انسانی حقوق؟

جمعہ 25 جون 2021

Saif Awan

سیف اعوان

انسانی حقوق ہیں کیا؟آپ جیسے ہی یہ الفاظ کسی سے سنتے ہیں تو فورا آپ کی توجہ حکومت اور اس کے متحت اداروں کی طرف جاتی ہے۔بنیادی طور پر ریاست شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہے۔لیکن جب ریاست ہی انسانی حقوق کی پامالیاں شروع کردے تو پھر اس ریاست کا اللہ ہی حافظ ہے۔ظاہری طور پر شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا پولیس اور سیکیورٹی اداروں کا کام ہے۔

لیکن یہاں پولیس اہلکار سے لے کر وزیراعظم تک شہریوں کے حق پر ڈاکہ مار رہے ہیں۔چوک میں کھڑا پولیس اہلکار کسی بھی شریف شہری کو ہاتھ کھڑے کرکے تلاش دینے کا حکم دیتا ہے جبکہ ریاست کا سربراہ وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھا کوئٹہ کی معصوم اور کمسن بچیوں کو بلیک میلر کہتا ہے ۔
ویکیپیڈیا کے مطابق انسانی حقوق (Human rights) آزادی اور حقوق کا وہ نظریہ ہے جس کے تمام انسان یکساں طور پر حقدار ہیں۔

(جاری ہے)

اس نظریہ میں وہ تمام اجزاء شامل ہیں جس کے تحت کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسان یکساں طور پر بنیادی ضروریات اور سہولیات کے لحاظ سے حقوق کے حقدار ہیں۔آپ زرا اس ڈیڑھ لائن پر غور کریں اور فیصلہ خود کریں کہ پاکستان میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں ؟سب کو ترقی کے یکساں مواقعے میسر ہیں ؟کیا اظہارائے کی آزادی ہے یا قدغنیں ہیں؟کیا ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کررہی ہے ؟ان سب سوالوں کے جواب آپ کو بخوبی معلوم ہیں ۔

عمران خان خود کو ظاہری طور پرمصر کے سابق صد ر انور سادات کی طرح بہت مذہبی اور متقی کس کا حکمران ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔عمران خان کو بطو روزیراعظم اٹھائے تین سال مکمل ہونے والے ہیں ۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سال 2019کی رپورٹ کے مطابق سال 2019 سیاسی اختلاف رائے کو منظم طریقے سے دبانے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ 2019 میں پاکستان میں مرکزی میڈیا کی آزادی کو محدود کیا گیا اور اپوزیشن رہنماوٴں کے انٹرویوز نشر ہونے کے دوران ہی روک دیے گئے جب کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے قواعد بنائے گئے۔

حکومت نے آزاد اور تنقیدی آوازوں کو دبانے کا فیصلہ کیا اور 2019 کے دوران 'ڈان' جیسے بڑے اخبار سمیت جیو نیوز اورآج ٹی وی سمیت متعدد چینلز کی آوازوں کو دبایا گیا۔2019 میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور صحت اور تعلیمی اخراجات میں کٹوتی سے غریب افراد بری طرح متاثر ہوئے۔ملک میں غیرت کے نام پر قتل کی روایت کا سلسلہ 2019 میں بھی جاری رہا اور اس میں پنجاب سرفہرست رہا ہے، اس کے علاوہ ملک بھر کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود رہے جن کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا سلسلہ جاری ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اچھی کارکردگی نہ دکھانے کی باعث حکومت نے اپنی پہلی معاشی ٹیم کو جلد تبدیل کردیا اور ان کی جگہ پرانی حکومت میں شامل اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے منظور شدہ افراد کو لے لیا گیا۔
اسی طرح گزشتہ روز ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان نے پاکستان میں سال 2020کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی ۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے سال 2020میں 60صدارتی آرڈیننس جاری کیے ۔جس میں پارلیمانی طریق ہائے کار کو نظر انداز کیا گیا۔سال 2020میں عدلیہ میں 21لاکھ مقدمات زیر التواء تھے جو 2019میں یہ تعداد 18لاکھ تھی۔جبکہ سال 2020میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے طور طریقے بنیادی انسانی حقوق ،بشمول شفاف ٹرائل اور معین طریق کار کے حق،وقار،نقل و حرکت اور خلوت کی آزادی ، تجارت اور کاروبار کرنے کے حق کے منافی رہے۔

جبکہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نسواں مئی 2019سے غیر فعال ہے ۔اس کے نئے چیئر پرسن کا عہدہ نومبر 2019سے خالی ہے۔رپورٹ میں امن وامان کی صورتحال کے متعلق بتایا گیا کہ سال 2020کے دوران خود کش دھماکوں میں نمایاں کمی آئی لیکن ٹارگٹ کلنگ بڑھ گئی۔سال 2019میں 24حملے اور سال 2020میں 49واقعات پیش آئے۔پولیس اہلکاروں کو خاص کر پنجاب میں حراست میں ہلاکتوں سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مورد الزام ٹھہرایا گیا۔

سال 2020میں سندھ کے آئی جی کو سیکیورٹی ایجنسیوں نے اغواء کرلیا اور انہیں حزب اختلاف کے ایک سیاستدان کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنے پر مجبور کیا گیا۔اس سے اعلیٰ سطح پر پولیس پر ناجائز دباؤ کی عکاسی ہوتی ہے۔جبکہ بلوچستان میں غیر مسلح طالب علم حیات بلوچ کی ماورائے عدالت ہلاکت کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔جبری گمشدیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کے آغاز سے لے کر اب تک لاپتا افراد کی تعداد کے لحاظ سے خیبر پختونخواہ فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔

دسمبر 2020تک کے پی کے میں درج مقدمات کی کل تعداد 2,942رہی۔16جون 2020کو انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک کی جبری گمشدگی ہوئی پھر ان پر غداری کا الزام عائد کردیا گیا۔اسلام آباد میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو اغواء کیا گیا پھر 12گھنٹے حراست میں رکھ کر چھوڑ دیا۔رپورٹ میں سال 2020کے دوران اظہار رائے کے متعلق بتایا گیا کہ سال 2020میں 10صحافی جان سے گئے جبکہ کئی صحافیوں اغواء،حراست،دھمکیوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

زمین کے 34سال پرانے کیس میں جنگ میڈیا گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمن کو گرفتار کیا گیا۔بلوچستان میں صحافی انور کھیتران کو قتل کی گیا جبکہ ایکسپریس ٹربیون کے صحافی بلال فاروقی کو غداری کے الزام پر کئی گھنٹوں حراست میں رکھا۔عورتوں کے حوالے سے بتایا گیا کہ عالمی معاشی فورم کے جنسی تفارت کے عالمی گوشوارے میں 153ممالک کی فہرست میں پاکستان کا درجہ 151رہا۔

اسی سال بچوں سے جنسی زیادتی کے 2,960واقعات رپورٹ ہوئے۔جبکہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہے۔
دوسری جانب اگر رپورٹ سے ہٹ کر دیکھا جائے توسابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کے دور حکومت میں عمران خان نے پارلیمنٹ سے استعفے دیے اور پارلیمنٹ پر لعنت بھی بھیجی لیکن ان پر نوازشریف حکومت نے سینسر شپ نہیں لگائی جبکہ عمران خان سمیت ان کے ارکان اسمبلی نے دھرنے میں بیٹھ کر بھی 126دن کی قومی اسمبلی سے تنخواہیں وصول کی۔

آج عمران خان وزیر اعظم ہیں اور نوازشریف میڈیا پر مکمل سینسر ہیں ۔پیمراء نے متعدد مرتبہ مریم نواز کو بھی میڈیا سے سنسر کیا ۔جبکہ مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری کے چلتے انٹرویو سنسر کیے گئے۔کیا ان دو سالوں کی رپورٹ کے بعد آپ مطمئین ہیں کہ پاکستان میں ہر شہری آزاد ہیں ۔اس کا فیصلہ آپ خود با آسانی کرسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :