مولانا کارڈ اور انتخابی نظام

پیر 4 نومبر 2019

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

یوں تو ہم نے اس ملک پر بہت سے لانگ مارچ  و تحریکوں کا راج دیکھا ہے۔ پی۔این۔اے کی تحریک تھی یا پھر بے نظیر بھٹو کا "گو نواز گو لانگ مارچ" تھا تاریخ ان لانگ مارچ کی داستانوں سے بھری پڑی ہیں۔اسی طرح وہ ججز کی بحالی کی تحریک تھی یا پھر میاں نوازشریف کا اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان اور گوجرانوالہ پہنچتے ہی ججوں کی بحالی کا اعلان ھو جانا تھا۔

الغرض پھر 2013 میں ڈاکٹر طاہر القادری کا انتخابی اصلاحات کا لانگ مارچ و دھرنا تھا یا پھر 2014 میں محترم عمران خان صاحب و انکے سیاسی کزن ڈاکٹر طاہر القادری کا ایک اور لانگ  مارچ و دھرنا تھا۔ اگر اس لانگ مارچ کی بات کروں تو میڈیا پر 24/7 اسکی کوریج ہوئی مگر آج اس کے برعکس منظر ہے۔ تاریخ میں اگر احتجاج و احتجاجی تحریکوں کا سبب دیکھا جاۓ تو اکثریت کی وجہ انتخابات ہیں۔

(جاری ہے)

تاریخی اعتبار سے 1970 کے انتخابات کے علاوہ  کوئی انتخابات شفاف نا تھے مگر شفافیت اس قدر نکھر کر آئ کہ 1971 میں یہ ملک خداد دو ٹکڑے ھوگیا۔ اس کے بعد ذولفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ سے لے کر ملکی انتخابات و تحریکوں کا دور الگ داستان ہے۔ 2013 میں بھی تمام سیاسی جماعتوں کا رونا انتخابات وے دھاندلی تھا۔الغرض 2018 میں بھی  جماعتوں کا مسلہ دھاندلی و انتخابات نا ماننے سے ہے۔

مولانا فضل الرحمن اور انکی جماعت کا 27 اکتوبر کو کراچی سے چلنے والا آزادی مارچ 31 اکتوبر کو لاہور سے ہوتا ہوا اسلام آباد داخل تو ھوگیا، مگر فضل الرحمن کے جلسہ عام میں پوری دنیا نے دیکھا کہ افغان طالبان کے جھنڈے لہراے گئے۔ کیا کوئی جماعت کا بندہ اور مولانا بھی اس عمل کو روک نہیں سکتے تھے؟ دنیا کو اس عمل سے کیا پیغام گیا ہوگا؟ ادھر 1 لاکھ فوج مشرقی بارڈر پر لگی ہوی ہے تو 2 لاکھ فوج مغربی بارڈر پر لگی ہوئی۔

کشمیر میں کشمیری دب کے رہ گئے مگر ہم اندرونی معاملات سے ہی باہر نہیں آرہے۔ دنیا اسلام کو پہلے دہشتگردی سے جوڑ رہی ہے رہی کمی مولانا نے جلسہ عام میں افغان طالبان کے جھنڈے لہرا کہ کر دی۔ ادھر بھارت پہلے ہی ایف۔اے۔ٹی۔ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کروانا چاہتا ہے اور پاکستان کو تنہا کرنا چاہتا ہے ادھر مولانا مذہبی کارڈ کھیل کر ملک کو اندرونی اور بیرونی مسائل میں ڈالنے کے لیے تل گئے ہیں۔

وہ اقوام عالم کی کشمیر کی جانب مرکوز توجہ تھی یا پھر ملک اندرونی وحدت میں تھا دونوں مقاصد کو مولانا نے بری طرح سبوتاز کردیا۔ جو میڈیا کل کشمیر پر بات کررہا تھا آج وہی میڈیا مولانا اور آزادی مارچ پر بات کررہا ہے۔ اس طرف مولانا نے مارچ کیا تو دوسری طرف بھارت نے کشمیر کی جغرافیائ و سیاسی حالت کو تبدیل کرکہ رکھ دیا اور کشمیر کو تقسیم کردیا۔

اس وقت ٹک مولانا کے بیانات دیکھ کر لگتا نہیں کہ حضرت اداروں کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں یہی غلطی نواز شریف صاحب کرچکے۔ 2018 کے انتخابات کو زیر بحث لا کر مولانا اداروں کو بھی سیاست کی نظر کرتے جارہے ہیں۔جس قدر اداروں کی ساکھ کو نقصان میاں نواز شریف صاحب اور مولانا نے پہنچایا ہے اس کی اب مثال نہیں ملتی۔ میرے ذاتی تجزیہ کے مطابق مولانا ہفتہ تک قیام کا سامان ساتھ لاۓ ہیں اور یہ دھرنا پشاور روڈ سے ڈی۔

چوک کی جانب بھی حرکت کرے گا۔مولانا اقتدار کی حوس میں بدحواس ھوچکے ہیں اور کسی بھی طرح سے حکومت کو چلتا کرنا چاہتے ہیں۔ افراتفری کا ماحول بنانے کی مزید کوشش کی جاۓ گی اور ماحول کو گرما کر حکومت پر پریشر بھی ڈالا جاۓ گا۔ جس قدر ملکی حالات اور فوج کی ساکھ خراب ھورہی ہے ملک انارکی کی وجہ سے چوتھے مارشل لا و فوجی اندرونی بغاوت کی جانب بھی بڑھ سکتا ہے مگر ملکی حالات، سرحدی حالات اور بین الاقوامی حالات پاکستان میں مارشل لا کے لیے سازگار نہیں مگر وقت کے مطابق ملکی مفاد میں فیصلے لیے جاتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کے کارڈ کے بعد ملک سے مذہبی سیاست و دباؤ کا دور ختم ہونے جارہا ہے۔یہاں ایک بات کرنا بہت سمجھتا ہوں اگر ملک چوتھے مارشل لا کی جانب بڑھتا ہے تو کم و بیش 250 سے 300 افراد جیلوں میں ہوں گے اور ملک مکمل نئے سیاسی منظر نامہ کی جانب بڑھے گا۔ انتخابات اور انتخابی نظام کو اول دن سے ہی نشانہ پر رکھا گیا مگر عجب ہے کہ ن لیگ،  پیپلزپارٹی، جے۔

یو۔آئی ایف، اے۔این۔پی و دیگر نے کبھی انتخابی اصلاحات سے متعلق قانون تو کیا قرارداد تک پاس نہیں۔ نہیں معلوم آج کس منہ سے شفاف انتخاب کی بات کرتے ہیں۔آرٹیکل 62 و 63 پر عمل درآمد کی بات ھوتو سیاستدان چیخ جاتے ہیں۔ اسی طرح آج بھی ملک کی اکثریت ووٹ نہیں ڈالتی کیونکہ انھیں سیاست و سیاسی نظام سے نفرت ھوچکی ہے اور انھیں علم ہے کہ ملک میں کچھ نہیں ہونا۔

ملک میں 72 سالوں سے چند خاندان براجمان ھوچکے ہیں جو اس کے سیاسی و انتخابی نظام پر قابض ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں ایسا سیاسی و انتخابی نظام لایا جاۓ جس میں غریب، مزدور، ڈاکٹر، استاد، وکیل، طالبعلم، کسان اور عورتیں خود الیکشن لڑ کر آئیں اور اپنے اپنے شعبہ کے متعلق اسمبلی میں آواز اٹھائیں نا کہ کچھ مضبوط خاندان ہی پلٹ کر واپس آئیں۔

ملک میں حقیقی تبدیلی کے لیے آپریشن کی ضرورت ہے اور نئی عوام کو آگے لانا ہوگا۔بے شک اس ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے ڈاکٹر و انجنیئر یہیں کہ دوسرے ممالک میں جاکر کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔اس وقت اس انتخابی نظام کو جڑ سے اکھاڑ بدلانا ہوگا اور ایسا اصلاحی انتخابی نظام لانا ہوگا کہ پھر کوئی قوت انتخابات دھاندلی ا سلیکشن کا نعرہ لگا کر حکومت اور اداروں یلغار نا کرسکیں اور ملک آگے بڑھتا رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :