بقا کہیں فنا نہ بن جائے!!

پیر 28 اکتوبر 2019

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

مولانا فضل الرحمن صاحب کو الیکشن 2018 کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اسی سے ملتی جلتی حالت ان کی 2013 کے انتخابات میں بھی تھی البتہ مرکز میں وہ خود بھی موجود تھے جبکہ ان کی مسلم لیگ ن سے حکومتی شراکت داری بھی ھو گئی تھی اس کے باوجود مولانا فضل الرحمن خیبر پختونخوا میں توڑ پھوڑ کے لیے تیار تھے تاکہ مشترکہ حکومت کے مزے لوٹے جائیں میاں نواز شریف کی دانش تھی یا عمران خان سے ھتھ ھولا رکھنے کی امید انہوں نے دونوں صورتوں میں مولانا فضل الرحمن کو روک دیا۔

مگر مولانا کے اندر عمران خان کے خلاف اؤل دن سے حسد موجود تھا بلکہ سب مل ملا کر یہودی ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے اور وہ وقت آ گیا کہ سب جماعتوں کو عمران خان کے چیلنج کا سامنا ھو گیا پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی عمران خان کے نوجوان انقلاب میں بہہ گئے۔

(جاری ہے)

کراچی اور سندھ میں بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بعد عمران خان کا کرشمہ عروج پر پہنچ گیا نواز شریف حکومت کے دوران ھونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی پوزیشن نے پرانے سیاستدانوں کی چولیں ہلا دیں۔

اج مولانا فضل الرحمن صاحب اسی ناکامی کے بعد بقا کی جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوئے تو اس کی وجہ عمران خان کے وہ وعدے بھی شامل ہیں جو وہ کمزور معیشت کی وجہ سے یا بغیر منصوبہ بندی کے اقتدار کی بھاگ ڈور سنبھالنے کا نتیجہ ہے کہ مولانا کو موقعہ مل گیا اور وہ بقا کی جنگ میں پہلی مرتبہ ملک گیر مارچ کی آزمائش سے گزر رہے ہیں مگر حیرت اور قدرے دکھ کی بات یہ ہے کہ انتہائی بائیں بازو کی جماعتوں اے این پی اور پیپلز پارٹی نے بھی مولانا فضل الرحمن کا ھاتھ بلکہ" ھمیں بچا لو مولانا "کہہ کے پاؤں بھی  پکڑ لیے اب باچا خان کی جماعت اور بھٹو کے لبرل نظریات کو رواج دینے والے انتہائی دائیں بازو کی جماعت اور قدر جہادی پس منظر رکھنے والے گروہ کے ساتھ کیسے مل گئے؟ کیا یہ بقا میں فنا کی جنگ نہیں ھے؟ کم ازکم خیبر پختونخوا کے عوام ان سے ضرور پوچھیں گے۔

نظریہ اگر اسی طرح سمجھوتہ کرتا رہا تو پھر کوئی کسی کا کیا یقین کرے گا دوسروں کو یو ٹرن کا طعنہ دینے والے اپنی بنیادیں ہلا کر سرخ ٹوپی مولانا کے قدموں میں رکھ چکے ہیں اور اسلام آباد پہنچنے کی جلدی میں ھیں۔اقتدار کی بے قراری کبھی کبھی بے نقابی کا ایندھن بن جایا کرتی ہے۔اب سبز لیگ کو ھی دیکھیں جمعیت ھند کے پاکستان مخالف جذبات اور اس پر مولانا فضل الرحمن کی خاموشی کی طویل تاریخ اور خلیج کے باوجود مسلم لیگ ن بھی مولانا کے مقتدیوں میں شامل ہے اگر حکومت میں نظریہ  ضرورت ھوتا ھے تو یہاں پھر نظریات مفادات وہ بھی ذات کے گرد گھوم رہا ہے۔

فکری یا نظریاتی پرچار کم ازکم اے این پی اور پیپلز پارٹی کو چھوڑ دینا چاہیے۔مولانا کا نظریہ اسے لال شہباز قلندر پہنچا دیتا ہے مگر قائد اعظم کے مزار پر حاضری یا دعا کے لیے تحریک نہیں دیتا ۔اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی نظریاتی اور فکری جماعت نہیں ہے بلکہ سب کھیل اقتدار اور مفادات کا ھے بھلا ہو عمران خان کا جنہوں نے دیر کر دی یا دیر ھو گئی تو ان کا میلہ کامیاب ہو رہا ہے۔

اس میں مہنگائی سب سے بڑی وجہ ھے البتہ کچھ جماعتوں کو بقا کی جنگ میں فنا بھی مقدر بن سکتا ہے۔دیکھیں سرخ ٹوپیاں اتر کر عمامے کی برکتوں سے فیضیاب ھوتی ھیں یا فنا ھو کے بے نقاب! آنے والا وقت بہترین پیمانہ ھو گا۔ ابھی تو میاں نواز شریف کی صحت کی مشکلات نے آزادی مارچ سے گرما گرمی نکال دی ھے۔اسلام آباد پہنچ کر مولانا کے مقاصد پورے ھوں گے یا بے نقاب ھوں گے یہی منظر مؤرخ کا باقی ھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :