امریکا اور افغانستان کی دلدل۔ قسط نمبر3

بدھ 14 جولائی 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

سال 2009 میں ری پبلیکن صدر بش کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ڈیموکریٹ صدر باراک اوباما نے اپنے عہدے کی پہلی مدت کے دوران افغانستان میں امریکی فوجیوں اور پرائیویٹ ”کانٹریکٹرز“ کی تعداد میں نمایاں اضافہ کیاجس سے ایک موقع پر ان کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ گئی تھی ”کانٹریکٹرز“اصل میں نجی کمپنیوں کے تحت کام کرنے والے کرائے کے فوجی ہوتے ہیں ”کانٹریکٹرز“ کے جنگی ”ہتھیار “کا بھانڈا شاید کبھی نہ پھوٹتا اگر سال2004میں عراق کے شہر فلوجہ میں مشتعل شہریوں نے شہرپر کارپٹ بمباری کا بدلہ لینے کے لیے چار ”کانٹریکٹرز“کو مارکر دریائے فرات کے پل پر ان کی لاشیں نہ لٹکائی ہوتیں ان چاروں ”کانٹریکٹرز“کا تعلق بدنام زمانہ کمپنی بلیک واٹرزسے تھا۔

یہ چاروں نوجوان اپنے گھروالوں سے جھوٹ بول رہے تھے ان میں سے ایک نوجوان Scott Helvenston کی ماں نے بلیک واٹرپر کتاب لکھنے والے امریکی صحافی Jeremy Scahill سے انٹرویومیں بتایا کہ ان کا بیٹا بیروزگار تھا پھر اس نے بتایا کہ اسے فوجیوں کو کھانا سپلائی کرنے والی ایک کمپنی میں نوکری مل گئی ہے جس کے لیے اسے عراق جانا پڑے گا سکاٹ کی ماں کا کہنا تھا کہ وہ آخری بار فون پر ہونے والے رابط تک ان سے جھوٹ بولتا رہا اور یہی کہتا رہا کہ ان کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ صرف عراق میں موجود امریکی افواج کو کھانا سپلائی کرتے ہیں مگر جب انہیں اپنے بیٹے کی دردناک موت کی خبر ملی تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ کس قسم کا ”کنٹریکٹر“تھا۔

(جاری ہے)

سکاٹ کی والدہ نے باقی مرنے والے تین نوجوانوں کے خاندانوں سے رابط کرکے بلیک واٹرکمپنی کے خلاف مقدمہ دائرکیا مگر کمپنی کے وکلاء نے عدالت میں مارے جانے والے چاروں ”کانٹریکٹرز“کے دستخط شدہ نوکری کے معاہدے پیش کرکے کسی قسم کا ہرجانہ اداکرنے سے انکار کردیا اور انہی دستاویزات کی بنیاد پر امریکی فیڈرل کورٹ تک سے ان نوجوانوں کے خاندانوں کو انصاف نہ مل سکا جس معاہدے پر انہوں نے دستخط کیئے تھے اس کے تحت دوران” نوکری“ جزوی یا مکمل معذوری سے لے کر جان تک جاسکتی ہے۔

متاثرہ خاندانوں کو تو انصاف نہیں ملاالبتہ جارج ڈبلیو بش کی صدارتی میں وزیردفاع کی ذمہ داریاں نبھانے والے ڈونلڈرمزفیلڈکی درخواست پر 2004اپنی پہلی مدت کے عہد صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی باراک اوبامہ نے اڑھائی سوملین ڈالرکے قریب بلیک واٹرکے بلوں کی ادائیگی کے حکم نامے پر دستخط کردیئے جنگ میں مسلح افواج کے ساتھ ”کانٹریکٹرز“کو میدان میں اتارنے کا خیال بھی رمزفیلڈکی ہی ذہنی اخترح تھی اور امریکا کے تحقیقاتی صحافت کرنے والے کئی نامور صحافیوں یہ الزام عائدکرتے رہے ہیں کہ وزارت دفاع کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے بعد بلیک واٹرکے ساتھ منسلک ہوگئے تھے‘بلیک واٹرزکے بانی ایرک پرنس اور ْونلڈ رمزفیلڈ کو جو کڑی جوڑتی تھی وہ امریکی نیوی تھی ۔

میں جانتا ہوں کہ یہ مضمون افغانستان سے متعلق ہے بلیک واٹرزیا عراق کے بارے میں نہیں مگر اس کہانی کے ڈانڈانے افغانستان سے آکرملتے ہیں اس لیے یہ بریف ضروری تھا تاکہ پڑھنے والوں کو سمجھنے میں آسانی ہو کیونکہ صرف افغانستان میں ہی نہیں پاکستان اور خطے کے کئی ممالک میں بلیک واٹرز نے دہشت پھیلائے رکھی امریکا کی نجی ملیشیا جو اگر کوئی دوسرا ملک استعمال کرتا تو اسے دہشت گرد قراردیدیا جاتا صرف امریکا ہی نہیں نیٹواتحاد میں شامل برطانیہ‘جرمنی‘فرانس سمیت کئی مغربی ممالک نے کرائے کے ان قاتلوں کی خدمات حاصل کیں ایرک پرنس بلیک واٹربیچ کر پندرہ سالوں سے ایک عرب ملک کے شاہی خاندان کی شراکت داری سے Reflex Responses کے نام سے کمپنی چلارہا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کمپنی کی بنیاد 2010میں ”عرب بہار“کے آغازسے ٹھیک ایک ماہ پہلے ہی رکھی گئی تھی جس سے اس سازشی تھیوری کو تقویت ملتی ہے کہ ”عرب سپرنگ“کے پیچھے مغربی طاقتیں تھیں جس کا مقصدتیل کی دولت سے مالامال عرب ملکوں کو ڈرا کر مال بٹورنا تھا یمن جنگ میں اسی عرب ملک کی وریاں پہن کر Reflex Responsesکے کرائے کے فوجی سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد کے ساتھ شریک رہے جہاں ایرک پرنس پندرہ سالوں سے ڈیرے جمائے بیٹھا ہے ۔

واپس افغانستان کی طرف آتے ہیں ایرک پرنس اور اس کی Reflex Responses اور عرب شاہی شراکت داروں کی کہانی پھرکبھی سہی صدر اوباما نے پہلے عہد صدارت کے آغازمیں افغانستان میں پرائیوٹ ”کانٹریکٹرز“ کی تعداد میں اضافہ کیا تو بلیک واٹرکی آمدن بھی کئی گنا بڑھی یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پرائیویٹ ”کانٹریکٹرز“میں صرف ایک بلیک واٹرہی نہیں درجنوں امریکی‘برطانوی اور دیگر مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والی کمپنیاں شامل ہیں جو پوری دنیا میں مختلف ”خدمات “انجام دے رہی ہیں مگر شہرت اور بدنامی بلیک واٹرکو ہی ملی باقی ساری پس پردہ رہ کر آج بھی کام کررہی ہیں آمدن اور ٹھیکے بڑھنے سے بلیک واٹر نے اپنی ”فضائیہ“بھی کھڑی کرلی اور افغانستان میں ڈرون آپریشنزکا ایک بڑا حصہ بھی مگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود واشنگٹن کو ہار مان کر افغانستان سے نکلنا پڑرہا ہے ایک طرف دنیا کی واپس سپرپاور کا اسٹیٹس امریکا کے ہاتھوں سے پھسلتا نظرآرہا ہے تو دوسری جانب مغربی دنیا کی قیادت بھی ‘افغانستان کے اندرصورتحال یہ ہے کہ ”وائس آف امریکا“تسلیم کررہا ہے کہ ملک کا 85فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں جاچکا ہے۔

جیسا کے پچھلے مضمون میں عرض کیا تھا کہ طالبان سابق شمالی اتحاد کے علاقوں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں ا یک طرف تاجکستان اور ترکمانستان کے سرحدی شہر اور چوکیاں طالبان کے کنٹرول میں آچکی ہیں تو دوسری جانب افغان فوج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے بدخشاں کا صوبائی ہیڈکواٹربغیرکسی لڑائی کے صرف چار گاڑیاں بجھوا کرطالبان نے اپنے کنٹرول میں لے لیا‘ افغان فوجیوں کے سرحد پارکرکے تاجکستان میں پناہ لینے کے واقعہ کے بعد تاجک صدر ایمومالی راخموں نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر 20 ہزار ریزور فوجی دستوں کو تعینات کرنے کا حکم دیا ہے تاجک صدر نے علاقے کی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کے لیے روسی ہم منصب ولادی میر پوٹن سے بھی گفتگو کی‘افغان صوبوں بدخشاں، تخار، فریاب، پکتیا اور قندوز میں طالبان کی پے درپے کامیابیوں اور افغان فوج کے بغیرکسی مزاحمت کیے ہتھیار ڈال کر علاقے خالی کرنے سے طالبان اور ان کے حامیوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا ہے اور یہ سیلاب رکتا نظرنہیں آرہا۔

طالبان کے سابق ہیڈکواٹرقندھار پر بھی مکمل قبضے کی خبریں سامنے آرہی ہیں جبکہ افغانستان کے حکومتی عہدیدار ملک چھوڑکر فرار ہورہے ہیں افغان ذرائع ابلاغ نے نام ظاہرکیئے بغیربتایا ہے کہ دوہری شہرتیں رکھنے والے افغانستان کی غنی حکومت کے متعدد فوجی وسول اعلی عہدیدار غیرملکی افواج کے جہازوں میں ملک چھوڑچکے ہیں جبکہ یہ سلسلہ جاری ہے اور آنے والے دنوں میں تیزہونے ہونے کا امکان ہے”وائس آف امریکا“ نے اپنی رپورٹ میں افغان امور کے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے وقت کے ساتھ اپنی حکمت عملی بھی بدلی ہے پہلے وہ تمام کارروائیاں اپنے پشتون کمانڈروں کے ذریعے ہی کراتے تھے لیکن اب طالبان نے نہ صرف مقامی غیر پشتون افراد کو اپنی صفوں میں شامل کیا ہے بلکہ ان میں سے بعض اہم عسکری پوزیشن پر بھی تعینات ہو چکے ہیں شمالی علاقوں میں طالبان کی کارروائیوں کی قیادت کرنے والے قاری فصیح الدین تاجک النسل افغان ہیں ان کا تعلق صوبہ بدخشاں سے ہے اور وہ طالبان کے ملٹری کمیشن کے سربراہ سراج الدین حقانی کے معاون کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں ماہرین کا کہنا ہے طالبان اس وجہ سے پیش قدمی کر رہے ہیں کیوں کہ افغان فوجیوں اور قیادت کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے افغانستان میں کئی اعلی عہدوں پر تعینات افسران دہری شہریت کے حامل ہیں مشکل وقت سے قبل ہی ان کے ملک چھوڑنے کی خبروں سے عوام میں غنی حکومت کے بارے میں منفی خیالات تقویت پارہے ہیں دوسری جانب طالبان نے ایسے تمام افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے جو ہتھیار ڈال دیں گے اور وہ ہتھیار ڈالنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کرکے عوام کو پیغام دے رہے ہیں کہ ملک کے اصل حکمران کون ہیں‘یوں لگتا ہے کابل کی سول لائنزتک محدود اشرف غنی حکومت کے ہاتھوں سے کابل بھی پکے پھل کی طرح ٹوٹ کر طالبان کی گود میں گرنے والا ہے‘غنی حکومت کے کنٹرول کھودینے سے ملک میں اشیاء ضروریہ قلت اور ان میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے مزار شریف میں ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 38 افغانی تھی جو کہ بڑھ کر 55 افغانی سے تجاوزکرچکی ہے‘ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں افغانی کرنسی کی قدر میں کمی ہونا شروع ہوگئی ہے ‘ افغانستان میں صورتحال اس سے بھی زیادہ ابترہے جتنی ذررائع ابلاغ پر دکھائی یا بتائی جارہی ہے اگرچہ تصویرکا ایک رخ دکھانا صحافتی اقدار کے منافی ہے مگر یہاں معاملہ مفادات ہے کیونکہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں کے میڈیا ہاؤسز20سال تک یکطرفہ تصویردکھا کر دنیا کو گمراہ کرتے رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی‘ایئرسپورٹ اور فوجوں کا مقابلہ کیا جائے تو طالبان کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا ہے۔

طالبان کے قطرمیں قائم سیاسی دفترمیں اعلی عہدے پر فائز ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ امریکی مذکرات کے دوران ڈھکے چھپے لفظوں میں اعتراف کرتے رہے ہیں کہ افغانستان ان کے لیے ویت نام سے بھی زیادہ مشکل محاذثابت ہوا ہے ‘ذرائع کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ سارے قبائل اور لسانی دھڑوں کے لوگ ہیں چندایک کو چھوڑکر ‘ سابق شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والی ایک اعلی ترین حکومتی شخصیت کے حوالے سے دعوی کیا گیا ہے انہوں نے بھی مقامی اعلی کمانڈرسے رابط کرکے غیرمشروط تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے اگرچہ سیاسی محاذپرطالبان کی حکمت عملی میں تبدیلی نظرآرہی ہے مگر عسکری محاذپر ان کی حکمت عملی میں کوئی نمایاں تبدیلی نظرنہیں آرہی ان کے حملوں میں اتنی ہی شدت نظرآرہی ہے جتنی1995میں تھی یہ بات اب یقینی ہے کہ جلد کابل میں بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہے سال2019میں اشرف غنی کے پاس بڑا اچھاموقع تھا کہ وہ لویہ جرگہ بلا کر اپنی اور امریکا کی ساکھ بچا لیتے مگر وہ کسی صورت اقتدار سے دستبردارہونے پر آمادہ نہیں نظرآتے ۔

جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :