بجٹ سے کراچی کے احساس محرومی میں اضافہ

جمعہ 19 جون 2020

Mubashir Mir

مبشر میر

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے پیپلز پارٹی سندھ کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں بتایا اور اعتراف کیا کہ گذشتہ سال کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا نہیں ہوا۔ اقتصادی صورتحال میں مسائل اور کورونا وائرس کے پھیلا کے بعد دنیا بھر کی معیشیں بحران کا شکار ہیں۔ وفاقی حکومت بھی اپنے محصولات کا ہدف حاصل نہیں کرپائی، لہذا صوبوں کے حصے میں بھی کمی کی گئی ہے۔

سندھ حکومت کے محصولات میں کمی تقریبا 300 ارب کے قریب شمار کی گئی ہے۔ لہذا آئندہ ترقیاتی فنڈز کی مد میں 60 فیصد کم از کم کٹوتی کی تجویز ہے۔
سندھ کے وزیراعلی جن کے پاس وزیرخزانہ کا قلمدان بھی ہے، تقریبا 1200 ارب سے زائد کا بجٹ پیش کریں گے۔ 1742 ارب وفاق سے ملنے کی امید اور 375 ارب صوبائی محصولات سے حاصل کرنے کی تجویز ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعلی سندھ کے مطابق آئندہ بجٹ میں صحت کے شعبے کو ترجیح دی جارہی ہے، کوئی نئی اسکیم شروع نہیں ہوگی۔


مرتضی وہاب کے مطابق سندھ اسمبلی کا اجلاس بھی منفرد نوعیت کا ہوگا۔ 75 فیصد اراکین گھر یا آفس سے آن لائن شرکت کریں گے۔ صرف 25 فیصد افراد اجلاس میں شرکت کریں گے۔ لہذا وزیرخزانہ کم وزیراعلی سندھ کیلئے ممکن ہے کہ وہ صورت نہ ہو جو وفاقی بجٹ پیش کرتے وقت وفاقی وزیر حماد اظہر کی تھی۔
اپوزیشن تھوڑا بہت شور مچاسکتی ہے لیکن سینئر ممبرز کی عدم موجودگی سے ان کو بہت ریلیف رہے گا۔

صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت سب کے زیادہ تر اخراجات انتظامی نوعیت کے ہیں۔ عوام پر خرچ کرنے کے لئے بہت ہی کم رقم مختص کی جاتی ہے۔ ترقیاتی فنڈز کو ہی لے لیں اس میں کمی کا عندیہ دیا گیا ہے اور اگر صوبائی مالیاتی کمیشن فعال ہوتا تو کم از کم ترقیاتی فنڈز کا 30 فیصد بلدیاتی اداروں کی اسکیموں کو دیا جاتا، لیکن صوبہ سندھ بشمول کسی صوبے میں صوبائی مالیاتی کمیشن کو فعال نہیں بنایا گیا۔

لہذا 18ویں ترمیم میں عملدرآمد میں یہ ایک بڑی کوتاہی ہے جو گذشتہ دس برس سے مسلسل کی جارہی ہے۔
وفاق اور سندھ کے بجٹ میں ایک قدرے مشترک نظر آتی ہے کہ دونوں جانب سے سندھ کے دو بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد کو مکمل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کراچی پیکج کی تکمیل ابھی تک ادھوری ہے۔ جس کے تحت 162ارب خرچ کرنے کا اعلان ہواتھا، کراچی سرکلر ریلوے ، پانی کی فراہمی کا منصوبہ اور پبلک ٹرانسپورٹ میں بہتری کی پلاننگ سب خاک ہوچکی ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ وفاقی حکومت نیا پاکستان ہا سنگ اتھارٹی کے تحت جنوبی پاکستان (سندھ اور بلوچستان) میں ایک بھی منصوبہ شروع کرنے میں ناکام ہے۔
کراچی کا احساس محرومی اس بجٹ کے بعد اور بڑھ گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان ایک مرتبہ پھر کراچی تشریف لارہے تھے ، ان کے گذشتہ دورے بھی لاحاصل رہے اس مرتبہ بھی ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ وفاق نے کراچی کے تین بڑے ہسپتالوں کا کنٹرول سنبھالا ہے دیکھنا یہ ہوگا کہ اس سے کیا بہتری آتی ہے۔


سندھ اسمبلی کے اجلاس سے پہلے اراکین اسمبلی کے کورونا ٹیسٹ سرکاری ہسپتال سے کروانے سے گریز کیا گیا جس پر میڈیا میں سخت تنقید ہوئی ۔ ابھی بھی اطلاعات ہیں کہ ممبر سندھ اسمبلی عارف مصطفی جتوئی کا ٹیسٹ پہلے مثبت اور پھر دوسری مرتبہ منفی آیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹیسٹنگ کٹ غیرمعیاری ہیں یا پھر اسٹاف کی ٹریننگ میں کمی رہ گئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی وزیراعلی سندھ اور گورنر سندھ سے ملاقاتیں متو قع ہیں ، اس مرتبہ گورنر سندھ کے اختیارات ایک مرتبہ پھر کم کردیے گئے ہیں۔

اب وزیراعلی سندھ اپنے مشیروں کی تقرری کیلئے گورنر کی منظوری سے مبراہوگئے ہیں۔ کیا عجیب آئینی شق ہے کہ گورنر وفاق کا صوبے میں نمائندہ ہے لیکن اس کے اختیارات کا تعین صوبے کی اسمبلی کرتی ہے۔ وفاق اپنے نمائندے کے اختیارات کا تعین نہیں کرسکتا ، لگتا ہے کہ گورنر سندھ گورنر ہا س تک ہی محدود ہوجائیں گے۔
کراچی میں کورونا وائرس کے پھیلا کے ساتھ ہیٹ ویو بھی بڑھ رہی ہے۔

ممکن ہے کہ زیادہ اموات کی وجہ شدید گرمی بھی ہو، بجلی کی کئی علاقوں میں بندش اور پانی کی قلت بھی شدید گرمی میں اموات کی شرح میں اضافہ کا باعث بن جاتی ہے۔ ایک مرتبہ 2 ہزار سے زائد اموات اسی ہیٹ ویو میں اسی وجہ سے ہوئی تھیں۔
کورونا وائرس کی وباآئی جی پولیس کے گھر تک پہنچ گئی ہے، ان کے گھر پر تعینات کئی پولیس اہلکاروں کو کورونا پازیٹو آیا ہے ۔

پولیس کی ڈیوٹی چونکہ عوام کے رش کی جگہوں پر جانا بھی ہوتا ہے، اس لیے ممکن ہے کہ وہ اسی وجہ سے وائرس کا شکار ہوئے ہوں۔
وفاقی وزیراسد عمر انتباہ کرچکے ہیں کہ جولائی میں کورونا کیسز 12 لاکھ تک جاسکتے ہیں۔ اموات میں اضافے کا بھی بتایا جارہا ہے، گویا عوام حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ وباکے دنوں میں اقتصادی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر معطل ہیں، اس لیے بیروزگاری میں اضافے کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔

غیریقینی صورتحال میں سونے اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار میں بہتری وقتی ثابت ہوتی ہے۔ کراچی کے عوام بیروزگاری کی وجہ سے زیادہ مشکلات کا شکار اس لیے نظر آرہے ہیں کیونکہ زیادہ تر لوگوں کی آمدنی کا انحصار صنعت و تجارت پر ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ کراچی کو میگا سٹی کا درجہ دے کر مکمل اختیارات دیئے جائیں۔

مکمل اختیارات تو آ ئین میں درج ہیں۔ آرٹیکل 140A کہتا ہے کہ بلدیاتی اداروں کو انتظامی اور مالیاتی طور پر مکمل اختیارات حاصل ہونگے ۔ لیکن صوبائی حکومتیں ایسا کرنے سے گریز کرتی چلی آرہی ہیں۔
شہر کراچی کی دو اہم شخصیات دوست محمد فیضی سابق صوبائی وزیر اور نامور شاعر اور ادیب سرور جاوید بھی داغ مفارقت دے گئے۔ کراچی کے علمی وادگی حلقوں میں دونوں شخصیات اہم مقام کی حاصل تھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :