معیشت کہانی، سچ کیا ہے؟

منگل 8 جون 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

  اب نوجوان مذاق میں بزرگوں سے کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ 73 سال سے یہ سنتے س رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت، سلامتی، جمہوریت اور اسلام خطرے میں ہے، اب اس سوچ کو تبدیل ہونا چاہیے، اصل کہانی یہ ہے کہ 1948ء سے لے کر پاکستان کا بجٹ خسارے کا بجٹ ہے، بھٹو صاحب کی حکومت کے ایک سال میں بغیر خسارے کے بجٹ پیش کیا گیا، جب لیبیا کی امداد بھٹو حکومت کو حاصل تھی، یہاں جنرل ضیاء الحق، میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت کے میں بیرونی امداد اور ڈالروں کے دھانے بھی کھلے، مگر بجٹ خسارے میں ہی رہا، تو پھر کس طرح کوئی کہہ سکتا ہے کہ ھم نے معیشت کی ترقی میں بڑا کمال کیا، ھم زیادہ دور نہیں جاتے، شوکت ترین قدرے غیر جانبدار اور دیانتداری قسم کے آدمی ہیں اور سوچ کر بیان دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی حکومت اور اسحاق ڈار کی غلط  معاشی پالیسیوں کی وجہ سے آج عمران خان اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے، اس سے قبل ڈاکٹر اشفاق حسن اپنی کتاب میں لکھ چکے ہیں کہ 1990ء سے لے کر 2016ء کے دوران پرویز مشرف حکومت نے سب سے کم قرضے لئے جبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے قرضوں کا حجم خطرناک ترین حد تک بڑھا ہے، میاں نواز شریف اور ان کے کئی دانشور احسن اقبال اسحاق ڈار اور مریم نواز کہتے رہے کہ  ھم معاشی گروتھ 5 فیصد تک لائے، 313 ارب ڈالر تک کی ترقی عمران حکومت 296 ارب ڈالر تک لے آئی، مسلم لیگ ن یہ بھی کہتی ہے کہ عمران خان کی حکومت نے سب سے زیادہ قرضے لئے، حقیقت۔

(جاری ہے)

حال یہ ہے کہ نواز حکومت اور پیپلز پارٹی نے  30 ارب ڈالر تک قرضے لئے، ملک میں جو بھی منصوبہ لگایا وہ غیر پیداواری اور خساروں پر مشتمل تھا، توانائی کے منصوبوں میں آئی پی پیز کے ساتھ انتہائی غیر منافع بخش معاہدے کیے، آئی پی پیز کو قرض کی ادائیگی گزشتہ دس سال میں نہیں ہوئی جس کی وجہ سے گردشی قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا، بجلی مہنگی ہوتی گئی، عوام مہنگائی میں پستے رہے، ڈالرز کو مصنوعی بریک لگا کر سیاسی فائدے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، دوسری طرف ملک میں صنعت بند اور برآمدات میں خطرناک حد تک کمی آگئی، نہ آئی پی پیز کو ادائیگی ھوئی، نہ بیرونی قرضے کی قسطیں واپس کی گئیں، اور نہ کوئی ایسا منصوبہ لگایا جو آمدنی بھی دیتا ھو، پھر اس صورتحال میں مفتاح اسمعیل، اسحاق ڈار، یا میاں نواز شریف کس طرح کہتے ہیں کہ ھم ترقی کرتا ہوا پاکستان چھوڑ گئے، آئی پی پیز سے موجودہ حکومت نے تمام معاہدے نظر ثانی کے بعد ڈالرز کی بجائے روپے میں کیے، وہ بھی 15 فیصد منافع میں، گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لیے عمران حکومت نے آئی پی پیز کو ادائیگی کا فیصلہ کیا، پاکستان حکومت نے آئی پی پیز کا 4 کھرب روپے دینا ہے، جو اس وقت سب سے بڑا بوجھ ہے، اب آئی پی پیز کو بڑے عرصے بعد 40 فیصد ادائیگی کر دی گئی ہے جو 59 ارب کے قریب ہے، باقی 60 فیصد ادائیگی چھ ماہ بعد کرنی ہے جس سے گردشی قرضے کم ھوں گے، موجودہ حکومت جی ڈی پی گروتھ ریٹ 4 فیصد تک لے آئی، ترسیلات زر کئی فیصد بڑھ چکے ہیں ڈالرز کی قیمتیں تیزی سے نیچے آ رہی ہیں، کسانوں کو ایک فائدے مند زرعی پیکچ دیا گیا جس سے گندم کی تاریخی پیداوار ہوئی ہے، برآمدات میں، پیداوار میں اضافہ ھوا عالمی ادارے کورڈ کے باوجود معاشی ترقی پر حیران ہیں، تجارتی خسارہ کم ھوا ھے معصولات میں 4100 ارب روپے کا ریکارڈ اضافہ ھوا، اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ھے، بیرونی قرضوں کی قسطیں بھی سود کے ساتھ ادا کی گئی ہیں، جس سے عام آدمی کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے، آئی پی پیز کو ادائیگیوں سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور قیمتوں میں کمی ہوگی یہ وہ سال ھے جہاں عوام کے لیے بہتر ہو گا، یہ عمران کہتے ہیں ، شوکت ترین اور اسد عمر کا فرمان ہے، عمران خان ایک غیر روایتی سیاستدان ھےاور کام نظر آنا شروع ہو گیا ہے ٹیکسٹائل، تعمیراتی اور سیمنٹ کی صنعتوں کی پیداوار اور برآمدات و تجارت میں نمایاں اضافہ ھوا، کیا یہ پالیساں درست نہیں  ہیں دیکھنے میں  آیا ہے کہ مفتاح اسمعیل جو اسٹیل مل اور پی آئی اے مفت دینے  کا اعلان  کرنے والے تھے وہ تنقید کر رہے ہیں، ماضی ان کا گواہ ہے، شوکت ترین کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط پر بھی سمجھوتہ نہیں کیا گیا، 140 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، بجٹ میں عوام کو ایک بڑا ریلیف ملے گا، سیاسی استحکام اور بیرونی سطح پر حالات اچھے رہے تو اس سال حکومت اپنے ٹارگٹ حاصل کر لے گی.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :