نیا پاکستان،عام آدمی کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ، ایک لمحہ فکریہ

بدھ 10 اپریل 2019

 Mirza Zahid Baig

مرزا زاہد بیگ

پاکستان میں تبدیلی سرکارکی آمد کے بعد بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ شاید جو باتیں دھرنوں اور جلسوں میں کی جا تی ہیں ۔ان کو عملی جامہ پہنایا جائے گا اور ملک سونے کی چڑیا بن جائے گا ۔ لیکن یہ خیال خام ہی ثابت ہوا ۔ تحریک انصاف کرپشن کے خلاف سرگرم ہو کر غریبوں کے لئے ریلیف کا نعرہ لگاق کر بر سر اقتدار آئی لیکن غریبوں کو بجائے ریلیف دینے کے ایک روٹی کھانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عوام میں اس حکومت کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہورہا ہے ۔


 وزیر خزانہ اسد عمر جب اپوزیشن میں تھے تو یہ کہتے تھے کہ نواز شریف کی حکومت کے دور میں پٹرول 40روپے لیٹر ہونا چاہیئے لیکن اپنی حکومت میں انہوں نے پیٹرول کی قیمتیں بڑھا کر ثابت کر دیا ہے کہ یہ صرف زبانی کلامی نعرے تھے ۔

(جاری ہے)

عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور حکمران محض کرپشن کرپشن کا راگ الاپ کر خود کو مبرا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔

اسد عمر جو تحریک انصاف کی سب سے بڑی امید تھے ۔ان سے وابستہ امیدیں پوری نہ ہونے کے باعث حکومت مشکلات سے دوچار نظر آتی ہے ۔ آئی ایم ایف سے مدد نہ لینے کشکول توڑنے کے دعوے بھی یو ٹرن ثابت ہو رہے ہیں ۔پیٹرول کی قیمت میں اضافے بجلی کی قیمتوں اور ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے اور حکمران محض طفل تسلیاں دینے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔

بے روزگاری کے خاتمے کے لئے کوئی عملی اقدام تا حال نظر نہیں آیا ۔
 اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اتنے بڑے چیلنجز سے کس طرح نبرد آزما ہو گی ۔دوسروں پر تنقید کرنا تو نہایت آسان کام ہے لیکن بگڑے ہوئے معاملات کو ایک ڈگر پر لا کر عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہی حکومت کی اولین تر جیح ہونی چاہیئے لیکن اس میں حکومت بری طرح ناکام نظر آتی ہے ۔

شنید میں آیا ہے کہ آمدہ بجٹ میں ملازمین کو کوئی ریلیف نہیں دیا جائے گا تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گابلکہ ملازمین کی پنشن ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ملازمین کی تنخواہوں میں سو فی صد اضافہ کیا گیا۔ نواز شریف کے دور میں زیادہ اضافہ تو نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود انہوں نے ملازمین کو ریلیف ضرور دیا جس کی وجہ سے ملازمین کے مسائل میں کسی حد تک کمی بھی ہوئی ۔

 ملازمین تنظیمیں اس صورت ھال سے شدید تشویش میں مبتلا نظرآتی ہیں ۔ اگر ملازمین کو اس بجٹ میں کوئی ریلیف نہ ملا تو ملازمین تنظیموں کا رد عمل اس حکومت کے لئے شدید مشکلات کا باعث بھی ہو سکتا ہے ۔ وزیر اعظم عمرا ن خان پڑوسی ملک بھارت کے بارے میں بھی خوش فہمی میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔ان کی نظر میں بی جے پی حکومت مسئلہ کشمیرکے حل میں کردار ادا کر سکتی ہے ۔

وزیر اعظم عمران خان اگر بی جے پی کے پانچ سالہ دور اقتدار کا جائزہ لیں تو ان کی یہ خوش فہمی غلط فہمی میں بدل سکتی ہے ۔ بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے دور میں جس جبر واستبداد کا مظاہرہ کیا اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو جس بے دردی سے شہید کیا بلکہ ایکٹ میں 35اے کی شق ختم کرنے کے درپے ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی بھونڈی کوششیں کی جا رہی ہیں اور ایسے حالات میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا غیر ذمہ دارانہ بیان تشویش ناک بات ہے ۔

بھارتی وزیر اعظم نرنیدر مودی کی جانب سے گذشتہ دنوں جنگ کے حوالے سے دئیے گئے بیان کے رد عمل میں عمران خان نے جو جواب دیا تھا اس سے کشمیریوں کی حوصلہ افزائی ہوئی تھی اور راقم نے اپنے گذشتہ کالم میں انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا تھا لیکن ان کا آج کا یہ بیان کی بھارت سے مسئلہ کشمیر پر مفاہمت ہو سکتی ہے ۔
 کسی صورت میں قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

کیونکہ اگر ہم اپنی پالیسی سے پیچھے ہٹ کر مفاہمت کی بات کریں گے تو یقینا یہ پسائی کی ایک صورت ہو گی ۔ہم بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ کسی صورت میں کشمیریوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے انہوں نے اپنی آزادی کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانی اس لئے نہیں دی کہ بھارت سے کوئی مفاہمت کی جائے ۔ سینکڑوں خواتین بچے اور بوڑھے اس تحریک حریت کی بھینٹ چڑھ گئے لیکن ہنوز ہم صرف اور صرف باتوں خوش فہمیوں میں جی رہے ہیں ۔

 ہم ان سطور کی وساطت سے وزیر اعظم پاکستان سے کہنا چاہیں گے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو دو ٹوک موقف اپنا تے ہوئے کشمیریوں کے جائز حق خود ارادیت کے لئے اپنے موقف کو جرآت مندانہ انداز میں آگے بڑھانا ہو گا ۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اگر آمدہ بجٹ میں غریبوں کو ریلیف نہ دیا اور یہی صورت حال جاری رہی تو اس کے لئے مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معاملات پر کنٹرول کرتے ہوئے مہنگائی پر قابو پانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں اور ایک روٹی کھانے کے مشورے دینے کے بجائے عوام کو صیحح معنوں میں ریلیف دیا جائے تا کہ وہ سکھ کا سانس لے سکیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :