بھگوان اور شیطان۔۔۔۔!

بدھ 16 دسمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

بھارت کے مشہور کرکٹر اور سابق رکن اسمبلی نوجیت سنگھ سدھو نے کسانوں کے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ'"مودی یہ نہیں جانتے کہ بھگوان اور شیطان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے" بھارت میں کسانوں کی تحریک کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر زبردست حمایت ملی ہے تمام اپوزیشن جماعتوں، ٹریڈ یونینز اور ٹرانسپورٹ یونین ان کے ساتھ ھے، نریندرا مودی نے "ھندوتوا" کے نظریے کے تحت اقلیتوں، جن میں مسلمان، سکھ، عیسائی، دلت اور دیگر مذاھب کے لوگ شامل ہیں کے خلاف قوانین بنائے، آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کے ذریعے کچلا گیا، کشمیری عوام اور کشمیر کی خصوصی حیثیت پر حملہ کیا، ان قوانین اور بی جے پی حکومت کے اقدامات کے خلاف پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے جس دن آواز اٹھائی اس دن سے دنیا بھر میں مودی کو لوگ فاشسٹ، نازی ازم کا پیرو کار، نسل پرست اور ظالم کے نام سے جانتے اور لکھتے ہیں، آپ دنیا کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں عمران خان کی اس آواز کو اقوام متحدہ، عالمی فورم اور بھارت کے اندرونی حالات سے جب تجزیہ کیا تو وہ اس بات پر پوری طرح قائل ہیں کہ مودی نفرتوں کا مجسمہ ھے، دنیا کے کمرشل مفادات اور علاقائی بالادستی کے عزائم ھمیشہ حق کے راستے کی رکاوٹ بنتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ بھارت کی گلی گلی میں اب نفرت گھاس کی طرح آگ رہی ہے ، کاٹی جاتی ہے، پھر آگ آتی ہے جڑ  سےاکھاڑنے کے لیے آبادیوں کی آبادیاں مسمار کرنی ہوں گی، تب تک اس آواز کو کسان تحریک کی طرح مقام اور منزل مل چکی ہو گی،  دہلی کی سنگھوڑ بارڈر پر بھارتی کسانوں کا دھرنا طویل ھوتا جا رہا ہے، اس مظاہرے میں اب خواتین بھی شامل ھو چکی ھیں ابھی تک مذاکرات ناکام ھو رہے ہیں، کسانوں کا زیادہ تر تعلق پنجاب سے ہے، جو بھارت کا زرعی مرکز اور اربوں انسانوں کی خوراک کا ذریعہ ہے، کسانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حالیہ زرعی قوانین واپس لیے جائیں ، ترامیم بھی قبول نہیں، بینکوں کے قرضے جو مدتوں سے کسانوں پر لٹکتی تلوار کی طرح ہیں ان کو معاف کیا جائے، فصلوں کا معاوضہ دیا جائے اور آبپاشی کے لیے دریا کاویری سے پانی مہیا کیا جائے، ایک خاتون کسان انسانی کھوپڑیاں لے کر مظاہرے میں آئی اور بتایا کہ یہ وہ کسان ہیں جو بینکوں اور حکومت کی طرف سے تنگ کیے جانے پر خودکشیاں کر چکے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق 1995 سے لیکر 2016ء تک تین لاکھ کسانوں نے ظالمانہ قوانین اور بینکوں کے چھاپوں کی وجہ سے خود کشیاں کی ہیں مظاہرے میں شامل ایک رہنما نے بتایا کہ صرف پنجاب میں 2000 سے ،2015 تک 16000 ھزار کسانوں نے خود کشیاں کی ہیں، یہ  پنجاب کا وہ کسان ہے، جو زرعی اجناس کو  دنیا تک پہنچانے کا ذریعہ بنا، ایک بات بہت اہم ہے کہ پنجاب کے ان کسانوں میں اکثریت سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی ھے، جس سے منافرت اور بڑھ رہی، کہتے ہیں جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو کوئی خطرناک ترین سوچ ہی پروان چڑھتی ہے، بھارتی حکومت اور فوج نے نہ صرف بھارت اور کشمیر میں مظالم ڈھائے بلکہ پاکستان کے اندر دھشت گردی کو فروغ دیا، بلوچستان میں آگ لگائی، اور افغانستان میں ایک پورا نیٹ ورک تیار کیا، اس لئے اب بھارت کو خود اندرونی مسائل کا سامنا ھے، بلکہ اسی کسان تحریک میں سکھ رہنما ڈاکٹر آمریت سنگھ نے پاکستانی میڈیا، اور اداروں سے ہندوتوا کے خلاف مدد کی اپیل کر ڈالی، خالصتان تحریک کے نعرے بھی لگے، یہ وہ گڑھا ہے جو بھارت نے دوسروں کے لیے کھودا تھا وہ خود اس میں گر گیا،  بات یہاں تک نہیں روکی بلکہ کینڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کسانوں کی حمایت کا اعلان کیا، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹونیو گوٹیرس نے بھارتی حکومت کو تنبیہ کی کہ پرامن مظاہرین کو احتجاج کا حق دیں، برطانیہ کی مختلف سیاسی جماعتوں کے 36 اراکین نے وزیر خارجہ ڈومینک راب کو مظالم روکنے کے لیے خط لکھا، سینکڑوں افراد نے وسطی لندن میں بھارتی ھائی کمیشن کے سامنے مظاہرہ کیا، امریکی شہر سان فرانسسکو میں لاکھوں سکھ بستے ہیں، ایک سفر نامہ نگار نے لکھا تھا کہ یہاں ہر قماش، اور ہر علاقے کے لوگ آباد ہیں لیکن سکھ اور ہندو زیادہ ہیں جو کبھی محنت مزدوری کے لیے آئے تھے مگر اب یہیں کے ہو کر رہ گئے، ان لاکھوں غیر ملکی بھارتیوں نے کسانوں کے حق میں مظاہرے کیے، یہ پہلی ایسی تحریک ھے جو بین الاقوامی سطح پر بھی پھیل چکی ہے، پہلا میڈل جیتنے والے باکسر وجیندر سنگھ نے ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا، 1980 ء کے اولمپک میں گولڈ میڈل جیتنے والے ہاکی سٹار گرمیل سنگھ نے ایوارڈ واپس کرنے کے لیے صدر سے وقت مانگ لیا، کسان کہتے ہیں کہ ان قوانین سے بھارتی فوڈ سیکیورٹی، کھیتی، اور کسانوں کی بربادی کا خطرہ ہے، اس تحریک کی گونج بھارت کی ہر ریاست تک پہنچ گئی ہے، اڑیسہ، جہار کھنڈ، کولکتہ، اور کئی ریاستوں میں مظاہرے جاری ہیں، کوئی حل نکلتا ہے یا نہیں نکلتا دونوں صورتوں میں ایک نئی لیڈر شپ، نئی آواز اور ھندوتوا کے خلاف منظم جدوجہد جنم لے چکی ہے جس کے اثرات ختم نہیں ھوں گے جو مودی اور بھارت کے لئے خطرے کا الارم ھے، کیونکہ بقول سدھو  بھگوان اور شیطان ایک جگہ نہیں رہ سکتے، تو رحمان کو ماننے والے شیطان کے ساتھ کیسے رہیں گے۔

؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :