی کی شمولیت کا مقصد یہ واضع کرنا تھا کہ پی پی کے بغیر اپوزیشن اپنے حصول کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتی لیکن پی پی کسی بھی صورت میں اُس راستے کو نہیں اپنائے گی جس سے جمہوریت کو خطرہ ہے ذاتی مفادات کیلئے قومی مفادات کو قربان نہیں کرنے دیں گے ؛
 بلاول زرداری نے اے پی سی کے اجلاس میں حکمران جمات کے خلاف تحریک چلانے کا عندیہ دیا لیکن نہ صرف پی پی بلکہ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کے قائدین کو بھی یہ یقین ہوگیا ہے کہ حکومت وقت کو گرانے کی کوشش ناکام ہوگی اس لیے کہ خدائی مخلوق پہلے دیکھتی تھی اب بول بھی رہی ہے تحریک انصاف کی حکمرانی ایلیکٹڈ ہے یا سلیکٹڈ اس کو برداشت کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں
اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں بجٹ پاس ہونے پر یقینا یہ یقین آگیا ہوگا کہ عمران خان نالائق وزیر اعظم نہیں بلکہ پاکستان کا ذہین وزیر اعظم ہے اس لیے بجٹ کے خلاف اپوزیشن کا یہ دعویٰ کہ بجٹ کسی صورت میں پاس نہیں ہونے دیا جائے گا بجٹ پاس ہوگیا،قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کے شور شرابے پر عمران خان اُن پر ہنستے اور مسکراتے رہے اس لیے کہ چھ ووٹوں پر حکمرانی کرنے والے وزیرا عظم کے خلاف اپوزیشن اخلاقی حدود سے بھی گزر گئے ہیں لیکن فنانس بل کثرت رائے سے منظور ہوگیا
 دوسری طرف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کے دوران برملا کہہ دیا کہ وطن عزیز کی سکیورٹی اور معیشت کے درمیان ناقابل تردید ربط ہے اس لیے کہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں معاشی خودمختاری کے بغیر کسی قسم کی خود مختاری ممکن نہیں اس لیے حکمران جماعت کے اقدامات میں کامیابی کیلئے سب کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان بجٹ اجلاس سے ایک روز قبل اُس وقت سامنے آیا جب اے پی سی نے فنانس بل منظور نہ ہونے دینے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی معیشت کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان کے اظہار خیال کے بعد اپنے بیان میں وزیر اعظم پاکستان کے بیان کی تائید کی جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ مالیاتی بدانتظامیوں کی وجہ سے وطن عزیز میں ہم مشکل معاشی صورتحال سے گزر رہے ہیں ا س کی وجہ کہ ہم سابقہ ادوار میں مشکل فیصلوں سے گھبراتے رہے ۔

افواجِ پاکستان دفاعی بجٹ میں اضافے سے دستبردارہوا لیکن وطن عزیز کو مستحکم بنیادوں پر قائم اور دائم رکھنے کیلئے یہ واحد قدم نہیں جو ہم نے قومی معیشت کی بہتری کیلئے اُٹھایا ہے ۔حکومت نے بڑی مشکل فیصلے کیے ہیں جس میں افواجِ پاکستان اپنا کردار ادا کر رہی ہے ایسے حالات میں کوئی بھی تنہا کامیاب نہیں ہوسکتا ۔پوری قوم کو ایک ہونا پڑتا ہے اور یہی ایک قوم بننے کا وقت ہے ۔


جنرل قمر جاوید باجوہ کے ان کلمات سے اے پی سی میں شریک سیاسی رہنماؤں کے اگرہوش ٹھکانے نہیں لگے تو اُن کی بیوقوفی ہے لیکن پوری قوم جان چکی ہے کہ پاکستان کی عوام اور اپوزیشن کو 5سال تک عمران خان کی حکمرانی کو قبول کرنا ہوگا ۔آئندہ الیکشن میں قوم عمران خان اور سابقہ ادوار کے حکمرانوں کی حکمرانی کو سوچیں گے اور سوچ کر فیصلہ کریں گے اس لیے کہ شعور کے بند دروازے کھل چکے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :