چائے اور پیزا

پیر 25 جنوری 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

کسی نے کہا تھا کہ کراچی میں اتنی ہی گرمی پڑتی ہے، جتنی مری میں سردی، اجکل  سیاست دان اتنے ہی گرم ہیں  جتنے عوام  سرد ہیں، یہی ہوا پی ڈیم ایم کے ساتھ، کراچی میں کہا ھم آرہے ہیں، لاڑکانہ میں چیخے ھم اسلام آباد آنے والے ہیں، لاھور میں صدا لگائی ھم آرہے ہیں، آخر الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج میں عوام آئے نہ بلاول، مولانا فضل الرحمان صاحب سخت پریشانی کے عالم میں، مریم نواز کی سٹی گم، زرداری صاحب اتنے ہی سیانے ہیں جتنے میاں صاحب بھولے، اور مولانا صاحب اور محمود اچکزئی اتنے ہی گرم جتنے بلاول کول، کسی نے جملہ چست کیا، میرا یہ بھرم تھا کہ میرے پاس تم ھو، وہ بھرم مولانا صاحب کا ٹوٹ گیا، سب سوچ میں پڑھ گئے نہ چائے ھاتھ آئے گی نہ پیزا اب کیا کیا جائے، محمود اچکزئی سے کہا چلو گودام ہی لوٹ لیتے ہیں سو کچھ ھاتھ آیا یا نہیں آیا لیکن چلے گئے، ویسے وہ آئیں گے ضرور۔

(جاری ہے)

1965ء کی جنگ میں انڈیا نے اعلان کیا تھا ھم چائے اور ناشتہ لاھور آکر کریں گے، پھر بے چارے سترہ دن بھوکے پیاسے واپس دوڑ گئے اور کچھ مردے چھوڑ گئے، پیزا کھانے کے چکر میں ہوتے تو امرتسر بھی گنوا بیٹھتے، مولانا صاحب نے کہا کہ ھم راولپنڈی آ رہے ہیں، جواب ملا چائے پلا دیں گے، وہ تو مولانا صاحب پیزا کھانے کے چکر میں پڑ گئے، اور بس چائے سے بھی ھاتھ دھو بیٹھے، ویسے آپ نے دیکھا ہوگا موچھوں والی سرکار ابھی نندن کو کیسے چائے پلائی گئی تھی چائے بھی پی ، خون کے آنسو بھی پئیے، چائے عمران خان بھی پلاتا ہے، لیکن ساتھ لڈو نہیں دیتا ایک تو اس کی پسلی نہیں دوسرا لوگ اسے اصلی اور نسلی پسند ہیں، وہاں بھی بسکٹ بڑی مشکل سے ملتے ہیں وہ بی بی کہاں گئیں جو اسٹیٹ بینک کی چابیاں بھی  آپ کو دینا چاہتی تھیں  ایک دور تھا کہا جاتا تھا کہ جہاں دال ، وہاں مولانا کی ہڑتال، جہاں حلوہ، وہاں جلوہ، اب تو پیزے کا دور ہے، مرغن غذاؤں اور سری پائے والے،" لال شربت والے " سیخ کباب والے، شربت بادام والے، اور تو اور پان بھی مولانا کے اسے پاسے ہیں، اتنا تکلف کون کرے گا سری پائے، نہاری،اور ایک زرداری، نہیں یہ اچھا کنبنشن نہیں ہے،  ویسے کیا ھوا جو الیکشن کمیشن کے سامنے نہ لوگ آئے نہ وہ آئے !جن کا بس انتظار تھا، آئیے آپ کا انتظار تھا، اور وہ آتے آتے رہ گئے، پہلے کہتے تھے، پہ استعفے ہوں گے پھر لانگ مارچ، اب پہلے ضمنی انتخابات، پھر سینٹ انتخابات اور پھر لانگ مارچ، پھر استعفے، توبہ ھے،
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو،
ناحق  خون پروانے  کا ہوگا۔

۔۔۔۔۔
اتنا لمبا  انتظار پریشان عوام نہیں کرسکیں گے، چھوڑیں پیزا آپ کو ادھر ہی بھجوا دیا جائے گا آپ تشریف لائیں، لائیو فارن فنڈنگ کیس سنا جائے گا عمران خان سامنے ہوگا خوب بھڑاس نکالیں، یہودی ایجنٹ کا نعرہ لگائیں، دیکھتے ہیں کون کس کا جواب دے گا، ویسے سردی میں گرما گرم چائے ٹھیک تھی  مولانا صاحب  آپ کو چائے کی آفر قبول کرنی چاہیے تھی، آپ کے بغیر پنڈی، اسلام آباد اور جمہوریت کیسے چل سکتی ہے؟ فقہی مسائل پر فتوے سنے تھے اب سیاسی فتوے بھی آنے لگے ہیں بڑے کہتے ہیں کہ کوئی اگر گالیاں دینا شروع کر دے تو سمجھ لیں مایوس ھے، یہودی ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے، پھر سوچ لیں  اس قدر مایوسی سے لگتا ہے کوئی ٹھوکر نہ لگ جائے۔

اب شیخ رشید نے کشمیری چائے اور دیسی گھی کے حلوے کی آفر کی ھے، مولانا صاحب کو اس پر سوچنا چاہیے، شیخ رشید نے کہا کہ مولانا کا مزار قائد پر حاضری اور خطاب کو "قیامت کی نشانی" قرار دیا چونکہ مولانا کے اکابر تو قائد اعظم کو مانتے ہی نہیں تھے بلکہ مانا تو پاکستان کو بھی نہیں تھا ، وہ کہتے ملا کی دوڑ مسجد تک، یہاں مسند اقتدار کو مولانا مسجد سمجھ کر ہی دوڑ لگاتے ہیں، اکثر پہنچ جاتے تھے صرف اس دفعہ رہ گئے اس لئے نہ حلوہ ھضم ہو رہا ہے، نہ چائے اچھی لگ رہی ہے، اب پیزا تھوڑا مہنگا ہے کیا کیا جائے، بڑوں کو سوچنا چاہیے کہ پیزا کھانے دیں کیا پتہ مولانا ٹھیک ھو جائیں ، ھمارے ایک دوست اچھے خاصے بسیار خور اور گوشت کے پکوان پسند کرتے ہیں، ساتھ جیب میں سوڈا رکھا ھوتا ھے، مولانا نے بھی ھضم کرنے کا کوئی حکیمی یا قدیمی نسخہ رکھا ھوگا دیکھیں کیا ہوتا ہے، میرے خیال تحریک عدم اعتماد تک آجائیں گے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :