جب عمران خان آزاد تھا

جمعہ 23 جولائی 2021

Javed Malik

جاوید ملک

فانی بدایونی کہتے ہیں-
موج نے ڈوبنے والوں کو بہت کچھ پلٹا
رخ مگر جانب ساحل نہیں ہونے پاتے
تیرا انعام سمجھتا ہوں ان ارمانوں کو
میری کوشش کا جو حاصل نہیں ہونے پاتے
ہر پاکستانی بارہ صفتوں کے ساتھ دنیا میں تشریف لاتا ہے۔ اس کے بعد اپنی اپنی تربیت اور قابلیت کے مطابق مزید صفات میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔

ان بارہ صفات پر تو کسی بھی پاکستانی کو اعتراض نہیں، مثلاً ہر پاکستانی لاکھوں روپوں کا مقروض پیدا ہوتا ہے 2, کسی بھی پاکستانی کے کوئی فرائض نہیں ہوتے 3,ہر پاکستانی کے بے شمار حقوق ہوتے  ہیں,4  سچ نہیں بولتا،5دوسروں کو جھوٹا ثابت کرتے رہنا ہے۔6 دوسروں کی برائیوں کو غیبت نہ سمجھنا۔7 دوسروں کو ایمانداری کا درس دینا۔

(جاری ہے)

8, دوسروں کا حق مارنا۔

9 سب کچھ دکھاوے کے لیے کرنا۔ 10, ہر عمل میں منافقت کرنا۔ 11, ہر برا عمل آللہ کے سامنے مگر بندوں سے چھپ کر کرنا۔ 12, ہر برے کام کو اچھے کام پر ترجیح دینا۔
  یہ وہ سارےکام ہیں-جنکےتدارک کاعمران خان نےوعدہ کیاتھا- ڈالر،پٹرول،گھی،چینی اور آٹا جب مہنگا ہوتا ہے تو وزیر اعظم یا کمزور ہوتا ہے یا کرپٹ مگر یہ اس زمانے کی باتیں ہیں- جب وزیراعظم آزاد ہو یا با اختیار ہو۔

آج جب کوئی صحافی  ہمت کر کے یہ فضول اور بے ہودہ باتیں وزیراعظم کو یاد دلاتا ہے- تو وزیر اعظم سوچ میں پڑ جاتے ہیں اور پھر کسی دوسری غیر اہم بات پر زور دینے کا حکم صادر فرماتے ہیں۔ کبھی کبھی اس طرح کے  وعدے کچھ ٹی وی سنٹر ڈرتے ڈرتے نشر کرنے کی کوشش  کرتے ہیں-مگر اس کے ساتھ ہی ٹی وی پر چیونٹیوں کا حملہ ہو جاتاہے-حالانکہ میڈیا مکمل آزاد ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہو گئی ہے۔ جہاں باقی سارا کچھ الٹ چلنا شروع ہوا، وہاں حکومت بد قسمتی سے ان کو دےدی گئی ہے- جنہوں نے پی ایچ ڈی اپوزیشن کرنے کی کی ہوئی تھی۔ اور اپوزیشن والے بیچاروں کے ساتھ تو ہاتھ ہو گیا ہے۔ وہ تو الیکشن کو درست ہی تب مانتے ہیں جب الیکشن کے نتیجہ میں جمہوری وزیر اعظم نواز شریف ہوں،مگر پانچ سال قبل مقتدرہ نے ایک بہت مشکل مگر کامیاب تجربہ کیا اور بے وفاجمہرریت کے بطن سے جناب عمران خان کی قیادت میں سندھ سے فیصل  وواڈہ، عمران اسماعیل،علی زیدی، شمیم نقوی اور حلیم عادل شیخ۔

پنجاب سے فردوس عاشق اعوان،شیخ رشید، فیاض الحسن چوہان۔اور علی نواز اعوان۔ کے پی سے آمین گنڈاپور،مراد سعید اور شہر یار آفریدی جیسے ہیرے تلاش کر کے ریاست مدینہ کی داغ بیل ڈالی۔جس نے پچھلے  چونتیس ماہ میں پشاور میٹرو بنا کر اپنی اہلیت ثابت کر دی ہے اور اب اگلے چھبیس۔ ماہ میں راولپنڈی رنگ روڈ بنا کر  اپوزیشن کو خاموش کر دے گی۔ اس کے باوجود کہ ریاست مدینہ والے اجرت صرف اپوزیشن کرنے کی لیتے ہیں،حکومت ان سے مفت میں کروائی جا رہی ہے۔

اب وزیراعظم بھی قید  ہیں اور اپوزیشن چونکہ ہے نہیں۔ مائک توڑنے والی سرکار اس وقت حالت مراقبہ میں ہیں۔مگر مریم بی بی کا رول ایک الگ داستان ہے جو وضاحت طلب ہے۔ اگر ایسا ہو گیا جو سوچا جا رہا ہے تو پھر کیا عمران خان آزاد ہوں گے۔ چلیں عمران خان کو ان تین سالوں میں اتنا تو اندازہ ہوگیا ہوگا پاکستان میں حکومت کرنا اور کرکٹ کے میدان میں گیند بازی کرنے میں بہت بڑا فرق ہے- کرکٹ کا کھیل بھی ٹی وی پر دیکھ کر ہی مزہ آتا ہے- باہر بیٹھ کر ہر پاکستانی کرکٹ کا ماہر نظر آتا ہے- لیکن جو کھلاڑی گراؤنڈ میں کھیل رہے ہوتے ہیں- وہی جانتے ہیں گیند کتنی رفتار کے ساتھ ان کی طرف آتی ہے یہی حال سیاست کا ہے-عمران خان 22 سال باہر بیٹھ کر صرف تبصرے کرتے رہے-کسی بھی حکومت پر تنقید کرنا بڑا آسان ہوتا ہے- لیکن جو حکومت کر رہا ہوتا ہے اس کو کون کون سے چیلنجز درپیش ہوتے ہیں-یہ وہی جانتا ہے- عمران خان کو اس تجربے نے بہت کچھ سیکھا دیا ہوگا اس تجربے میں عوام نے بہت بڑی قیمت ادا کی-دیکھنا یہ ہے آنے والے دو سالوں میں عوام اور کتنی قربانی دے سکتے ہیں کہیں بغیر پوچھےعوام گھبرا نہ شروع کر دیں-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :