قومی سلامتی پالیسی اور معیشت!

ہفتہ 15 جنوری 2022

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

وزیراعظم عمران خان نے پہلی قومی سلامتی پالیسی کا اجراء کر دیا، افسوس ناک امر یہ ہے کہ ماضی کی کسی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی، جس ملک کی کوئی پالیسی ہی نہ ہو، اس کے مستقبل کے خدو خال واضح نہیں ہو سکتے، اس لحاظ سے یہ پہلی بڑی کوشش ھے اگرچہ لوگوں کا خیال ہے کہ ھمارے ھاں پالیسیاں بنتی ہیں اور عمل نہیں ہوتا مگر صرف اس دلیل پر ہر حکومت اور ادارے کو الزام نہیں دیا جا سکتا، یہاں تو خارجہ امور کے لیے گزشتہ حکومت میں کوئی وزیر بھی نہیں رکھا گیا، وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ معیشت قومی سلامتی کی ضامن ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشی استحکام کے بغیر قومی سلامتی  پر کئی سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں، اسی بات کو میڈیا نے زیادہ اٹھایا ہے اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ موجودہ حکومت نے کوئی سمجھوتہ کر دیا  ہے، مگر یہی حقیقت ہے کہ پاکستان گزشتہ 75 سال میں آزاد پالیساں تشکیل نہیں دے سکا، آپ ماضی میں دیکھیں سوویت یونین کے ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ معاشی زبوں حالی تھی، یہاں تک کہ سلطنت عثمانیہ کے  کمزور معیشت کی وجہ سے  حصے بخرے ہوئے، دنیا میں جتنے ممالک آج پسماندگی کا شکار ہیں ان کی بڑی وجہ بدعنوان حکومتیں اور کمزور معیشت ھے، افریقہ کے کئی ممالک انہی وجوہات کا شکار ہیں، وزیراعظم عمران خان نے یہ بات اسی تناظر میں کی ھے کہ، آج ہمیں آئی ایم ایف کی وجہ سے شرائط ماننی پڑتی ہیں تو اس کے پیچھے ایک دن، کچھ سال کی کہانی نہیں ہے بلکہ ماضی کی حکومتیں بھی برابر کی شریک ہیں، جمہوری اور آمرانہ دونوں طرز حکمرانی میں ملکی وسائل، پیدوار اور زراعت پر بالکل توجہ نہیں دی گئی، قرض لینا، سبسڈی دینی اور درآمد کرنا یہی اصول معیشت رہا ہے، البتہ سیکورٹی کے نام پر خوب ڈالرز کے زمانے بھی آئے اس میں بھی یہ منصوبہ بندی نہیں کی جا سکی کہ کیسے ملک کی صنعت، پیدوار اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے، ؟
  موجودہ حکومت کو اس کے لیے نہایت مشکل فیصلے کیے بھی اور مزید بھی کیے جا رہے ہیں،  آج اقوام متحدہ نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ھے کہ پاکستان کی معیشت کورونا کے باوجود چار فیصد کے ساتھ ترقی کر رہی ہے، اور آئندہ سال یہ 5 فیصد گروتھ تک پہنچ جائے گی، جو ایک اچھی خبر ہے، ھم آج معیشت کو سامنے رکھ کر درست تجزیہ کریں تو آپ کو غلطیاں اور اب کامیابیاں صاف نظر آئیں گی، اس وقت پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری 36 بلین ڈالر کے اڈرز کے ساتھ پراگریس کر چکی ہے، جہاں تقریباً 50 لاکھ روزگار پیدا ھوا ھے، چاول کی وہ تجارت جیسے بھارت نے تباہ کر کے رکھ دیا تھا اور پاکستانی۔

(جاری ہے)

چاول انڈیا کے لیبل سے باہر جاتا تھا، حکومت نے وہ درجہ واپس حاصل کر کے برآمدات چار بلین ڈالر تک پہنچا دی ہیں، موبائل کی صنعت اور گاڑیوں کی میک ان پاکستان پالیسی کے تحت تقریباً 1.5 بلین ڈالر اور گاڑیوں میں سے 2 بلین ڈالر حاصل ھو رہے ہیں، سیمنٹ، سرجیکل آلات، سپورٹس گڈز، تعمیراتی شعبے کی ترقی اور دفاعی آلات کی برآمد میں بھی کئی گنا اضافہ ھو چکا ھے، ترسیلات زر سے 36 بلین ڈالر حاصل کیے جا رہے ہیں، اس طرح کینو اور دوسرے پھلوں کی برآمدات اور زرعی پیداوار میں سالانہ کئی گنا اضافہ ھو چکا ھے، گردشی قرضوں کو کم کرنے کے لیے آئی پی پیز سے نظر ثانی شدہ۔

معاہدہ طے پا چکا ہے جس سے آئندہ بجلی کی پیداوار ی صلاحیت، اور حکومتی منافع میں اضافہ ھو گا، یہ معاہدے پہلے ڈالرز میں تھے، جن میں سے بارہ بجلی بنانے والی کمپنیوں سے روپے اور حکومتی منافع کے ساتھ نیا معاہدہ طے پا چکا ہے، جس سے بجلی سستی ہونے کا امکان ہے، یہ معاہدے اور اندرونی و بیرونی قرض پاکستان کے لیے موت کا پھندا تھا، جس کو غفلت، کرپشن یا نااہلی کچھ بھی نام دے دیں، پاکستانی معیشت میں برآمد اور درآمد میں بہت بڑا گیپ ھے، اگر ھم اس گیپ کو ختم کرتے ہیں تو ہی ھماری معیشت بہتر ہو گی، پاکستان تقریباً 2.50 بلین ڈالر کا ہر ماہ انرجی سیکٹر کے لیے تیل خریدتا ھے، جس سے بجلی بنتی ہے، 10 بلین ڈالر کی چائے درآمد ہوتی ہے، 12 بلین ڈالر میں میک اپ کا سامان درآمد ھوتا ھے، اسی طرح لگژری گاڑیاں، فوڈ، خوردنی تیل ارب ہا ڈالرز کا درآمد کیا جاتا ہے، صرف اسی گیپ کو ختم کرکے پاکستان بہت بڑے تجارتی خسارے سے نکل سکتا ہے، یہ وہ چیزیں ھو جن کے بغیر باآسانی گزارا کیا جا سکتا ہے، مگر ھمیں کیا ضرورت ہے، ھمیں حکمرانوں کو سامان عیاشی کے ساتھ ان کا" شملہ اونچا" رکھنا ضروری ہے، انرجی سیکٹر کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے ڈیمز ، گیس اور تیل تلاش کرنے کے لیے ماضی میں لائسنس تک جاری نہیں ہوئے، موجودہ حکومت نے دیا میر بھاشا ڈیم پر نہ صرف کام شروع کیا بلکہ تمام تنازعات بھی ختم کر دئیے ہیں، گیس اور تیل کی تلاش میں بڑی کامیابی ملی ہے، جس کے نتائج آنے والے سال میں ھوں گے، آپ جتنا کماتے ہیں اس سے دوگنا درآمدات، قرض پر سود بلکہ سود پر سود بھی ادا کرتے ہیں، موجودہ حکومت نے 38 ارب ڈالر قرض لیا تو 32 ارب ڈالر واپس بھی کردیا، جس میں سابقہ حکومتوں کا بقایا سود بھی 55 ارب ڈالر کی ادائیگی تک پہنچ جائے گا، اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، اس وقت سرمایہ کاری، ترسیلات زر، محصولات کے ٹارگٹس اور ٹیکس نیٹ میں کئی گنا اضافہ ھو چکا ھے، جو ایک اہم کام ہے، اگر ملکی پیدواری صلاحیت، صنعت اور زراعت کو اسی طرح ترقی ملتی رہی تو آپ آئندہ سالوں میں مختلف نقشہ دیکھیں گے، آج ویتنام جو جنگ سے تباہ حال ملک تھا، صرف جوتے، ٹیکسٹائل، اور ٹورزم سے ترقی کرتا ہوا کئی گنا آگے نکل چکا ہے، مگر ھم قرض لینے اور درآمدات پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے آپ اپنی تباہی کا باعث بنے ہیں، اس سوال کا جواب کیا پیپلز پارٹی،میاں برادران، امر حکمران یا کوئی اور جواب دے گا؟  ملک سلامتی پر ایک دوسرے کو سیکورٹی رسک تو قرار دیا جاتا ہے مگر آزادی پالیساں بنانے کے کیا اقدامات کیے گئے؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا،
آج وزیراعظم نے قومی سلامتی پالیسی کا اجراء کیا ھے تو اس کے پیچھے عسکری اور سول حکومت کا اہم کارنامہ اور طویل ھوم ورک ھے، اسٹیٹ بینک کی آزادی پر سوال اٹھانے والے یہ سوچیں اس سے قرض لے لے کر آپ نے ہر چیز ڈی ویلیو کی ھے، موجودہ حکومت نے اڑھائی سال میں اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا، اور اب اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کے بعد کوئی قرض لے بھی نہیں سکے گا، باقی سیاستدانوں کو یہی بات تکلیف دے رہی ہے، بس سنتے جاؤ اور شرماتے جاؤ، قومی سلامتی پالیسی کو معیشت ضمانت فراہم کرتی ہے یہ بات درست ہے ، اس کے لیے برآمدات، سرمایہ کاری، تجارت اور تعلیم و زراعت کو آگے لے جانا ھو گا، دوسرا کوئی بھی راستہ نہیں ھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :