سینٹ الیکشن آئین کے مطابق خفیہ ووٹنگ سے ہونگے

منگل 2 مارچ 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

بالآخر فیصلہ کی گھڑی آن پہنچی حکومت وقت کی جانب سے  23دسمبر 2020کو سپریم کورٹ میں دائرکئے گئے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ نے یکم مارچ کی صبح اپنی رائے کا اظہار کردیا گیا۔سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں کہا کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جاسکتے، سینیٹ انتخابات قانون کے بجائے آئین کے تحت ہوں گے، سپریم کورٹ نے رائے 4-1 کی نسبت سے دی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے رائے سے اختلاف کیا ہے۔

گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل پاکستان اور دیگر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت عظمیٰ نے رائے محفوظ کی تھی۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنی رائے میں آئین پاکستان کے جس آرٹیکل کا ذکر کیا ہے پہلے اسکا مطالعہ کرتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 226 میں درج ہے کہ  "Elections by secret ballot"
 All elections under the Constitution, other than those of the Prime Minister and the Chief Minister, shall be by secret ballot.] یعنی آئین پاکستان کے آرٹیکل 226 میں واضح طور پر درج ہے کہ آئین کے تابع تمام انتخابات ماسوائے وزیراعظم اور وزیر اعلی کے خفیہ رائے شماری سے ہونگے، آئین پاکستان میں درج اس انتہائی مختصر ترین آرٹیکل کا اردو ترجمہ و تشریح اک میٹرک پاس بچے سے بھی کروایا جاسکتا ہے مگر نہ جانے کون میرے کپتان جناب عمران خان کو الٹے سیدھے مشورے دیتا ہے کہ ہر معاملہ کو متنازعہ بنایا جائے اور آخرکارتمام حربے استعمال کرنے کے بعد حکومت وقت نے اپنا آئینی حق آئین کے آرٹیکل 186 کو استعمال کرتے ہوئے اک صدراتی ریفرنس کے ذریعہ عدالت عظمی کے دروازے پر دستک دی کہ حکومت وقت سمیت تمام پاکستانیوں کو آئین میں درج انتخابات کے حوالہ سے رہنمائی فرمائی جائے۔

(جاری ہے)

آئین کا آرٹیکل 186 کیا ہے اسکا سرسری سا مطالعہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستان کے آئین میں درج آرٹیکل 186 کے تحت پاکستان کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ آف پاکستان پاس درج ذیل اختیا ر ہے:آرٹیکل 186:  مشاورتی دائرہ اختیار 186. (1)  اگر، کسی بھی وقت، صدر یہ سمجھتے ہیں کہ قانون کے کسی بھی سوال پر جس کو وہ عوامی اہمیت سمجھتے ہیں، اس پر سپریم کورٹ کی رائے حاصل کرنا مطلوب ہے، تو وہ اس سوال کو غور کے لئے سپریم کورٹ کے پاس بھیج سکتے ہیں۔

  186. (2):  سپریم کورٹ کسی سوال پر غور کرے گی جس کا حوالہ دیا گیا ہو اور اس سوال پر اپنی رائے صدر کو پیش کرے۔صدر مملکت نے یہ ریفرنس 23دسمبر 2020کو سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے 4 جنوری کو پہلی سماعت کی، ریفرنس کی 20 کے قریب سماعتیں ہوئیں۔پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان کی صوبائی حکومتوں، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ نے اوپن بیلٹ کی حمایت کی، سندھ حکومت نے مخالفت کی اسی دوران 6فروری کو کابینہ سے الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021کی منظوری بھی لے لی گئی۔

عدالت نے پیپلز پارٹی، پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز، مسلم لیگ ن، جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی سمیت وکلاء تنظیموں کا موقف بھی سنا۔ چیف الیکشن کمشنر کا ایک ہی موقف رہا اگر سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے ہیں تو آئین میں ترمیم کرالی جائے۔یاد رہے آئین پاکستان کے آرٹیکل 226 کے تحت ملک میں ہر قسم کے انتخابات (ماسوائے وزیراعظم اور وزیراعلی)  خفیہ رائے شماری ہی سے ہونگے۔

اور یہی موقف الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں زیر سماعت صدارتی ریفرنس میں جمع کروایا تھا۔بالآخر سپریم کورٹ نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ یا خفیہ بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوں گے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے جمعرات 25فروری کو آئین کے آرٹیکل 186کے تحت دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس پر فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے سوال صرف آرٹیکل 226 کے نفاذ کا معاملہ ہے، کیا وجہ ہے کہ انتخابی عمل سیکرپشن کے خاتمے کے لیے ترمیم نہیں کی جا رہی؟ انتخابی عمل شفاف بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں۔ اگر حکومت وقت شفاف اور اوپن ووٹنگ کے ذریعہ سے انتخابات کروانے میں واقعی سنجیدہ تھی تو حکومت وقت کو اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر اک آئینی ترمیمی بل لانا چاہئے تھا اور چونکہ آئین میں ترمیم کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں دو تہائی ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ مطلوبہ ممبران کی تعداد حکومت وقت کے پاس بالکل بھی نہیں،مگر کیا ہے کہ ہمارے کپتان جناب عمران خان صاحب تو اپوزیشن کا نا م سنتے ہی آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔

اور NRO   نہیں دونگا NRO   نہیں دونگا کی آوازیں بلند کرنا شروع کردیتے ہیں۔
 اک نظر سپریم کورٹ میں دائر صدارتی ریفرنس پر دوڑاتے ہیں، صدارتی ریفر نس میں کہا گیا تھا کہ ماضی میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت نہیں کروائے گئے، اوپن بیلٹ سے سینیٹ الیکشن میں شفافیت آئے گی، خفیہ ووٹنگ کے سبب سینٹ الیکشن کے بعد شفافیت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں، خفیہ ووٹنگ سے ارکان کی خرید و فروخت کیلئے منی لانڈرنگ کا پیسہ استعمال ہوتا ہے۔

ریفرنس میں آئین میں ترمیم کے بغیرخفیہ بیلٹ سے متعلق شق میں ترمیم پررائے مانگی گئی ہے، صدارتی ریفرنس میں رائے مانگی گئی ہے کہ آئین میں سینیٹ انتخابات کا واضح طریقہ موجود نہیں۔صدارتی ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 226 کی تشریح کرے،سپریم کورٹ رائے دے کہ کیا سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے ہوسکتے ہیں؟۔سپریم کورٹ کے سوموار کی صبح رائے نما فیصلہ کے اثرات سے  6فروری کو کابینہ سے منظور کرویا گیا الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021  جو کہ سپریم کورٹ کی رائے سے منسلک تھا وہ بھی متاثر ہوچکا ہے اور اب سپریم کورٹ کی رائے کے بعد یہ ترمیمی صدارتی آرڈنینس بھی خودبخود اپنی موت آپ مگر چکا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ حکومت وقت سینٹ الیکشن کے سلسلہ میں آئین پاکستان میں بالکل واضح طریقہ کار کے برخلاف سینٹ الیکشن چاہتی تھی، بظاہر حکومت کا موقف یہی تھا کہ وہ کسی بھی قسم کی کرپشن اور Horse Trading   سے پاک سینٹ الیکشن چاہتے ہیں، لیکن ماضی قریب میں دیکھا جائے تو اپوزیشن کی موجودہ سینٹ چیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد بہت ہی بُرے طریقہ سے ناکام ہوئی باوجود اسکے کہ اپوزیشن اتحاد کے پاس اُس وقت بھی 60   سے زائد ارکین سینٹ کی برتری حاصل تھی مگر مروجہ (خفیہ ووٹنگ کے)  طریقہ انتخاب ہی کے تحت اپوزیشن اتحاد کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا،  اور اسی طرح 2018   کے سینٹ الیکشن میں صوبہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نون کی واضح عددی برتری کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ موجودہ گورنر پنجاب چوہدری سرور سینیٹر منتخب ہوگئے تھے۔

کہیں حکومت وقت کو اپنے دور حکومت میں وہی خطرات لاحق تو نہیں یا اُسی طرح کے وسوسے تو تنگ نہیں کررہے کہ جس طرح چوہدری سرور سینیٹر منتخب ہوئے اور(اپوزیشن کی پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ)  چیرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی،شاید حکومت وقت کو ڈر لگا ہوا کہ کہیں وہی خفیہ کرامات انکی حکومت میں بھی منظر عام پر نہ آجائیں۔

ایک طرف حکومت وقت سینٹ انتخابات کو کرپشن سے پاک کروانے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور دوسری طرف ایم اپی ایز کے لئے کڑوروں کی گرانٹ کے اعلان بھی کئے جارہے ہیں (اور یہ اعلانات سپریم کورٹ کے نوٹس کی بناء پر اپنی موت آپ مرگئے)۔سپریم کورٹ کے رائے کے بعد اپوزیشن اسکو آئین کی فتح قرار دے رہے ہیں جس میں کوئی شک بھی نہیں ہے، دوسری طرف حکومت وقت ابھی بھی اپنی ہار تصور نہیں کررہی۔

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا سینیٹ انتخابات کے حوالے سے آج کا فیصلہ تاریخی ہے، الیکشن کمیشن سے درخواست ہے کہ آج کے فیصلے کی روشنی میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرے۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ ہم اس نظریے کے تحت نکلے تھے کہ ہمارے معاشرے میں شفافیت ہو، لوگ ووٹ عمران خان اور ان کے نظریے کو دیتے ہیں امیدوار کو نہیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن پر کسی قسم کا دباو نہیں ڈال سکتے، درخواست ضرور کرسکتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف ہی کے رہنما، سینیٹر فیصل جاوید خان  کا سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق کہنا ہے کہ آج کا فیصلہ پاکستان کی جیت ہے، شفافیت کے لیے زبردست فیصلہ ہے،  عدالت کا فیصلہ زبردست ہے۔فیصل جاوید خان نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ معزز عدالت نے مختصر رائے دے دی ہے، تفصیلی فیصلہ بھی جلد آجائے گا، آئین کے اندر سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار نہیں دیا گیا، عدالت سے آرٹیکل 226 کی تشریح مانگی تھی۔

سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ آج سے پہلے سینیٹ الیکشن پر اتنی تفصیلی گفتگو نہیں ہوئی،  پہلے کروڑوں روپے خرچ کرکے ووٹ خریدے جاتے تھے، ماضی میں سینیٹ کے الیکشن میں پیسہ چلتا رہا، اپوزیشن ضمیر کا سودا کرتی ہے۔فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ عمران خان شفافیت چاہتے ہیں، اپوزیشن دو نمبری چاہتی ہے، عمران خان سینیٹ کے انتخابات میں کرپشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں، وزیر اعظم عمران خان نے پیسے لینے پر اپنے 20 ایم پی ایز کو فارغ کیا، آئین کہتا ہے انتخاب شفاف صاف ہوں، آئین سازی پارلیمنٹ کرتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ایم پی اے بہت زبردست ہیں، اپوزیشن کے چہرے پر بوکھلاہٹ ہے۔سینٹ الیکشن کے موقع پر حکومت اوراپوزیشن کی اس جنگ عظیم میں عوام کس طرح سوچ رہی ہے اورعوام الناس کی اس وقت تنقیدی نظریں اس وقت سینٹ الیکشن کا میدان جیتنے میں مگن حکومت اور اپوزیشن کی طرف مرکوز ہیں کہ وہ عوام الناس فلاح و بہبود کے لئے کون کون سے عملی اقدامات اُٹھارہے ہیں۔

سب سے حیران کن بات یہ بھی ہے کہ پنجاب کی تقریبا تمام نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بالمقابلہ منتخب بھی ہوچکے ہیں اور سب سے بڑھ کر پاکستان مسلم لیگ ق جن کے پاس اپنا ایک سینٹر منتخب کروانے کے لئے پنجاب اسمبلی میں مطلوبہ ایم اپی ایز کی تعداد بھی نہیں تھی انہوں نے بھی اپنا اک سینٹر بالمقابلہ منتخب کروا لیا ہے۔

یہ کونسی سائنس ہے یا کونسا کرشمہ ہے کہ سب کے ممبران ہنسی خوشی بالمقابلہ منتخب بھی ہوچکے ہیں مگر اوپر اوپر سے کروڑوں روپے کی کرپشن کا الزامات بھی لگائے جارہے ہیں۔عوام الناس کو اس سے بالکل کوئی غرض نہیں کہ Horse Trading   ہو یا پھر Donkey Trading  ہو۔مہنگائی سے پسی ہوئی عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ سینٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے کروائے جائیں یا پھر سرعام رائے شماری سے۔

عوام الناس کو اس سے بالکل کوئی غرض نہیں کہ سینٹ کا الیکشن حکومت جیتے یا پھر اپوزیشن اتحاد۔عوام الناس کی اس وقت بنیادی تر جیحات سستی بجلی، سستی گیس، سستا آٹا، سستی چینی، سستا پٹرول، سستی سبزیاں، سستے گوشت، سستا گھی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کا حصول ہے۔ملکی تاریخ کے بلند ترین افراط زر نے عوام الناس کا جینا دوبھر کردیا ہے۔بچت تو دور کی بات ایسا لگتا ہے کہ اک عام پاکستانی ہر مہینے بجلی و گیس کے بل جمع کروانے کے لئے مزدوری یا نوکری کر رہا ہے۔موجودہ حالات میں الیکشن حکومت جیتے یا پھر اپوزیشن اتحاد، شکست توبظاہر بہرحال عوام الناس کی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :