غیر دوستانہ پارلیمنٹ میں گھرا کھڑا ایک حقیقی جنگجو

ہفتہ 4 جولائی 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول کو میں بلاول بھٹو نہیں بلکہ بلاول زرداری لکھتا ہوں اس لئے کہ وہ اپنے نانا کے نظریات کو نظر انداز کر کے اپنے باباکے نظریات کا درباری ہے بلاول سے پارٹی جیالوں کی بڑی امیدیں وابسطہ ہیں لیکن وہ اپنے بابا کی سوچ کا ساتھ دے کر مسلم لیگ ن کا اشتہار بن گئے ہیں بلاول نے شہید قیادت اور ان پر قربان ہونے والے جیالوں پر مسلم لیگ ن کا ہر جبر اور ظلم نظر انداز کر دیا ہے ، دورِ ضیاءالحق سے نواز شریف کے دورِ وزارتِ اعظمیٰ تک کس قدر بے رحمی سے مسلم لیگ ن کی قیادت نے شہید قیاد ت کے پرستاروں پر ظلم کیا ، دنیا جانتی ہے لیکن پارٹی کے جیالوں کے دل سے زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کی گونج نہ نکال سکی آج بھی ان کی شریانوں میں شہید قیادت سے محبت کا خون دوڑ رہا ہے لیکن بلاول کے مشیر وہ ہی کردار ادا کر رہے ہیں جو بھٹو کے آستین کے سانپ ادا کرتے رہے ،بلاول کے گرد اس کے درباری نہیں چاہتے کہ بلاول پارٹی کی قیادت کرے اس لئے کہ بلاول نے قومہ اسمبلی میں اپنے بابا کی موجودگی میں جو خطاب کیا تھا دنیا کو حیران کر دیا تھا جیالے جھوم اٹھے تھے دنیا بھر میں خراجِ تحسین کے نعرے گونجے تھے اس لئے کی اس خطاب سے شہید قیادت اور ان پر قربان جیالوں کے خون کی خوشبو آرہی تھی پارٹی کے وڈیروں کو اس وقت بڑا دھچکا لگا تھا اس لئے انہوں نے بلاول کو وہ کچھ لکھ کر بولنے کو دیا جو آصف علی زرداری اور مسلم لیگ ن کا مشترکہ ایجنڈا تھا اور ہے
 عمران خان سے ذاتی اور سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن اپوزیشن کا اپنا بھی ایک وقار اور معیار ہوتا ہے ذاتیات میں قومی اور عوامی مفاد نظر انداز نہیں کئے جاتے بلاول پارٹی کی آخری امید ہیں لیکن وہ اپنے اطراف کے خود پرستوں کی مشاورت میں مسلم لیگ ن سے محبت میں پارٹی کے جیالوں اور پارٹی کے خاموش ووٹروں کے ارمانوں کا خون کر رہے ہیں میاں محمد نوازشریف نے اپنے دورِ وزارتِ وزیرِ اعلیٰ میںوزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف جو کردار ادا کیا تھا آج بلاول اور مراد علی شاہ وہ ہی کردار ادا کرنے جا رہے ہیں لیکن اگر بلاول چاہتے ہیں کہ جیالوں اور خامو ش ووٹروں کا اعتماد بحال ر ہے تو انہیں یو ٹرن لینا ہو گا سندھ پر حکمرانی کے ساتھ بلاول کو چاروں صوبوں کی زنجیر کو بوسہ دینا ہو گا
  عمران خان نے اگر جوشِ خطابت میں اسامہ کو شہید کہہ دیا تو کوئی آسمان نہیں گر پڑا ذولفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو ، میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف
جو شِ خطابت میں بہت کچھ کہہ چکے ہیں لیکن سیاسی دانشوروں نے نظر انداز کیا اسامہ شہید ہیں یا مر گئے ہیں یہ معاملہ خدا کی عدالت میں ہے اس پر سیاسی سکورنگ اپنا مذاق اڑا نا ہے اخلاقی آداب نظر انداز کر کے بد زبانی کا مطلب اپنے بڑوں کو گالیاں دینے کے مترادف ہے اگر تم کسی کے بھگوان کو گالی دو گے تو وہ تمہارے خدا کو معاف نہیں کرے گا دینِ مصطفےٰ کا یہ ہی پیغام ہے کسی کے دین پر انگلی اٹھانے سے بہتر ہے اپنے دین کے اوصاف کی تعریف وپرچار کرو ۔

(جاری ہے)

اگر عمران خان سلکٹڈ ہے تو بہتر ہو گا کہ سلکٹ کرنے والے ادارے یا قوتوں کا نام لیں آصف علی زرداری کی پالیسی چھوڑ دیں اس نے بھی کہا تھا میں بے نظیر کے قاتلوں کو جانتا ہوں نام نہیں بتاﺅں گا
بلاول صاحب اپنے قومی کردار کو روشن کریں طاقت کے سر چشمہ عوام پر بھروسہ کریں مولانا فضل الرحمان پر بھروسہ اپنی قیادت کے پاﺅں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے مولانا نے جب بھی اے پی سی بلائی ذاتی مفاد حاصل کیا کشمیر تحریکِ آزادی کو دبانے کے لئے آ زادی مارچ میں تحریکِ ِ آزادی کے قومی جذبات کا خون کیا دھرنا دے کر میاں محمد نواز شریف خاندان کا کھایا ہوا نمک حلال کیا آج میاں محمد نواز شریف خاندان عدالتی مجرم ہونے کے باوجود برطانیہ میں عیاش زندگی گزار رہے ہیں اگر شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگ زیب ، احسن اقبال عمران خان کے خلاف بول رہے ہیں تو اس سے ان کے ذاتی مفادات وابسطہ ہیں جبکہ تمہارے بابا آصف علی زرداری بسترِ علالت ہر اپنے دیس کی عدالتوں میں جنگ لڑ رہے ہیں
عمران خان کو نالائق اور نااہل کہنے والے بلاول صاحب آپ سے بڑی آوازاں میں آپ کی آواز آپ کا بچپنا ناچ رہاہے بلاول صاحب آپ کے منہ میں اس وقت سونے کا چمچ تھا جب ٹائم میگزین کی ٹاپ سٹوری میں آپ کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کوایشیاءکی پہلی مسلمان خاتون وزیرِ ا عظم کی حیثیت میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا تھا تو جیالے خوشی سے جھوم اٹھے تھے وہ ہی ٹائم میگزین کہہ رہا ہے کہ پاکستان میںایک حقیقی جنگجو جو غیر دوستانہ پارلیمنٹ میں گھرا کھڑا ہے موقع پر ست دشمن اور قومی امن کو سپورٹ نہ کرنے والا نظام ،میڈیا ،وبائی وائرس ،بد حال قومی معیشت اور سابقہ قرضوں کے انبار کے نیچے پاکستان کی عظمت اورعوامی حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کہتے ہیں پاکستان کے عوام عمران خان کو اتنا نہیں جانتے جتنا ان کو ان کے قومی خطاب میں ان کو میں جان گیا ہوں وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں صرف کر کٹ نہیں کھیلتے رہے وہ تاریخ کے طا لبِ علم تھے
ان حقائق کے باوجود بلاول اگرذاتی اختلافات میں اخلا قیات کا دامن نظر انداز کرتے ہیں تو یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور درباریوں کی بد قسمتی ہو گی اس لئے کہ قوم بخوبی جانتی ہے کہ عمران خان کے خلاف گزشتہ دو سالوں میں اپوزیشن کی ہر تحریک ناکام ہو چکی ہے اس لئے ذاتی عداوت میں بلاول اپنا سیاسی مستقبل داﺅ پر مت لگائیں اخلاقیات کے دائرے میں اپنے نانا اور اپنی والدہ کے قو می کردار کا چرا غ روشن کریں کسی کا بلا وجہ مذاق اڑانا اپنے بڑوںکا مذاق اڑانے کے مترادف ہے پاکستان کے عوام بخوبی جان گئے ہیں کی قومی سیاست اور قیادت میں کون کس مقام پر ہے اور کیوں ہے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :