سعودیہ یمن جنگ اور نوازشریف

پیر 26 جولائی 2021

Saif Awan

سیف اعوان

شہزادہ محمد بن سلمان اپنے والد شاہ سلمان کے بادشاہ بننے کے کچھ ہی عرصے بعد خالد اترویجری کی جگہ چیف روئل کورٹ بن گئے۔جبکہ کراؤن پرنس شہزادہ مکرم تھے جوکہ ولی عہد بھی تھے ان کے بعد ڈپٹی کراؤن پرنس شہزادہ نائف تھے ۔شاہ سلمان کے بعد بادشاہ شہزادہ مکرم نے بننا تھا ۔محمد بن سلمان کا نمبر شہزادہ مکرم اور شہزادہ نائف کے بعد بھی نہیں آتا تھا کیونکہ ان سے پہلے بھی ابھی کئی شہزادے تھے۔

شاہ سلمان نے جیسے ہی بادشاہت کی گدی پر براجمان ہوئے تو انہوں نے ڈپٹی کراؤن پرنس شہزادہ نائف کو ایک حکم نامے کے تحت خاموشی سے عہدے سے ہٹادیا اور ان کی جگہ اپنے فیورٹ بیٹے محمد بن سلمان کو ڈپٹی کراؤ ن پرنس بنادیا۔پھر دو سال بعد شاہ سلمان نے اپنے ولی عہد شہزادہ مکرم کو بھی اچانک عہدے سے ہٹادیا ایک اورحکم نامے کے تحت انہوں نے محمد بن سلمان کو اب اپنا ولی عہد نامزد کردیا۔

(جاری ہے)

2015میں 29سالہ ایم بی ایس سعودی بادشاہ بننے کی کسی لسٹ میں نہیں تھا لیکن اب وہ ایک 82سالہ بادشاہ کا ولی عہد تھا ۔ایم بی ایس نے سعودی ولی عہد بنتے ہیں کچھ بولڈ قسم کے سٹیپ لیے جن کی وجہ سے وہ سعودی نوجوانوں اور خواتین میں مزید مقبول ہو گئے جیسے کہ انہوں نے سعویہ میں سینماگھر ،کسینو،خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے جیسے بڑے اقدامات اٹھائے ۔

ایم بی ایس کے ان اقدامات کو سعودی علماء نے ناپسندیدہ کیا لیکن ایم بی ایس نے سعودی معاشرے میں جدت اور نئی اصلاحات لانے کا مشن جاری رکھا۔اور ان کایہ مشن آج بھی جاری ہے۔ایم بی ایس نے اپنے اس نئی اصلاحات کے مشن کو ”ویژن 2030“کا نام دیا۔کچھ سعودی وزراء نے بھی بھی ایم بی ایس کے ویژن کی مخالفت کی لیکن اس کے باوجود ایم بی ایس اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

محمد بن سلمان نے بچپن میں جوویڈیو گیم کھیلی وہ اب پریکٹیکلی کھیلنا چاہتے تھے۔ایم بی ایس کے قریب یمن کا مسئلہ انتہائی تشویشناک تھا ۔وہ اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنا چاہتے تھے۔ایم بی ایس نے 26مارچ 2015کو تمام سعودی جنرلز کی ایک اہم میٹنگ بلائی۔میٹنگ میں پورا ایک گھنٹہ سعودی فوج کے جنرلز ایم بی ایس کو ایران،یمن اورخطے کی صورتحال کے متعلق بریفنگ دیتے رہے ۔

پھر اچانک ایم بی ایس بولے اور انہوں نے حکم دیا کہ یمن پر فوری طیاروں سے حملہ کردیا جائے۔یہ الفاظ سن کر تمام جنرلز ششدر رہ گئے۔یہ سعودیہ اور یمن کی باقاعدہ جنگ ہونے جارہی تھی۔اس جنگ میں سعودیہ کے ساتھ قطر،امارات،بحرین،مصر،سوڈان،کویت،اردن اور مراکش کی فورسز بھی شامل تھیں۔اس جنگ کے متعلق ایم بی ایس نے سعودی عوام کو بھی اعتماد میں نہیں لیا جبکہ سعودی میڈیا کو بادشاہی نظام نے خصوصی ہدایت نامہ جاری کردیا۔

پورا سعودی میڈیا جنگ کی خوبیاں بیان کرنے لگا۔سعودی میڈیا فوج اور ایم بی ایس کیلئے تعریفیں ویڈیو چلانے لگا۔اب یہاں سے انٹری ہوتی ہے پاکستان اور اس وقت کے وزیر اعظم محمد نوازشریف کی۔شاید آپ کو یاد ہوگا کہ سعودیہ یمن جنگ کے دوران پاکستان سے بھی سعودیہ نے اپنی فوج اس جنگ کیلئے بھیجنے کا کہا۔لیکن نوازشریف نے صاف انکار کردیا کہا اگرپارلیمنٹ اجازت دی گئی تو پاکستان کی فوج سعودیہ کے ساتھ ملکر جنگ لڑ سکتی ہے۔

پھر پاکستانی قوم نے دیکھا کہ پارلیمنٹ نے بھی یمن جنگ کیلئے اپنی فوج سعودیہ بھیجنے سے انکار کردیا ۔اس کیلئے نوازشریف حکومت نے باقاعدہ پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کی جس کی تحریک انصاف سمیت سب جماعتوں نے مخالفت کی۔پارلیمنٹ نے دونوں اسلامی ممالک کو معاملات بات جیت کے ذریعے حل کرنے کی تجویز دی۔پاکستان کا یہ جواب سعودی عرب کو بہت ناگوار گزرا۔

اس کے جواب میں یو اے ای نے کہا پاکستان کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی۔پھر سب نے دیکھا کہ اس فیصلے کے بعد نوازشریف بامشکل ڈیڑھ سال تک ہی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر رہے پھر ان کو ایک عدالتی حکم کے تحت عہدے سے ہٹادیا گیا۔اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے ریٹائرڈمنٹ کے صرف چار ماہ بعد ہی خاموشی سے سعودی اتحادی فوج کو جوائن کرلیا جس کے متعلق انہوں نے حکومت پاکستان سے اجازت بھی نہ لی۔

جب نوازشریف حکومت نے راحیل شریف کو باقاعدہ سرکاری اجازت نامہ نہ دیا تو سعودی عرب نے پھر نوازشریف حکومت پر دباؤ ڈالناشروع کردیا۔بعدازراں اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نجی ٹی وی پر دوران انٹرویو کہا کہ حکومت نے راحیل شریف کو اجازت دے دی ہے۔لیکن پھر بھی نوازشریف حکومت نے راحیل شریف کی سعودیہ میں نئی نوکری کیلئے این او سی جاری نہ کیا۔

بعد میں یہ راحیل شریف کو این او سی موجودہ حکومت کے وزیراعظم عمران خان نے جاری کیا۔یہ این او سی جاری کرنے کا بھی ایک عجیب انداز تھا کہ کابینہ کی میٹنگ کیلئے ہمیشہ ایک دن قبل ایجنڈا جاری کیا جاتا ہے لیکن ایجنڈے میں راحیل شریف کو این او سی کا اجراء شامل نہیں تھا پھر جب میٹنگ شروع ہوئی تو اس میں اچانک راحیل شریف کا این او سی بھی ایجنڈے میں شامل کردیا۔19جنوری 2019کو کابینہ کے اجلاس میں یہ این او سی جاری کیا گیا۔راحیل شریف کو سعودی اتحادی فورسز کا سربراہ بننے ایک سال آٹھ ہو چکے تھے اس کے بعد ان کو این او سی جاری کیا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :