روایتی سیاست اور حکومت!

پیر 26 اکتوبر 2020

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

آج سے دو سال قبل جب عمران خان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف نے انتخابی میدان میں کامیابی حاصل کی اور عمران خان نے بطور وزیراعظم زمام اقتدار سنبھال لیا تو کل کی حکمران اور آج کی اپوزیشن دو بڑی قومی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور تحریک انصاف کی کامیابی پر عوام کامینڈیٹ چرانے کا الزام لگا کر درپردہ اسٹیبلشمنٹ کو قصور وار ٹھہرانا شروع کر دیااور اسے ایک سلیکٹڈ وزیراعظم کا لقب دیا گیا۔

قومی اسمبلی کے فلور پر دو سال قبل بلاول بھٹو زرداری نے پہلے سیشن میں ہی وزیر اعظم عمران خان کو مبارکباد دیتے ہوئے”سلیکٹڈ پرائم منسٹر“ کہا اور یہ جملہ آج بھی وزیر اعظم عمران خان کا تعاقب کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کے سیاسی انتخابات کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجےئے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی تیس سالہ حکمرانی کا دور اقتدار ایسے ہی الزامات کا محور رہا ماضٰ میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر عوامی مینڈیٹ چرانے کا الزام لگاتی رہی ہیں اور جب تیسری سیاسی قوت تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو یہی آزمودہ سیاسی جماعتیں عمران خان کی حکمرانی کو ناجائز قرار دیتے ہوئیاپنے مفادات کے تحفظ اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے الزاماتی للکار اور احتجاج کا راستہ اپناتے ہوئے سر جوڑ چکی ہیں۔

حالات اسی طرح وقوع پذیر ہو رہے ہیں جیسے ساٹھ کی دہائی میں منتخب حکومتوں کے معزول ہونے سے پہلے ہوتے رہے ہیں ذوالفقار علی بھٹو‘نواز شریف اور بے نظیر حکومتوں کو بر خاست کرنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد قائم ہوئے لیکن آج فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کو ہی در پردہ قصور وار ٹھہرایا جاتا تھا لیکن آج کھلم کھلا ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ پیدا کر کے عوام کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ خطر ناک صورتحال ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے اور ملت کو اپنے مفادات کے تحفظ اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے پارہ پارہ کرنے کی جانب گامزن ہے اہل دانش خوب سمجھتے ہیں کہ یہ صرف مفادات کے تحفظ اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے ایک خطرناک سازش ہے۔

پی ڈی ایم جو کہ اپوزیشن کی گیارہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل حکومت مخالف سیاسی اتحاد ہے اس سے قبل بھی حکومت مخالف اتحاد قائم ہوئے لیکن ان اتحادوں کا اثر ان کی اپنی اپنی مفاداتی طرز سیاست نے زائل کر دیا مولانا فضل الرحمن نے پورے ملک میں حکومت مخالف ریلیاں نکالیں لیکن مولانا فضل الرحمن کی اس جدوجہد کو ان کی آپسی منافقت لے ڈوبی۔لیکن حالات وہی ہیں لیکن طریقہ مختلف حکومت اور مقتدر حلقوں پر پریشر بڑھا کر اندرون خانہ دوستی کے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور پاکستان کا معاشرہ خوب سمجھتا ہے کہ گوجرانوالہ جلسہ اور کراچی میں جوکچھ ہوا اس کے کیا مقاصد ہیں۔

گوجرانوالہ جلسہ میں لندن سے نشر ہونیوالی نواز شریف کی تقریر کو اس مفروضے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے راہیں جدا کر کے صلح جوئی کی کھڑکی کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا لیکن اعتزاز احسن نے ایک نجی چینل پر آکر اس مفروضہ کو قائم ہونے سے پہلے ہی زمین بوس کر دیاکہ کراچی جلسہ میں کسی نے نواز شریف کو تقریر کرنے سے نہیں روکا بلکہ راولپنڈی سے جانیوالی کال ان کی ہونیوالی تقریر میں رکاوٹ بنی اور اعتزاز احسن نے جیل میں ہونیوالی چھوٹے میاں کی ملاقاتوں کا احوال بھی ذو معنی الفاظ میں بیان کر دیا۔

گوجرانوالہ جلسہ میں نواز شریف نے جو تقریر کی اس سے سلیکٹڈڈ پرائم منسٹر والا نعرہ تو بے وقعت ہو گیا لیکن اپوزیشن کی نظر میں سلیکٹر یعنی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ پر کھلم کھلا سیاسی مداخلت کا الزام لگایا اس سے یہ اخذ تو کیا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کی جماعت کے اندر اس بات کو تو تقویت حاصل ہو چکی ہے کہ نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر عملی طور پرریاستی اداروں کے خلاف طبل جنگ بجا دیاہے لیکن میاں نواز شریف کو ازبر ہونا چاہیے کہ آج سے چھ برس قبل ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین کی پاک فوج کیخلاف ہرزہ سرائی کی تھی تو اس کے کیا نتائج سامنے آئے تھے نواز شریف کی اس تقریر کو حکومت کے سخت ناقدین نے بھی پزیرائی نہیں بخشی بلکہ جہاں سنجیدہ عوامی حلقوں نواز شریف کے فوج مخالف بیانیے کو یکسر مسترد کیا وہیں نواز شریف کی اس تقریر کو الطاف حسین کا پارٹ ٹو قرار دیا جس سے اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ عوام آج بھی جنگ 65ء جیسے جذبے کے ساتھ پاک فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی کشیدگی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آنیوالے حالات اس کا فیصلہ کرینگے لیکن مسائل کا ہمالیہ بھی حکومت اور عوام کے درمیان اضطرابی کیفیت کو واضح کرتا جا رہا ہے جو حکمرانوں کے لئے کسی طور بھی نیک شگون ثابت نہیں ہو سکتامسائل‘بحران در بحران اپوزیشن کو مزید تقویت دینے کا باعث بن رہے ہیں کرونا کے بعد کی صورتحال ابھی تک عوام کے لئے آفٹر شاکس کا سبب بنی ہوئی ہے لیکن اقتصادی صورتحال سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی اوپر سے عالمی مالیاتی اداروں سے لئے جانیوالے قرض در قرض نسل نو کے مستقبل کو مزید مخدوش بنا رہے ہیں۔

کوشش لازم ہے اور نتائج اللہ تعالی کے ہاتھ ہیں عمران خان جب سے اقتدار میں آئے تب سے اپوزیشن کو للکار رہے ہیں ملک میں آئین اور قانون کی موجودگی میں احتساب کے اداروں کو کام کرنے دیا جائے۔ وزیر اعظم جتنی توانیاں اپوزیشن کو لتاڑنے میں صڑف کر رہے ہیں اگر تندہی کے ساتھ عوام کے مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دیتے تو کم از کم عام آدمی کے کندھوں پر مسائل کے انبار دیکھنے کو نہ ملتے۔وقت کی نبض کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اپوزیشن کے دم خم میں جو گرما گرمی دیکھنے کو مل رہی ہے وہ عام آدمی کے وہ مسائل ہیں جو اپوزیشن اتحاد کو آکسیجن فراہم کر رہے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :