مسئلہ کشمیر اور عالمی قوتیں؟

منگل 4 فروری 2020

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

آج امت مسلمہ کے حالات جتنے نا گفتہ بہ ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں ہمارا علمی‘ فکری‘ اخلاقی‘معاشی‘اقتصادی اور سیاسی انحطاط انتہا کو پہنچ چکا ہے۔پوری دنیا مین جہاں بھی مسلمان اقلیت میں ہیں ان کی مراعات اور حقوق سلب ہو رہے ہیں یہاں تک کہ ان کی آوازکو مرئی و غیر مرئی ہتھکنڈوں کے ذریعے دبانے کی عملا کوشش کی جا رہی ہے۔امت مسلمہ کی بے حسی کہہ لیں یا پھر مسلم حکمرانوں کی کمزوری جس کے باعث آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی تحاریک کو کچلنے کے لئے صیہونی و دجالی قوتیں ایک صفحہ پر متحد نظر آ رہی ہیں اس کے باوجود دنیا کی ایک تہائی مسلمانوں کے حکمران اغیار کے مذموم عزائم کے ایجنڈا کی تکمیل کے لئے سربکف ہیں۔

یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو سدہارنے کی بجائے اغیار کے ہاتھوں مزید نفاق کا شکارہوتے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

پوری دنیا میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے ان حالات سے دنیا کی بالا دست قوتیں اور عالمی ادارے بخوبی آگاہ ہیں لیکن یہ عالمی حکمران اور ادارے بیانات سے آگے کی حدیں عبور نہیں کر رہے انسانی بنیادی حقوق کی تنظیمیں اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنے سے قاصر ہیں۔

سوال اٹھتا ہے کہ ایسٹ تیمور‘جنوبی سوڈان‘لیبیا‘عراق اور شام کی بابت تو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نام پر سخت رویہ اپنایا جاتا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کی سنگیں صورتحال کے پیش نظر بھارتی قیادت کے دوہرے معیار پر عالمی ادارے حرکت میں نہیں آتے آئین ہند کی شق370کے خاتمے کے بعد جو مقبوضہ وادی میں صورتحال بن چکی ہے بھارت کی اپوزیشن سمیت سنجیدہ حلقوں کی جانب سے جس انداز میں مودی کے اس ہٹ دھرم فیصلے کی مذمت کی گئی اس تناظر میں کیا عالمی اداروں کا فرض نہیں بنتا کہ بھارتی قیادت کی باز پرس کی جائے۔

جمہوری و سیکولر بھارت کی دعویدار قیادت سے پوچھنا چاہیے کہ مقبوضہ وادی کے کشمیری رہنماؤں کو کیوں گرفتار کیا گیا‘مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرارداوں کے منافی دفعہ 144کے نفاذ کا کیا جواز ہے‘کیا مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا نفاذ غیر معمولی عمل نہیں اس وقت کشمیر میں صورتحال اسقدر سنگین ہو چکی ہے کہ آج کشمیر میں لاک ڈاؤن کو 85روز ہو گئے ہیں کشمیر کے لوگ گھروں میں محصور ہر کر رہ گئے پری پیڈ‘ایس ایم ایس اور انٹر نیٹ نظام تک معطل ہے مقبوضہ وادی کے چپے چپے پر انڈین فورسز تعینات ہیں اور اسی لاکھ کشمیریوں کے شب و روز اذیت سے دوچار ہیں۔

پورے بھات میں جس انداز میں انسانی بنیادی حقوق کی پامالی کیا جا رہاہے یہ عمل خود بھارت کی حکومت اور اس کی عوام کے لئے زہر قاتل بنتا جا رہا ہے بین الا اقوامی ادارے اسپیکٹیٹر انڈیکس کی سال 2019ء کی جو رپورٹ جاری کی بیس ممالک کی اس فہرست میں بھارت دنیا کا پانچواں خطرناک ملک قرار دیا گیا اس رپورٹ میں بھارت کے جن معاشرتی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ان میں بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں غاصبانہ قبضہ‘شق 370کا خاتمہ‘نیا شہریت ترمیمی قانون‘ہندو توا کی ترویج‘اقلیتوں کے حقوق غصب کرنا‘گائے کے نام پر قتل اور خواتین کو ہراساں کرنا شامل ہیں اور اس سے قبل ورلڈ انڈیکس نے بھارت کو غیر ملکی سیاحوں کے لئے خطرناک قرار دیا تھا۔

مسئلہ کشمیر قیام پاکستان سے اب تک بھارت اور پاکستان کے درمیان بدستور ملکیت کا تنازع بنا ہوا ہے اور اس مسئلہ پر دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں بھارت پورے مقبوضہ کشمیر پر حقائق کے بر عکس اپنی آمرانہ سوچ کی بنیاد پر ملکیت کا دعویدار ہے حالانکہ تقسیم ہند کے دوران جموں و کشمیر برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست تھی جس کی آبادی 95فیصد مسلمانوں پر مشتمل تھی لیکن بھارت صرف سکھ راجہ کی اس ریاست پر حکمرانی کی بنیاد پر اسے اپنا حصہ قرار دیتا ہے جبکہ تقسیم ہند کے وقت علاقوں کو مسلم اور ہند کی اکثریت کے پیش نظر دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کیا گیا۔

جب پاکستان اور ہندوستان کے مابین پہلی جنگ لڑی گئی تو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے دامن کی گرہ سے بندھ چکا تھاپاکستان کا روز اول سے ہی یہی مئوقف رہا کہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہو نا چاہیے تاکہ کشمیری رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود تعین کر سکیں لیکن بھارت ہٹ دھرمی کی خود ساختہ پالیسی پر گامزن ہے ۔

چین کی درخواست پر سلامتی کونسل کا بند کمرے میں دو بار اجلاس ہو چکا اور ان اجلاسوں میں دونوں ممالک پر زور دیا گیا کہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کیا جا ئے لیکن بھارت اس تنازع کو حل کرنے کے لئے بات چیت سے بھی انکاری ہے ان حالات میں اس مسئلہ کے حل کے لئے عالمی اداروں کا کردار ناگزیر ہو چکا ہے ۔عالمی اداروں اور بالا دست قوتوں کو یہ بات ازبر کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی قوتیں ہیں اگر ان دو ممالک کے درمیان جنگ ہوئی تو خطے میں بڑی تباہی ہو گی۔

وزیر اعظم عمران خان ایران اور امریکہ کی کشیدگی کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں پاکستان نے ہمیشہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری اور دوسروں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے بین الا اقوامی اصولوں پر مبنی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی جبکہ بھارت نے ہمیشہ خطے میں ایک نگران کی حیثیت سے چوہدراہٹ کی مذموم خواہش کے خواب کو عملی تعبیر دینے کے لئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات نہیں بنائے۔

مشرقی پاکستان کے سانحہ کے پس پردہ بھارت نے جو ریاستی دہشتگردی کا بھیانک کردار ادا کیا اس کی پوری تاریخ میں کوئی نظیر نہیں بھارت نے ہمیشہ پاکستان میں لسانی و گروہی اور فرقہ ورانہ آگ کو بھڑکایا اس کے باوجود پاکستان پر آئے روز در اندازی کے الزامات لگانے سے باز نہیں آتالیکن اس کے برعکس پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں ستر ہزار قربانیاں دے کر دنیا کو پر امن ملک ہونے کا ثبوت دیا۔

کشمیر میں ہونیوالے بھارتی مظالم کی منظر کشی سے بھی دنیا واقف ہے ۔کشمیری اس وقت احتجاج اور سول نافرمانی کی تحریک کا حصہ بنے ہوئے ہیں وہاں پر جو ظلم و بربریت کا بازار بھارت نے گرم کیا ہوا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔امریکہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش تو سامنے آرہی ہیں لیکن کوئی سنجیدہ عملی کوشش نظر نہیں آرہی جس سے اندازہ ہو سکے کہ امریکہ اس مسئلہ کا حل چاہتا ہے مسئلہ کشمیر پر بھی امریکہ دوہرے معیار کا شکار ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ امریکہ غیر محسوس انداز میں مسئلہ کشمیر پربھارت کے غیر آئینی اقدامات کی حمائت کر رہا ہے ایک جانب ٹرمپ ثالثی کی پیش کش کر رہا ہے دوسری جانب اسرائیل کے ساتھ مل کر ’(گریٹر ہندوستان“کی عملی تعبیر کے لئے کوشاں ہے۔

امریکہ اور دیگر عالمی قوتوں کے کے عمل سے عاری اس رویے کے باعث کشمیری بھارتی فوج کی بربریت کے سامنے جام شہادت نوش کر رہے ہیں اور بے حس دنیا فرعون صفت بھارت کے ہاتھوں کشمیریوں کے کچلنے کے مناظر دیکھ رہی ہے۔سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر ریشہ دوانیوں‘گٹھ جوڑ اور سازشوں کا شکار ہو چکاہے جس کا نتیجہ ہزاروں کشمیری مسلمانوں کی شہادت کے طور پر دنیا کے سامنے ہے‘بلتی کشمیری‘ ہندی‘ ڈوگری‘ پنجابی‘ پوٹھوہاری‘گوجری ‘لداخی بولنے والوں کی جنت نظیر وادی کو بھارت نے ایک کھلے قید خانے میں تبدیل کر دیا جو کشمیریوں سمیت پاکستان کوکسی صورت قبول نہیں۔خطے کی امن و سلامتی کے لئے دنیا کو سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کے حل کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :