عمران کھلاڑ ی ہی نہیں کھلاڑیوں کا کپتان بھی رہا ہے

پیر 9 مارچ 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

قومی سیاست میں اپوزیشن خاص کر مسلم لیگ ن کے کردار وعمل پر جس قدر بھی افسوس کیا جائے کم ہے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور ان کی پرانی ہمنوا سیاسی اور مذہبی جما عتیں عرصہ دراز تک باری کی حکمرانی میں برسرِ اقتدار رہیں لیکن پاکستا ن اور پاکستان کے عوام کے لئے موجودہ حکمران جماعت سے جس کارکردگی کا تقاضہ کر رہی ہیں وہ سب کچھ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں کیوں نہیں کر سکے تحریکِ انصاف کی حکمرانی پر غیر پارلیمانی غیر اخلاقی اور غیر سیاسی زبان میں جو الزامات لگائے جا رہے ہیں اس پر قوم پریشان اور سوچ رہی ہے کہ کیا ان کے دورِ اقتدار میں دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں جو تحریکِ انصاف کی حکمرانی میں خشک ہو گئی ہیں پاکستان کی عوام ان جماعتوں کو مسترد کر کے انہیں ان کی کا رکردگی کا آ ئینہ دیکھا دیا ہے لیکن ان کے زخموں کے منہ بند نہیں ہورہے ہیں صبح شام اپنا دکھ پیٹ رہے ہوتے ہیں اس لئے کہ مکافاتِ عمل میں زندگی اور شرمندگی کے عذاب سے دوچار ہیں ۔

(جاری ہے)


وزیرِ اعظم عمران خان نے عام انتخابات سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ بر سرِ اقتدار آکر میں قومی خزانے کے چوروں،لٹیروں،اور راہزنوں کو کیفرِکردار تک پہنچا کر رہوں گا اور آج وہ قوم سے کئے ہوئے نبھا رہے ہیں یہ ہی اپوزیشن کا دکھ ہے اپوزیشن کا الزام ہے کہ ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ان کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد الزامات اور ناکردہ جرائیم کے مقدمات درج کئے جارہے ہیں اگر واقعی یہ سچ ہے تو قومی عدالتوں پر ہی اعتماد کر کے اپنے دامن پر لگے داغ دھو لیں اور قوم پر ثابت کر دیں کہ وہ مجرم نہیں مومن ہیں قوم کے حضور سرخ رو ہو کر آئیں اور ووٹ کو عزت دو کے فلک شگاف نعروں میں عوام کا اعتماد حاصل کریں لیکن قوم جانتی ہے چور نے کھبی بھی اعترافِ جرم نہیں کیا اس کا کوا سفید ہی ہوتا ہے اس لئے کہ چور کا نہ تو کوئی ضمیر ہوتا ہے اور نہ گریبان اس کے فکروشعو کے دائروں میں اس کہ ذات اور اقربا پروری ہوتی ہے
 اپوزیشن جماعتوں کے ملا مولانا فضل الرحمان کو قوم نے اس کے قومی اور مذہبی کردار میں تحریکِ انصاف کی حکمرانی سے پہلے بھی دیکھا تھا اور حکمرانی میں میں بھی دیکھ رہی ہے ،سندھ پر کئی دھائیوں سے حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی بانی قیادت اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد زرداری پیپلز پارٹی کا راج ہے مسلم لیگ ن پاکستان اور پنجاب پر حکمرانی کے مزے لے چکی ہے انہوں نے اگر اپنے دورِ اقتدار میں پاکستا ن اور پاکستان کے عوام کے لئے کچھ کیا ہوتا تو آج اپنی حالتِ زار پر ماتم نہ کرتے،
موجود ہ سیاسی صورتِ حال میں پیپلز پارٹی کی نسبت مسلم لیگ ن کا کردار قومی سیاست میں ناقابلِ بیان حد تک توہین آمیز ہے پارلیمنٹ کے اندا اور پارلیمنٹ کے باہر میڈ یا میں ان کا بیانیہ اور کردار وعمل پر قوم حیران وپریشان ہے اگر اپوز یشن کے عدمِ تعاون کی وجہ سے قومی بہتری کے لئے کوئی آرڈیننس جاری کرتی ہے تو شور مچاتے ہیں کوئی بل پا رلیمنٹ میں لایا جائے تو تو پارلیمنٹ میں ڈیسک بجانے لگتے ہیں ایسے میں یہ لوگ اپنے قومی، سیاسی ،مذہبی اورخاندانی حسنِ کردار کو بھی بھول جاتے ہی البتہ ذاتی مفادات اور پریشر والا بل ہو تو آنکھیں بند کر کے پاس بھی کرتے ہیں اور خوشی میں ڈیسک بھی بجاتے ہیں پارلیمنٹ اور سینٹ میں قومی مفادات کے بلوں کا حشر قوم دیکھ رہی ہے میڈیا میں جاوید لطیف اور سینٹ میں مشاہد رضا کے کردار اور گفتار کو کسی بھی حوالے سے مہذب نہیں کہا جاسکتا سفید جھوٹ بولتے ہی ہوئے ان کو شرم بھی نہیں آتی کم از کم اپنا خاندا نی وقار ہی دیکھ لیں تو شاید ان کو احساس ہو کہ ہم کیا تھے کیا ہیں اور کیا کر اور کہہ رہے ہیں اگر وقعی عمران خان کی حکمرانی چوروں کی حکمرانی ہے تو یہ لوگ عوام کی نظروں سے کیوں گر گئے ہیں
 دورِ حاضر میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ کریڈ ٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ وطنِ عزیز میں اپنے خلاف مقدمات اور الزامات کا سامنا کر رہے ہیں آصف علی زرداری پہلے بھی سزا کاٹ چکے ہیں اور آج بھی مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ضمانت پر ہیں میا ں محمد نواز شریف سے زیا دہ بیمار ہیں لیکن اپنی بیماری پر سیاست نہیں کھیلتے ، اور نہ ہی سیاست چمکا رہے ہیں اور نہ ہی بیرون پاکستان علاج کے لئے ڈرامہ بازی کر رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے عمل کو قوم دیکھ اور سوچ رہی ہے میاں صاحب مکافات عمل کا جب بھی شکار ہوئے تو خدا یاد آجاتا ہے پہلے گر فتار ہوئے سزا ہوئی تو سعودی عرب کے قدموں میں جھک گئے ان کے ساتھی وعدہ خلافی پر شرمندہ ہیں اس لئے اب گرفتا ر ہو گئے تو بیمار ہو گئے اور بیمار بھی ایسے کہ لوگ یہ ہی سمجھنے لگے آج نہیں تو کل ۔

لیکن کمال کی اداکاری میں خود کو ضمانت پر آزاد کروایا اور اور اپنی خاندانی فوج کے ساتھ اپنے پیرو مرشد ملک برطانیہ چلے گئے۔آج اپنے پورے گھرانے کے ساتھ گوروں کے دیس میں خوشحال ہیں البتہ بیٹی کے لئے پریشان ضرورہیں اس لئے کہ وہ اپنے بابا کے جرائم کی سزا بھگت رہی ہیں ۔ شہباز شریف صاحب پوری مسلم لیگ ن کو تنہا چھوڑ کے برطانیہ میں اپنی لیڈری چمکا رہے ہیں ۔

میاں صاحب گئے تو علاج کے لئے تھے لیکن کسی ہسپتال میں زیرِ علاج نہیں اس لیے شور تو مچھے گا کہ پارلیمنٹ میں جھوٹ بولے ہسپتال میں جھوٹ بولے اور اب برطانیہ میں جھوٹ بول رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بیمار ہیں لیکن ا تنے بھی نہیں جس قدر پاکستان میں بیمار تھے ۔
 حکومت نے برطانیہ سے ان کی واپسی کے لئے برطانیہ سے رابطہ کیا تو عجب قسم کی آوازیں آنے لگیں ان کی جن کا اپنا گریبان نہیں ، پوری قوم جانتی ہے کہ عمران کھلاڑ ی ہی نہیں کھلاڑیوں کا کپتان بھی رہا ہے عمران خان کو علم ہے کہ اگر قومی عدالت اسحاق ڈار کو واپس نہ لا سکی تو میاں صاحب کو کیسے واپس لایا جا سکتا ہے ،وزیرِ اعظم تو قوم کے سامنے مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے چہرے سے نقاب اتار رہے ہیں قوم کو مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کا آئینہ دکھا رہے ہیں کوئی بھی صاحب شعور اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسلم لیگ ن اس وقت بھی پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت لیکن قیادت کا عوام پر اعتماد نہیں ، اعلیٰ قیادت وطن سے باہر ہے اور دوسری قیادت تنکوں کی تلاش میں اپنا رہا سہا وجود بھی داؤ پر لگانے ایم کیو ایم کے در پر دستک دینے چلی گئی یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایم کیو ایم نے پاکستان پیپلز پارٹی کا کشکول ان کو خا لی لوٹایا تھا ۔

دیکھتے ہیں مسلم لیگ ن کی قیادت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :