نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری!!

جمعرات 31 دسمبر 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

 سیاست میں کس قدر منافقت ہے پا کستان کی عوام نے گڑھی خدا بخش بھٹو میں سابق وزیر اعظم محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی 13 ویں برسی کے موقع اپوزیشن کے جلسے میں دیکھ لیا جب ہم پاکستانی کہتے ہیں کہ سیاست دان ذاتی مفاد کے لئے اپنے خاندانی خون سے بھی بے پرواہ ہو جاتے ہیں تو برا نہیں کہتے لیکن سیاست دانوں کو برا لگتا ہے بھٹو خاندان کے قبرستان میں شہیدوں کے مزار پر مریم نواز کی حاضری دعا اور پھول پتیاں نچھاور کر کے بلاول بھٹو نے ثابت کر دیا کہ جمہور یت بہترین انتقام ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن ذاتی مفاد کے لئے گھٹنے پکڑ لیتی ہے لیکن آج توشہید خاندان کے مزاروں پر سر جھکا دیا جو لوگ کہتے ہیں کہ قبروں میں شہیدوں کی روح تڑپی ہو گی غلط کہتے ہیں۔

میں اس سے اتفاق نہیں کرتا میں کہتا ہوں کہ بھٹو خاندان کے شہداءکے ارواح نے بلاول کو شاباش دی ہوگی خوشی کا اظہار کیا ہو گا اس لئے کہ بلاول نے بھٹو خاندان کے بدترین سیاسی دشمنوں کو پیپلز پارٹی کے قدموں میں جھکنے پر مجبور کر دیا۔

(جاری ہے)

آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ مسلم لیگ ن ذاتی مفاد کے لئے قدموں میں جھکتی ہے اور مطلب نکلنے کے بعد پیٹ میں چھرا گھونپ دیتی ہے اور آج و ہ ہی چھرا پیپلز پارٹی نے شریف فیملی کے پیٹ میں گھونپ دیا او ر استعفوں کو میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کر دیا
  بلاول بھٹو نے پارٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں ایک سوال کہ کیا اجلاس میں استعفوں کو میاں محمد نواز شیریف کی واپسی سے مشروط کئے جانے کی کوئی بات ہوئی تو بلاول نے کہا کی میں اس کی تصدیق یا تردید نہیں کروں گا ہم جمہوری لوگ ہیں جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں پارٹی اجلاس میں سیاسی صورتِ حال پر تبادلہ خیال میں ہر کسی کو بات کرنے کا حق ہے اور معاملے کو زیرِ غور لایا جاتا ہے۔

بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کی سوچ سے لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن سے جمہوری انتقام کا وقت آگیا ہے پیپلز پا رٹی مسلم لیگ ن کو وہا ں مارنا چاہتی ہے جہاں پانی بھی نہ ملے ۔ جو کام وزیرِ اعظم عمران خان نہیں کر سکے وہ پیپلز پارٹی کرنے جارہی ہے لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف پاکستان نہیں آئیں گے اس لئے کہ وہ برطانیہ کی مغربی فضا کو چھوڑ کر پاکستان کیونکر آئیں گے پاکستان میں تو وہ ائرپورٹ سے سید ھے جیل جائیں گے تو اسے پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ پاکستان آئیں آصف علی زرداری بھی جانتے ہیں کہ نہ تو وہ پاکستان آئیں گے اور نہ ہی پیپلز پارٹی پر،پی ڈی ایم میں منفی کردار کا الزام لگے گا موجودہ صورت ِ حال میں لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی سینٹ کے الیکشن میں تحریکِ انصاف کے بعد دوسری بڑی پارٹی بن جائے گی جبکہ مسلم لیگ ن کا شیرازہ بکھر جائے گا اس طرح سیاسی نجومیوں کے مطابق آئندہ عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کے مقابل تانگہ پارٹیوں کے ساتھ بڑی جماعت صرف پیپلز پارٹی ہو گی !اور اگر موجودہ اپوزیشن کے منفی کردار کے باوجود پارلیمانی جمہوریت کا خون نہیں ہوا تو پاکستان میں دو پارٹی نظام کی امید بھر آ ئے گی اور پاکستان سے محبت کرنے والے سیاست دان استحکام پاکستان اور استحکام پارلیمانی جمہوریت کے پیپلز پارٹی اور تحریک ِ انصاف میں اپنا سیاسی کردار سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے اور جب بھی پاکستان میں حکمران جماعت کو بلیک میلر اتحادیوں سے نجات ملی انتخابات کے بعد طاقت کے سرچشمہ عوام کے فیصلے کو تسلیم کیا دھاندلی کا رونا اور ماتم بند کیا، سیاست دانوں نے پاکستان اور پاکستان کے عوام کو سوچا تو پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا
 جانتے ہیں مسلم لیگ ن پاکستاں کی بڑی سیاسی جمعت تھی لیکن شریف خاندان نے اندھوں کی طرح ریوڑیاں رشتوں میں تقسیم کرتے ہوئے قومی اداروں کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ توہین کی جس کی وجہ ہس ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی کشتی میں چھید تو ہو چکا ہے اس لئے مولانافضل الرحمان سے کہہ رہے ہیں ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ، مولانا اور اس کی جماعت بستر ِ مرگ پر ہے مولانا شیرانی نے جمیعت علماءاسلام پاکستان کو فضل الرحمان گروپ سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کی سوچ ذات تک محدود ہے جس میںدیانت اور صداقت نہیں ہے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کے بھی پر نکل آئے ہیں ۔

لیکن اگر ان اتحادیوں نے اپنے آج کو نہ سوچا تو عمران خان نے کہا ہے کہ میں اسمبلیاں توڑ دوں گا ،نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :