لوٹے بھرتی کرو گے تو گھبرانا تو پڑے گا میرے کپتان

جمعہ 19 فروری 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

جہاں پوری دنیا میں سال نو کی آمد پر جشن اور خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ، وہی دوسری طرف میرے کپتان عمران خان کے لئے نئے سال کی شروعات کچھ اچھی نہیں رہی، ایک طرف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سلسہ واراحتجاجی پروگرامزنے کپتان کے لئے نئے سال کی آمد کا مزہ کڑوا کردیا۔اور جیسے جیسے سینٹ الیکشن قریب آتے گئے اُسی طرح میرے کپتان کی گھبراہٹ میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آیا۔

پتا نہیں کپتان کو کس مشیر وزیر نے سینٹ الیکشن کے لئے آئین پاکستان کے پہلے سے درج شدہ آرٹیکل 226 کے برخلاف چلنے اور اقدامات اُٹھانے کے مشورے دینا شروع کردیئے۔سب سے پہلے آئین کے آرٹیکل 226 کو پڑھتے ہیں پھر اگلی بات کریں گے۔
All elections under the Constitution, other than those of the Prime Minister and the Chief Minister, shall be by secret ballot ۔

(جاری ہے)

اُردو ترجمہ : ”آئین کے تحت تمام انتخابات، وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے علاوہ، خفیہ رائے شماری کے ذریعہ ہوں گے“
آئین پاکستان کے آرٹیکل 226 کے اس واضح ترین ترجمہ جس کی کسی بھی قسم کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں رہتی، نہ جانے میرے کپتان کوسینٹ الیکشن میں کس قسم کا خوف چھایا ہوا ہے کہ میرے کپتان کی زیادہ تر مصروفیات سینٹ الیکشن کے گرد ہی گھومتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہیں۔

غیر جانبدرانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کی ہوائیاں اُڑی ہوئی ہیں۔ایک طرف سینٹ الیکشن کیوجہ سے وزیراعظم ناراض ارکان کو منانے کے مشن پرلگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف یہ دعوے کرتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں کہ کسی پیراشوٹر کو سینیٹر نہیں بنائیں گے مگر ساتھ ہی ساتھ( بعض مبصرین کا خیال ہے )کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سینیٹ کا الیکشن لڑنے کے لئے ارب پتی افراد کو ٹکٹ دیئے ہیں۔

کبھی سینٹ کے ووٹ کے لئے منڈی کا ریٹ کڑوروں میں بتاتے ہوئے نظر بھی آتے ہیں توکہیں پر اپوزیشن کو سینٹ الیکشن کے بعد پچھتانے کی تڑیاں بھی لگارہے ہوتے ہیں۔ آئیے کپتان کی گھبراہٹ کودرج ذیل چند اقدامات سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں وزیر اعظم کی زیر صدارت پی ٹی آئی پارلیمانی بورڈ کا بنی گالہ میں اجلاس ہوا۔ فیصل واوڈا کا ٹکٹ برقرار رکھا گیا ہے جبکہ نجیہ اللہ خٹک سے ٹکٹ واپس لینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

پارلیمانی بورڈ نے سندھ سے فیصل واوڈا سے متعلق کارکنان کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ وفاقی وزیر فیصل واوڈا کا سینٹ ٹکٹ برقرار رکھا جائے گا۔ اس حوالے سے وزیراعظم سندھ کی تنظیم کو اعتماد میں لیں گے۔دوسری جانب نجیہ اللہ خٹک سے پارٹی ٹکٹ واپس لیکر خیبرپختونخوہ سے لیاقت ترکئی کو پارٹی ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں بلوچستان میں سینٹ ٹکٹس کے حوالے سے بھی اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔


وزیر اعظم عمران خان سے پاکستان تحریک انصاف کے ناراض رکن پنجاب اسمبلی خرم لغاری نے ملاقات کی۔خبروں کے مطابق وزیراعظم سے ملاقات میں خرم لغاری نے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جس پر وزیراعظم نے خرم لغاری کو حلقے کے مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کرائی ، اسکے بعدخرم لغاری نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ واپس لے لیا اور اب سینٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوارکو ووٹ دیں گے۔

خرم لغاری کو منانے میں وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اہم کردار ادا کیا۔خیال رہے کہ رکن پنجاب اسمبلی خرم لغاری نے چند روز قبل پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھاکہ سینٹ انتخابات میں وہ پارٹی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے۔سینٹ انتخابات میں ایک بار پھر بلوچستان متنازع حوالوں کے ساتھ خبروں میں ہے۔ امیدوار وں کے اعلان کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف میں اختلافات پیدا ہوگئے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں مقیم کاروباری شخصیت عبدالقادر کو بلوچستان سے سینیٹ کا ٹکٹ دینے کے فیصلے پر پی ٹی آئی کی صوبائی تنظیم نے سخت مخالفت کی۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے کر پارٹی کے دیرینہ رہنما ظہور آغا کو دے دیا۔
اُدھر صوبہ خیبر پختونخواہ میں وزیر اعظم عمران خان نے بالآخر مداخلت کی اور خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلی محمود خان اور سابق صوبائی وزیر محمد عاطف خان کے مابین پیر کو وزیر اعظم ہاؤس میں اجلاس میں مدعو کرکے ان کے درمیان اختلافات حل کرلئے۔

اس ملاقات میں کے پی کے گورنر شاہ فرمان بھی موجود تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق، گورنر شاہ فرمان نے محمود خان اور عاطف خان کے مابین معاملات حل کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔دوسری طرف تعلیمی ایمرجنسی کا نعرہ اور گزشتہ سات سال سے زائد عرصہ سے برسراقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنے میٹرک پاس وزیر کو ایک اور وزارت کا اضافی چارج دیدیا خیبرپختونخوا میں میٹرک پاس وزیر کو محکمہ قانون کا اضافی چارج دیے دیا گیا ہے۔

وزیر بلدیات اکبر ایوب خان کو وزیر قانون سلطان محمد خان کے استعفے کے بعد محکمہ قانون کا قلمدان تفویض کیا گیا ہے۔اکبرایوب کو اس سے قبل گزشتہ سال ضیائاللہ بنگش کی جگہ وزیر تعلیم بنایا گیا تھا تاہم ان کی تعلیمی قابلیت میٹرک ہونے اورسوشل میڈیا پرتنقید کے بعد ان سے تعلیم کی وزارت واپس لے کر ان کو محکمہ بلدیات دیا گیا۔ صوبائی محکمہ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق وزیر قانون سلطان محمد کے استعفے کے بعد اکبرایوب کو محکمہ قانون کا بھی اضافی چارج دیاگیا، وزیر قانون سلطان محمد خان کو 2018 کی ویڈیو اسکینڈل کے بعد فارغ کیا گیا تھا۔


عمران خان کی گھبراہٹ کا عالم یہ ہے کہ کبھی تو وہ اپوزیشن سے صلاح مشورہ کئے بغیر اور بغیر اپوزیشن کی مدد حاصل کئے سیکرٹ ووٹنگ کے سسٹم کو پارلیمنٹ سے آئین میں ترمیم کے ذریعہ ختم کروانے کے لئے سوچتے ہیں، جوکہ اپوزیشن کی مدد کے بغیر ناممکن ہے او رجب پارلیمنٹ میں دال نہیں گلی تو فورا سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکاتے ہوئے نظرآتے ہیں، پھر سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی طرف سے سپریم کورٹ میں کوڑا جواب سننے کے بعد فورا ہی صدارتی آرڈیننس جاری کردیتے ہیں (جسکو سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس کے فیصلہ سے مشروط کیا )، ایسا پاکستانی کی آئینی و پارلیمانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور اوپر سے صدارتی آرڈیننس جاری کردیا جائے اور اسکو سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مشروط بھی کر دیا جائے۔

یہ تو سیدھا سیدھا سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے کے مترادف لگتا ہے۔
ابھی عمران خان کی سینٹ الیکشن کے حوالہ سے گھبراہٹ ختم نہیں ہوپارہی اوپر سے رواں ماہ 16 فروری کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت کو سندھ سے 2 اور بلوچستان سے 1 سیٹ پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ُپاکستانی تاریخ میں تمام ادارے Same Page پر نظر آرہے ہیں،جس کی تصدیق خود محترم وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں۔

مگر اس سب کے باوجود میرے کپتان کوآنے والے سینٹ الیکشن میں شکست کا خوف ستائے جارہا ہے ، ایسا کیوں ہے، کہیں کپتان کا خوف سچ مچ صحیح ثابت ہی نہ ہوجائے، کہیں کپتان کو یہ خوف لاحق تو نہیں ہوگیا کہ جس طرح پرانے پاکستان میں تبدیلی کا سفر صوبہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی سے شروع ہوا اور راتوں رات اک نئی پارٹی اور نئی حکومت کا وجود قائم ہوگیا۔

جس طرح پرانے پاکستان میں پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کے پاس عددی برتری حاصل ہونے کے باوجود و بھی وہ اپنا چیرمین سینٹ اور ڈپٹی چیرمین سینٹ منتخب نہ کرواسکے، کپتان کو کہیں ایسا خوف تو لاحق نہیں کہ ہے باوجود پاکستان تحریک انصاف اور انکی اتحادی پارٹیوں کے سندھ کے علاوہ تمام صوبائی اسمبلیوں میں عددی برتری حاصل ہے کہیں انکے ساتھ بھی اُسی طرح کا ہاتھ نہ ہوجائے۔

شاید کپتان اسلئے بھی ڈر رہے ہیں کہیں اس مرتبہ سینٹ الیکشن میں انکے ساتھ بھی وہی سلوک نہ ہوجائے جس طرح چیرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف ہونے والی تحریک عدم اعتماد میں ہوا تھا۔صادق سنجرانی کی عدم اعتماد کے لئے ووٹنگ کا بھی اپنا ہی نظارہ تھا کہ جب 60 کے قریب سینیٹرز عدم اعتماد تحریک کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے حق میں کھڑے ہوتے ہیں مگر جب ووٹنگ ہوتی ہے تو50 سے بھی کم ووٹ نکلتے ہیں اور صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا ستیاناس ہوجاتا ہے۔


جناب عمران خان صاحب کا گھبرانا نا جائز بھی نہیں ہے کیونکہ جب کپتان نے اپنی حکومت کے حصول کے لئے 2018 کے انتخابات لڑنے کے لئے Electables کے نام پر چُن چُن کر دوسری جماعتوں کے لوٹے اپنی جماعت میں بھرتی کئے اور ان لوٹوں کی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی وابستگی و خدمات نہ ہونے کے برابر تھیں ، انہی لوٹوں کی زیادہ تر تعداد کو انتخابات لڑنے کے لئے پارٹی ٹکٹ بھی دیئے گئے اور انکو ایوان اقتداد میں بٹھایا گیا۔

میرے کپتان کو شائد بخوبی علم ہے کہ جو لوٹے انکی جماعت میں کسی غرض اور ممکنہ اقتدار کے حصول کے لئے آٹپکے تھے وہ سینٹ الیکشن میں بھی انکے ساتھ ہاتھ کرسکتے ہیں۔ میرے کپتان جب آپ کے سب سے بڑے حمایتی اور مددگار جہانگیر ترین اپنے جہاز میں دوسری جماعتوں کے ممبران اسمبلی اور اعلی پارٹی عہدادران بڑھ بڑھ کر لاتے تھے اور آپ خوشی خوشی انکے گلوں میں تحریک انصاف کے جھنڈے کوہار بنا پر پہنایا کرتے تھے ، شاید اس وقت سوچتے کہ میں ایسا کیوں کررہا ہوں، آپکو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ یہ افراد جو جہانگیر ترین کے جہازوں کے جھولے لیتے ہوئے آرہے ہیں اور صرف اس غرض سے کہ آنے والی ممکنہ حکومت میں انکو شراکت اقتداد مل جائے کیا وہ آپ یاآپکی پارٹی سے دائمی وفاداری نبھائیں گے۔


سپریم کورٹ میں دائر صدارتی ریفرنس میں اٹارنی جنرل پاکستان نے سپریم کورٹ میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ سینٹ الیکشن کے لیے اسلام آباد میں کچھ لوگ نوٹوں سے بھرے بیگ لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، دوسرے لفظوں میں یہ کہ سکتے ہیں کہ حکومتی اراکین اسمبلی کو خریدنے کے لئے اپوزیشن ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔شائد یہی وجہ تھی کہ کپتان کو اراکین صوبائی اسمبلی کو پچاس پچاس کروڑ روپے ترقیاتی فنڈ کے نام پر دینے کی فکر لاحق ہوئی ، اور فنڈز کا معاملہ بعد ازاں سپریم کورٹ کے نوٹس کی بناء پر پس پشت چلا گیا۔


جہاں سینٹ الیکشن میں کپتان کی گھبرانے کی دوسری بہت سی وجوہات ہیں ، وہی پر وفاق یعنی اسلام آباد کی سیٹ پر ہونیوالے معرکہ میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار حفیظ شیخ کے مقابلہ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کا مدمقابل آنا بھی ہے، سینیٹ انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے یوسف رضا گیلانی کے کاغذاتِ نامزدگی منظور کرلئے۔

الیکشن کمیشن کے ریٹرننگ آفیسر ظفر اقبال نے فیصلہ سناتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کے کاغذاتِ نامزدگی پر اعتراض مسترد کر دیا۔عمران خان حکومت اور اپوزیشن کے مشترکہ اتحاد یعنی پی ڈی ایم دونوں کے لئے اسلام آباد کی سیٹ حاصل کرنا ایک ٹیسٹ کیس ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں عمران خان کی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کا عندیہ دیا تھا۔

اور اگر یوسف رضا گیلانی اسلام آباد کی سینٹ سیٹ حاصل کرلی جو کہ قومی اسمبلی کے اراکین کے ووٹنگ کی بناء پر حاصل کی جاتی ہے توآنے والے دنوں میں حکومت وقت کی مشکلات میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ اسی وجہ سے حکومت وقت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ سینٹ انتخابات اوپن ووٹنگ کے ذریعہ سے کروائے جائیں۔
کاش عمران خان 2018 کے انتخابات کے وقت جہانگیر ترین کے جہازوں میں بڑھ بڑھ کر لائے گئے دوسری جماعتوں کے اراکین اسمبلی اور پارٹی عہداران کے گلوں میں تحریک انصاف کے ہار نما جھنڈے نہ ڈالتے اور کوشش کرتے کہ تحریک انصاف کے بانی اراکین اور کارکنوں کو جنہوں نے عمران خان کی پارٹی کو اس وقت سہارا دیا جس وقت کوئی Electables یا نام نہاد سیاسی لیڈران تحریک انصاف کی طرف منہ نہیں کرتے تھے، کاش عمران خان اپنے بانی اراکین ہی کو 2018 کے عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ دے کر جتواتے تو شائد آج کپتان کو سینٹ الیکشن کے لئے اتنی بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑتی اور ہر ناراض ممبران اسمبلی کو منانے کے لئے ترلے منتے نہ کرنا پڑتیں۔

یہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ عمران خان نے اپنی پارٹی کے بنیادی سیاسی نظریہ ”انصاف اور میرٹ“ سے انحراف کرتے ہوئے چُن چُن کر روایتی لوٹوں کو اپنے درینہ اور بانی اراکین کی بجائے فوقیت دی اور انکو صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبر بنوایا۔2018 کے عام انتخابات کے نتیجہ میں پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کی قریبا 80 فیصد سے زیادہ تعداد انہی لوٹوں کی ہے جنکو نام نہاد Electables کا نام دیا گیا۔

آج آپکو اسمبلی میں تحریک انصاف کے بانی اراکین جیسا کہ حامد خان ایڈووکیٹ، جسٹس وجیح الدین، اکبر ایس بابر، فوزیہ قصوری وغیرہ دیکھنے کو نہیں ملیں گے، حد تو یہ کہ ان بانی اراکین پارٹی کو بہت ہی برے طریقہ سے پارٹی سے بے دخل یا پھر کھڈے لائن لگا دیا گیا۔
موجودہ صورتحال میں پاکستان کی تمام اپوزیشن پارٹیوں میں کہیں پر کھینچا تانی، نوٹوں سے سینٹ پارٹی ٹکٹ کی بازگشت سننے اور دیکھنے کو نہیں مل رہی مگر دوسری طرف وزیراعظم پاکستان کو پاکستانی عوام کی بنیادی ضروریات زندگی کی ارزاں نرخوں میں فراہمی اور مہنگائی کی وجہ سے پسی ہوئی عوام کے لئے ریلیف کی طرف دھیان نہ ہونے کے برابر دیکھنے کو مل رہا ہے ، شائد کپتان کو ایسا لگ رہا ہے کہ اگر سینٹ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف عددی برتری حاصل نہ کرپائی تو شائد حکومت کا وجود خطرے میں پڑ جائے۔


نتیجہ: میرے کپتان جب آپ اپنی جماعت میں لوٹے بھرتی کرو گے توپھر آپکو گھبرانا تو پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :