بھول بھلیاں اور سوچنے کی بات!

اتوار 10 مئی 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

تحریک انصاف کی حکومت اس قدر جلدی ناکام ہوگی،ان ووٹروں اور حمائتیوں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا جو خواب وخیال کے گھوڑوں پر سوارانجانے آسمانوں کی سیر کررہے تھے۔ پھر ان ”خیالی گھڑسواروں“کیلئے مزید ذہنی دھچکے کی بات ہے کہ انکا سوہنا،من موہنا ،(انکی دانست میں)ہیرو لیڈرعمران خاں‘ اکثریت کیلئے ایک ڈراؤنا عفریت بن چکا ہے۔

    ہمارے لئے تو اسکی کامیابی حیران کن ہوتی کیونکہ جن نظریات اورنظام کے تحت عمران خان سیاسی میدان میں کودے تھے اس میں کامیابی کا ایک فیصد بھی امکان نا تھا اور نا ہے۔ اس لئے ہمارے لئے تو کبھی بھی ’ تحریک انصاف‘ کی حکومت کی ناکامی ناتوحیران کن تھی اور نا ہی کسی اچنبے کا باعث ۔مگر ہمارے لئے بھی ایک حیران کن امر جس کا قبل ازیں اندازہ لگانا مشکل تھا وہ عمران خان کی کمال کی بے گانگی،لاپرواہی،سنجیدہ اورسنگین معاملات پر کرسی پر لاپرواہی سے جھولتے رہنا ہے۔

(جاری ہے)

ان کو دیکھ کررئیس زادوں کے بگڑے بچے ذہن میں آجاتے ہیں جو مذاق مذاق میں خوفناک نتائج پر مبنی تجربات کرکے پسماندگان کو ہمیشہ کیلئے برباد کرجاتے ہیں۔    پاکستان میں اس وقت کوئی بھی سنجیدہ شخص موجود نہیں ہے جس کی اب بھی عمران خاں حکومت سے کوئی مثبت امید وابستہ ہو۔پچھلے 21مہینوں میں عمران حکومت کسی بھی میدان میں اپنی اہلیت ثابت نہیں کرسکی۔


حتہ کہ انکی یک طرفہ انتقامی سیاست اور صرف اپوزیشن کو ہی نیب یا دیگر ریاستی اداروں کے ذریعہ نشانہ بنانیکے ہتھکنڈے بھی کسی انجام پر پہنچے بغیر اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہیں۔     عمران خاں نے عمومی سیاسی نعرہ بازی کو اپنی سیاست کی بنیاد بنا کر ”احتساب“ اور ”قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ“ کرنے والوں سے وصولی اورانکو قرارواقعی سزاکے نعرے مارے تھے۔

انکا دوسرا نعرہ شفاف حکومت کا تھا، تیسرا عزم اچھی حکمرانی کا تھا،انکا خیال تھا کہ ساری خرابی حکمرانی میں ہے ورنہ نظام تو ٹھیک ہے، چوتھا اصول انصاف کے نظام کو تمام خامیوں سے مبرا کرنے کا تھا،وہ مہنگائی کے ذمہ دار‘بطورخاص عالمی مارکیٹ کی نسبت ملک میں اشیاء ضرورت کی نرخوں میں مناسبت ناہونے کے ذمہ دار حکمرانوں کوسمجھتے تھے، انکے خیال میں اگر حکمران خود ٹھیک ہو تو سارا نظام ٹھیک ہوجاتا ہے، وہ ٹیکس ایمنسٹی کو گناہ کبیرہ سمجھتے تھے ،انکے خیال میں ان سکمیوں سے ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے لہذا انکا عزم تھا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور ٹیکس وصول کریں گے،کیس طور بھی ٹیکس ایمنسٹی کا چوردروازہ نہیں کھول کر کالے دھن کو سفید نہیں ہونے دیں گے۔

عمران خان کا دعوی تھا کہ وہ نئے اور نظریاتی نوجوانوں کو سیاست میں متعارف کرائیں گے ،لوٹوں اور الیکٹ ایبلز کو ساتھ نہیں ملائیں گے۔ وہ پارٹی انتخابات کے قائل تھے، انکے خیال میں پارٹی کی تمام باڈیز منتخب ہونی چاہئے۔ وہ میرٹ کی باتیں کیا کرتے تھے۔ عمران خاں کے خیال میں قرضے لوٹ کھسوٹ کے نظریات کی غمازی کرتے ہیں، بطور خاص بیرونی قرضے وغیرہ وغیرہ    ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اب دیکھیں تو سارا منظر ہی الٹ ہے۔نظریاتیوں(ویسے انکا ظریہ کیا ہے خود ان کو بھی معلوم نہیں ہوگا)کی جگہ پر رسوائے زمانہ لوٹے لے چکے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جو ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں ، ان حکومتوں کی ناکامیوں اور بدعنوانیوں کے حصہ داربھی تھے۔ عمران حکومت پچھلی اکتہر سالہ تاریخ میں (15ماہ کی حکومت میں )سب سے زیادہ (گزشتہ قرضوں کی واپسی سے تقریباََ ڈبل)قرضے لینے والی حکومت بن چکی ہے۔

ہر روز حکومتی وزراء، مشیروں اور عمران خان کے قریبی ساتھیوں کی چوربازاری، حکومتی اختیار ات کے استعمال کی بنا پر ناجائیز فائیدے حاصل کرنیکے اسکینڈلز آتے ہیں اور پھر بڑی عیاری سے دبادیئے جاتے ہیں۔ آٹے اور چینی کے اسکینڈل کو ٹیکنکل ڈیل کرکے سردست غائب کردیا گیا ہے کیونکہ اس میں خسروبختیاراسکا چھوٹا بھائی،وزیر خزانہ پنجاب ہاشم جواں بخت اور جہانگیر ترین کے نام آرہے تھے۔

آئی پی پیز انکوائری روک دی گئی ہے کیونکہ اس میں رزاق داؤ د اور ندیم بابر کے نام آرہے تھے۔بابر اعوان کو نہلادھلا کر پاک صاف کرکے پارلیمانی آفیرزکامشیر بنا دیا گیا ہے۔ عدالتی نوٹس پر اعظم خاں سواتی کوہٹایا گیا تھا‘ اب پھر سے لگا دیا گیا ہے۔جن جن پر الزامات لگائے جاتے تھے ان میں سے ایک پر بھی کچھ ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ الٹ کام ہوگیا جو جیلوں میں تھے ان کو نامعلوم ڈیلز کے تحت چھوڑدیا گیا ہے۔

مخالف سیاسی راہنماؤں کو انکے اصل جرائم میں پکڑنے کی بجائے کسی پر جعلی منشیات کی برآمدی کا کیس ڈالاجاتا ہے،کسی کو کئی ماہ تک بغیر کسی الزام کے قید میں رکھا جاتا ہے۔گویا اگر کسی نے کرپشن کی ہے تو اسکی بجائے احتساب کو ہی ڈرامہ بنا کررکھ دیا گیا ہے۔ نواز شریف کے پاس 1980-90میں بے پناہ دولت کہاں سے آئی؟ ایک فیکٹری سے چالیس ادارے کیسے بن گئے؟ نجکاری کے ذریعے اپنے اپنے فرنٹ مینوں کواربوں روپے نہیں اربوں ڈالروں کے فوائد کس کس نے دلوائے؟ان شعبوں میں کرپشن اور بدعنوانوں کو پکڑنے کی بجائے ہوا میں لاٹھیاں برسائی جارہی ہیں۔

اب تک دودفعہ ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں دی جاچکی ہیں مگر اس حکومت کو ابھی دوسال مکمل نہیں ہوئے،اور سکیمیں بھی آسکتی ہیں۔ پارٹی میں الیکشن والا سلسلہ اپنے آغازمیں ہی اپنی موت مرگیاتھا۔ پارٹی فارن فنڈز پر عمراں خان سٹے آرڈر پے سٹے آرڈر لیکر جہاں قانونی آپشن کا استعمال بروئے لارہے ہیں وہیں دال میں سب ہی کالا ہے کا ثبوت بھی پیش کررہے ہیں۔

ساتھ ہی جسٹس وجیہہ الدین کو بھی ساتھ لے ڈوبا۔ حامد خان وغیر کو زعم تھا کہ خان اپنے کہے پر عمل کریگا مگر ان کو ایسی ہی بات یاد کرانے پر چلتا کردیا گیا۔حکومت آئے 21مہینے ہوچکے ہیں الیکشن منشور میں بے بہا دعوے وعدے اپنی بازگشت کی نذرہوچکے ہیں۔کرونا وباء سے قبل ہی حکومت کا کروفر ختم ہوچکا تھا۔ انکی گودڑی سے جو معاشی نسخے برآمد ہوئے وہ بہت ہی فرسودہ اور ناکارہ ثابت ہوئے۔

بہت سے فارمولوں نے تو مردہ دلوں اور سخت گیروں کو بھی ہنسنے پر مجبورکردیا ، جیسے پرائم منسٹرہاؤس کی بھینسوں کی فروختگی، غیر ملکی مہمانوں کیلئے موجود بیش قیمت کاروں کی اونے پونے نیلامی، پرائم منسٹر ہاؤس کی دوکمروں کی انیکسی میں وزیر اعظم کی شفٹنگ وغیرہ۔ جن حکومتوں کی معاشی پالیسیوں کو عمران خان گالیاں دیتے رہے ہیں انہی حکومتوں کے ماہرین معاشیات سے اپنی حکومت کی پالیسیاں بنوا رہے ہیں۔

یہ حفیظ شیخ صاحب آخر کار کون ہیں ؟        اگر چہ کرونا وباء کی وجہ سے عالمی سطح پر بربادی اور ملک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کمزور معیشت کو شدید دھچکا لگ رہا ہے اور ہر دن اسکی شدت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔مگر ساتھ ہی حکومت کے پاس صرف کرونا وباء کا سہارا ہے،جس کی بنا پر اگرغیرملکی مدد مل گئی تو بہت بہتر ورنہ عوام کو تو بہکایا ہی جاسکتا ہے کہ ساری خرابی کرونا کی وجہ سے ہے۔

یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا؟کیا صرف چند ہزاریا چند لاکھ پراپگنڈہ مشنریوں کے ذریعے مخالفین پر لعن طعن کرکے عمران حکومت کی کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے؟ کیا سابقہ ناکام ، ناکارہ اور کرپٹ حکومتوں کے لتے لینے سے آگے بڑھنے کا راستہ مل سکتا ہے ؟کیا اس سے ملک ترقی کرسکتا ہے؟کیا یہ ملک ساری عمر نت نئی بھول بھلیوں کا ہی شکار رہے گا۔ کبھی ایک قسم کی بھول بھلیاں اور کبھی دوسری قسم کی۔

جہاں سے بھی سفر شروع کیا جاتا ہے ،پہنچتے پھر سے عقب میں ہیں۔گزری تمام حکومتیں پچھلی حکومتوں کے رونے روتی آتی ہیں، احتساب کی کسی نئی قسم کی بات کی جاتی ہے مگر اختتام بدعنوانی کی نئی داستانوں پر ہوتا ہے۔پھر کوئی نیا آجاتا ہے نئی بڑھکوں، نئے دھوکوں،نئے وعدوں اور پرانی تعبیر کے ساتھ‘ اپنے ساتھیوں کی جیبیں بھری جاتی ہیں اور عام لوگوں کی قسمتوں کو اور پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔

کیا یہی پاکستان کی کہانی ہے؟کیا کہانی یہی رہے گی یا کچھ بدلے گابھی؟ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کبھی وردی اور کبھی شیروانی بدل کرجس نظام پر حکمرانیاں کی جارہی ہیں،کیا اس میں بھی عام آدمی کی بہتری اور ترقی کی گنجائش موجود ہے یا پھر یہ نظام عام لوگوں کومحض دھوکہ دینے کیلئے ہے اور اسکا حقیقی اور حتمی مقصدحکمرانوں کے مختلف حصوں اورطبقہ امراء کی لوٹ مارکو جاری رکھنا ہے۔ یہی سوچنے کی بات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :