
ملکی سیاست جے آئی ٹیز کے گرد گھومنے لگی
جمعرات 9 جولائی 2020

مبشر میر
2014ء میں دبئی میں لیاری گینگ وار کے اہم کردار عزیر جان بلوچ کو گرفتار کیا گیا اور پھر مکمل چھان بین کے بعد پاکستان کے حوالے کردیا گیا۔ اس پر کئی لوگوں کے قتل کا الزام تھا۔ تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جسے سامنے لانا نہ جانے کیوں مشکل تھا، لیکن یہ بات واضح بھی تھی کہ عزیر بلوچ پیپلز پارٹی کے دور حکومت 2008 سے 2013 کے درمیان ہونے والے اہم ترین واقعات میں کسی نہ کسی طرح ملوث تھا۔
(جاری ہے)
فروری 2019 کو سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس اقبال کلہوڑو اور جسٹس کے کے آغا پر مشتمل بنچ نے سندھ حکومت کو حکم دیا کہ تینو جے آئی ٹی ان کیمرہ ریویو کیلئے کورٹ میں جمع کروائی جائے۔ جسے فاضل جج صاحبان اپنے چیمبر میں دیکھیں گے اور اسے پبلک کرنے کا فیصلہ کریں گے ۔ ہائی کورٹ کے ججز نے جنوری 2020 میں اس رپورٹ کو پبلک کرنے کے احکامات جاری کیے، تقریباً ایک سال بعد اور تقریباً تین سال کی علی زیدی اور ان کے وکیل عمر سومرو کی کاوشوں سے یہ اہم خبر سامنے آئی ۔ یہ فیصلہ جسٹس اقبال کلہوڑو اور جسٹس شمس الدین عباسی نے سنایا۔ اس فیصلے کے تقریباً پانچ ماہ بعد سندھ حکومت نے تینوں جے آئی ٹی پبلک کرنے کا اعلان کردیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے ان رپورٹس کے پبلک ہونے پر قومی سلامتی کے حوالے سے کسی قسم کے خطرے کو خارج از امکان قرار دیا۔
گذشتہ پانچ برسوں میں ان جے آئی ٹی پر کئی سوال اٹھائے گئے اور الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری رہا، سندھ حکومت اسے سامنے لانے سے کتراتی بھی رہی ، پولیس افسران کے دستخط نہ کرنے کی داستان بھی سنی گئی، اس رپورٹ کو تبدیل کرنے کا بھی بیان سامنے آیا۔
سوال یہ ہے کہ عزیر بلوچ جو 11جنوری 1979 کو لیاری میں پیدا ہوا، اتنی کم عمری میں جرائم کی دلدل میں اتر گیا ، اور اسی بناء پر اہم ترین سیاسی اور انتظامی شخصیات کے اس قدر قریب تھا کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح امور حکومت میں دخل اندازی کرتا تھا۔
2006 میں گرفتار ہوا اور پھر قانون کے شکنجے سے کس نے بچایا، رحمن ڈکیت کے بعد سیاسی شخصیات کی آنکھ کا تارا بن گیا ۔ لیاری سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیات خاص طور پر جن میں نبیل گبول اور قادر پٹیل شامل ہیں، اس کے بارے میں لاعمی کا دعویٰ نہیں کرسکتے اور اہم ترین پولیس افسران بھی اس سے لاتعلق نہیں تھے۔
بلوچ قبائل پاکستان، ایران اور افغانستان میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کے لئے سرحدوں کے آس پاس رہنا مشکل نہیں۔ عزیر کا خاندان بھی ایرانی بلوچ ہے، اس لیے قبیلے کے کئی افراد دُہری شہریت رکھتے ہیں۔ عزیر بلوچ کا دس صفحات پر مشتمل ہاتھ سے لکھا گیا بیان بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مقدمہ عدالت میں چلنے پر وہ بھی پیش کیا جائے ، لیکن ہماری تاریخ گواہ ہے کہ 164 کا بیان عدالت میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا ، پاکستانی عدالتیں اسے حتمی تصور نہیں کرتیں۔
عزیر بلوچ کو قتل و غارت پر سز ملے یا نہ ملے لیکن اہم سوال پاکستان میں جرائم سے جڑی ہوئی سیاست ہے، اگر سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین جرائم پیشہ لوگوں کے ذریعے ہی پیسہ اکٹھا کرتے ہیں، الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اور پھر انہی کی مدد سے اپنا اثرورسوخ بڑھاتے ہیں، تو پھر یہ جمہوریت ملک کو استحکام نہیں دے سکتی بلکہ عوام سے ناکردہ گناہوں کا انتقام ضرور لے رہی ہے۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری بھی جرم کی ایک لرزہ خیز داستان ہے جس میں 259 افراد لقمہٴ اجل بنے۔ اس وقت گورنر عشرت العباد خان بہت طاقتور شمار ہوتے تھے، جو موقع واردات پر پہنچ گئے تھے، کاش ان کو بھی تفتیش کیلئے بلایا جائے کیونکہ کراچی کے کئی ایک اہم واقعات ان کے دورِ گورنری میں پیش آئے، جن میں وکلاء کو زندہ جلایا جانا، سانحہ 12مئی ، سانحہ 18 اکتوبر، سانحہ 27 دسمبر (جب پورے سندھ میں جلاؤ گھیراؤ ہوا)، اسی طرح شہر میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان کے سینکڑوں واقعات اور سانحہ بلدیہ فیکٹری بھی ۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بھی ان پر الزامات لگائے تھے۔
صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی گاہے گاہے سیاست پر گفتگو کرتے رہتے ہیں، حال ہی میں انہوں نے فرمایا ہے کہ 18ویں ترمیم میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے پہلے بھی صدارتی نظام کی حمایت میں گفتگو کی تھی، لیکن حیرت ہوتی ہے کہ وہ بلدیاتی نظام پر گفتگو کیوں نہیں کرتے۔ پاکستان کے عوام اس وقت میونسپل مسائل میں زیادہ الجھے ہوئے ہیں۔ عوام تو پینے کا صاف پانی، صفائی ستھرائی کا نظام، بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات ، ٹرانسپورٹ جیسے مسائل سے باہر نکل ہی نہیں پارہے۔ ان تمام مسائل کا حل ایک بااختیار بلدیاتی نظام میں پوشیدہ ہے۔
تحریک انصاف اعلان کررہی ہے کہ وہ پنجاب میں بہترین بلدیاتی نظام لارہے ہیں ، لیکن جو خدوخال سامنے آئے ہیں وہ بہترین ہونے کی نشاندہی نہیں کرتے، سیاسی اثرورسوخ کے حامل افراد اس نظام کو بھی مفلوج بنانے کیلئے کمر کس چکے ہیں۔
موجودہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے راہنما اختیارات کی تقسیم پر یقین نہیں رکھتے ، وہ طاقت سے قبضہ رکھنے کی سوچ کے حامل ہیں۔ ایسے لوگوں کے ہوتے ہوئے صدرمملکت جن کا تعلق کسی ایسے خاندان سے نہیں ، غیرجماعتی بلدیاتی نظام کی حمایت کرنی چاہیے۔
کراچی جو کئی ہفتوں سے ہیٹ ویو اور شدید ترین لوڈ شیڈنگ کا شکار ہوا ہواہے، کورونا بحران کے دوران بھی پانی اور ٹرانسپورٹ کا بحران اسے مزید نڈھال کیے ہوئے ہے، بارش بھی ریلیف نہیں دے سکتی۔
کے الیکٹرک کے خلاف سماجی راہنماؤں کے بیانات اور اس کے ساتھ ساتھ یہ خبریں کہ کے الیکٹرک کا انتظام شنگھائی الیکٹرک کو دیئے جانے کے امکانات واضح ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
حالیہ اطلاعات کے مطابق شنگھائی الیکٹرک، کے الیکٹرک کے 66.30فیصد شیئر خریدنے کیلئے عارف حبیب گروپ کو اپنا منیجر مقرر کرچکی ہے، جس نے شنگھائی الیکٹرک کا پروفائل اشتہار بھی انگریزی روزنامے میں شائع کردیا ہے۔
کراچی کے لیے بجلی کے نرخ بڑھانے پر تنقید ہورہی ہے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ نیپرا (NEPRA) کراچی میں اس ایشو پر پبلک ہیئرنگ (Public Hearing) کرے ، عوام کو سنے بغیر بجلی کے نرخ نہیں بڑھائے جانے چاہئیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مبشر میر کے کالمز
-
ہمتِ مرداں ،مددِ خدا
جمعہ 5 فروری 2021
-
دل دہلادینے والا مچھ واقعہ
پیر 11 جنوری 2021
-
کورونا وبا کی دوسری لہر میں شدت
جمعہ 27 نومبر 2020
-
(ن لیگ) کا فوج مخالف بیانیہ
جمعہ 6 نومبر 2020
-
کراچی میں اپوزیشن کا جلسہ
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
جزائر پر وفاق اور سندھ کا تنازعہ
جمعہ 9 اکتوبر 2020
-
اے پی سی میں شہری سندھ کی نمائندگی نہ ہوسکی
جمعرات 24 ستمبر 2020
-
وزیراعظم کے دورہ کراچی کی گونج
جمعرات 10 ستمبر 2020
مبشر میر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.