مولانا ”اِن ایکشن“

پیر 11 نومبر 2019

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ٰٓایک طرف اسموگ نے لاہوریوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے تو دوسری طرف پورے پاکستان میں ڈینگی کے وار جاری۔ اِس پر مستزاد مولانا فضل الرحمٰن”ھٰذا من فضلِ رَبی“ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اسلام آباد پر قبضے کی تیاریوں میں۔ حکمران بیچارے حیران وپریشان کہ” پنبہ کجا کجا نہم“۔ مولانا دوٹوک کہ استعفےٰ دو، گھر جاوٴ، ہمیں بے مقصد مذاکرات کی ضرورت نہیں۔

اُنہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ”کچھ بھی ہو جائے استعفےٰ لیے بغیر نہیں جائیں گے۔ ہمارا مطالبہ دو سے تین ماہ میں شفاف الیکشن ہیں۔ سینٹ الیکشن سے سیکھ لیا کہ تحریکِ عدم اعتماد کا کوئی فائدہ نہیں۔ مذاکرات نہیں ہو رہے، حکومت کے ساتھ ٹائم پاس کیا جا رہا ہے۔ ہم گولیاں کھائیں گے، شہادتیں حاصل کریں گے، لاشیں اٹھائیں گے مگر استعفےٰ لیے بغیر نہیں جائیں گے“۔

(جاری ہے)

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ”تیلی پہلوان“ نے بھی کہہ دیا کہ حکومت بھی ”ٹائم پاس“ کر رہی ہے۔ عرض ہے کہ خربوزہ چھری پہ گرے یا چھری خربوزے پر، نقصان بیچارے خربوزے کا۔ یہ ٹائم پاس کرتے رہیں، قوم جائے بھاڑ میں۔ 
موولانا اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گالیکن یہ طے کہ اُنہوں نے حکومت کو ”وَخت“ میں ڈال دیا ہے۔

وہ کپتان جو اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانے کے روادار بھی نہیں تھے، اُنہوں نے جمعرات کو تحریکِ انصاف کی پارلیمانی پارٹی کی صدارت کرتے ہوئے ارکانِ اسمبلی کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ دھرنے کا معاملہ افہام وتفہیم سے حل ہو جائے گا، آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔ شاید وزیرِاعظم کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو کہ مولانا طوفانِ بلاخیز کے ہمراہ اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔

جب ایسا ہو چکا تو پھر اُنہیں افہام وتفہیم کی یاد آئی۔ ”فٹافٹ“ مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور وزیروں، مشیروں کو دھرنے پر زبان کھولنے سے بھی منع کر دیا گیا لیکن ”وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نے“ کے مصداق جن کی زبانیں گز بھر کی ہو چکی ہوں، وہ بھلا کب باز آتے ہیں۔ شیخ رشید، فیصل واوڈا، مراد سعید،فیاض چوہان اور ماسی مصیبتے جیسے لوگوں کی موجودگی میں مذاکرات کی نیّا ڈوب تو سکتی ہے، پار نہیں لگ سکتی۔

اب تو یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے وزیرِاعظم کی گرفت صرف اپنوں ہی نہیں، اتحادیوں پر بھی کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ 
تحریکِ انصاف کے اتحادی پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے کہا ”مولانا ٹھیک کہتے ہیں کہ بغیر پاسپورٹ سکھوں کو پاکستان نہ آنے دیں“۔ گھاگ سیاستدان اور کہنہ مشق پارلیمنٹیرین چودھری پرویز الٰہی کا یہ بیان بالکل درست۔

سوچنے والی بات مگر یہ کہ چودھری برادران تو ہمیشہ ”مٹی پاوٴ“ سیاست کرتے ہوئے اپنا اُلو سیدھا کرنے کی سیاست کے قائل ہیں، اِسی لیے وہ آمر پرویز مشرف کے ساتھی رہے اور پیپلزپارٹی کی حکومت کا بھی حصّہ۔ پھر جب تحریکِ انصاف کی حکومت آئی تو چھلانگ لگا کر اُس کے اتحادی بن بیٹھے لیکن اب ایسا بیان کیوں دے ڈالا جسے وزیرِاعظم کبھی پسند نہیں کر سکتے۔

شاید تحریکِ انصاف کے اُکھڑتے پاوٴں دیکھ کر چودھری برادران اپنی راہیں بدلنے کی تگ ودَو میں ہوں کیونکہ جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے چوہے ہی چھلانگیں لگاتے ہیں۔ 
چودھری برادران کو تو رکھئیے ایک طرف، یہاں تو عالم یہ کہ وزراء بھی حکومتی پالیسیوں کے برعکس بیان دینے لگے۔وفاقی وزیر غلام سرور خاں نے ڈیل کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کا بیمار ہونا، ہسپتال داخل ہونا اور بالآخر گھر منتقل ہونا، سب ڈیل کا نتیجہ ہے۔

غلام سرور خاں کے اِس بیان پرسوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈیل کی کس نے؟۔ اگر وزیرِاعظم اِس ڈیل میں ملوث ہیں تو یہ ایسا بے مثل یوٹرن ہے جس کی نظیر نا ممکن کیونکہ جب حکومت کی جانب سے قائم کردہ پانچ میڈیکل بورڈز کی متفقہ رائے تھی کہ میاں نوازشریف کی حالت مخدوش ہے تب وزیرِاعظم واشنگٹن کے جلسہٴ عام میں فرما رہے تھے کہ وہ پاکستان لوٹتے ہی میاں نوازشریف سے اے سی اور ٹی وی کی سہولت واپس لے لیں گے۔

حکومتی وزراء کی دراز زبانیں یہ کہہ رہی تھیں کہ میاں صاحب کی بیماری کا سبب گھر سے آنے والا کھانا ہے۔ نیب آفس سے ہسپتال آمد کے موقعے پر ”ماسی مصیبتے“کومیاں صاحب ہشاش بشاش نظر آئے۔ ڈاکٹر تو ہمیشہ رحمدل ہوتا ہے لیکن شاید ماسی مصیبتے کے پاس ”بابر اعوان مارکہ“ ڈگری ہے۔ اِسی لیے انتہائی مخدوش صحت کے باوجود اُس کو میاں صاحب ہشاش بشاش نظر آئے۔

اب حکومت کی طرف سے میاں صاحب کا نام ای سی ایل سے بھی نکال دیا گیا ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ حکومتی کایا کلپ کیسے ہو ئی۔ اگر یہ ڈیل، ڈھیل یا این آر او کا نتیجہ ہے تو پھر عدلیہ کو بھی اِس کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ لاہور ہائیکورٹ نے ہی میاں نوازشریف کو نہ صرف طبی بنیادوں پر ضمانت دی بلکہ ملک یا ملک سے باہر کہیں بھی علاج کروانے کی اجازت بھی دی۔

ڈیل یا ڈھیل کی بات کرنے والے جس غیرمحسوس طریقے سے عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اُس کا نوٹس لینا ضروری ہے۔
 مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں مشہور ہے کہ سیاست میں اُن کا ہر قدم نپا تُلا ہوتا ہے۔ وہ کچی زمین پر پاوٴں دھرنے کے سرے سے قائل ہی نہیں۔ آجکل وہ ”اِن ایکشن“ ہیں۔ جب وزیرِاعظم نے کہا کہ فوج اُن کی پشت پر ہے تو مولانا نے فوراََ اِس کا نوٹس لیا جس پر فوج کو وضاحت دینی پڑی کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

پاک فوج کے ترجمان نے کہاکہ مولانافضل الرحمٰن کا آزادی مارچ یا دھرنا سیاسی سرگرمی ہے جس کا پاک فوج سے کوئی تعلق نہیں۔ آئی ایس پی آر کے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ فوج آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ہر حکومت کے احکامات کی پابند ہوتی ہے۔ 2014ء کے دھرنے میں بھی فوج حکومت کے ساتھ تھی۔ حکومت کے ماتحت ادارے کی حیثیت سے بَرسرِاقتدارحکومت کا ساتھ دینا اور اُس کے احکامات کی پابندی کرنا فوج کی ذمہ داری ہے۔

اِس لیے سیاسی معاملات میں اُس کا نام لیا جانا مناسب نہیں۔ میجر جنرل صاحب کی اِس وضاحت کے بعد یہ بیان بازی بند ہو جانی چاہیے کہ فوج حکومت کی پشت پر ہے۔ حقیقت یہی کہ فوج ریاست کے ساتھ ہوتی ہے، کسی حکمران کے ساتھ نہیں۔ اگر ماضی میں کچھ طالع آزماوٴں کی وجہ سے فوج کا سیاست میں ملوث ہو جانے کا تاثر اُبھرا تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فوج ہمیشہ سیاست میں ملوث ہوتی ہے۔

اِس لیے حکومت یا اپوزیشن میں سے کسی کو بھی یہ تاثر ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ افواجِ پاکستان کسی بھی طور پر سیاست میں ملوث ہیں۔ جذبہٴ شوقِ شہادت سے سرشار پاک فوج کے جرّی جوانوں کی لازوال قربانیوں کی ایک طویل تاریخ ہے اور آج بھی وہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے سدِ سکندری بنے ہوئے ہیں۔ افواجِ پاکستان سے قوم کا الفت و محبت کا یہ جذبہ اٹوٹ ہے جس میں کوئی ”طالع آزما“ آج تک دراڑ نہیں ڈال سکا۔

حکمرانوں کو بھی ایک صفحے، ایک صفحے کی رَٹ ختم کر دینی چاہیے کیونکہ فوج تو بلاشبہ ہمیشہ ایک صفحے پر ہی ہوتی ہے اور وہ صفحہ ملکی، جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے جو خونِ شہیداں سے لہو رنگ ہو چکا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی پاک فوج کے ترجمان کے اِس وضاحتی بیان کو سراہا۔
 آزادی مارچ کے شرکاء کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ تین ماہ کے اندر نئے انتخابات کروائے جائیں جس میں فوج کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔

اِس حوالے سے ترجمان کا کہنا تھا کہ فوج نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر انتخابات میں ڈیوٹی دی۔ آرمی چیف ایسے انتخابی طریقِ کار کے خواہاں ہیں جس میں فوج کا عمل دخل کم سے کم ہو۔ گویا مولانا کے چار مطالبات میں سے ایک مطالبے کی وضاحت تو فوج نے خود کر دی۔ مولانا کا اوّلین مطالبہ تو وزیرِاعظم کا استعفےٰ ہے۔ اُن کے خیال میں عمران نیازی ”زورآوروں“ کی مدد سے اقتدار میں آئے۔

وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ انتخابی نتائج پر مشتمل فارم 45 پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط نہیں تھے جبکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت پولنگ ایجنٹس کے دستخطوں کے بغیر کسی نتیجے کی کوئی قانونی حیثیت ہے نہ آئینی۔ اپوزیشن کی دیگر تمام جماعتوں نے بھی یہی الزام لگایا تھا کہ نتائج پولنگ ایجنٹس کی عدم موجودگی میں ترتیب دیئے گئے۔

مولانا صاحب تو ابتداء ہی میں اسمبلیوں کا حلف نہ اُٹھانے کے قائل تھے لیکن اپوزیشن کی دیگر جماعتوں، خصوصاََ پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کے کہنے پر وہ حلف اٹھانے کو تیار ہوئے۔ الیکشن میں دھاندلی کے معاملے پر پرویزخٹک کی سربراہی میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی لیکن ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اُس پارلیمانی کمیٹی کا ایک اجلاس بھی منعقد نہ ہو سکا۔

اِس لیے اگر مولانا اپنے لاوٴ لشکر کے ساتھ اسلام آباد آن پہنچے تو اُنہوں نے کچھ غلط بھی نہیں کیاکہ برسرِ اقتدار جماعت یہی بہانہ بنا کر ڈی چوک اسلام آباد میں 126 روز تک دھرنا دیئے بیٹھی رہی۔ اب مولانا ”اِن ایکشن“ ہیں اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اُن کے ساتھ۔ جماعتِ اسلامی اگرچہ آزادی مارچ میں شریک نہیں لیکن اُس کی اخلاقی حمایت مولانا کے ساتھ۔ مولانا کا یہ عزمِ صمیم کہ وہ اپنے مطالبات کی تکمیل تک دھرنے سے نہیں اُٹھیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کِس کروٹ بیٹھتا ہے لیکن یہ طے کہ حکومت کمزور ہوچکی۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :