آرمی چیف کی توسیع کے معاملہ پر عدالتی فیصلہ کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمانی سیاست میں بھر پور انداز میں متحرک ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔حکومت پارلیمان میں سادہ اکثریت باوجود آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2019ء کا مسودہ مشاورت سے تیار کرنے کی خواہشمند ہے۔
قومی اسمبلی کے 342کے ایوان میں حکومت کو 178ارکان کی حمایت حاصل ہے جن میں پی ٹی آئی کے 157ایم کیو ایم 7،مسلم لیگ ق5، بلوچستان عوامی پارٹی 5، جی ڈی اے 3، عوامی مسلم لیگ 1 جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل4، جمہوری وطن پارٹی 1اور ایک آزاد رکن کا اعتماد اور حمایت بھی حکومت کو حاصل ہے۔
حزب اختلاف 158ارکان پر مشتمل ہے جن میں مسلم لیگ ن 84پیپلز پارٹی 54متحدہ مجلس عمل16،آزاد3اور عوامی نیشل پارٹی 1رکن شامل ہے۔ سینیٹ میں حکومتی اتحاد کے40ووٹ ہیں اور اپوزیشن 64سینیٹرز پر مشتمل ہے۔
(جاری ہے)
چئیر مین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ نے اپوزیشن کی عددی بر تری کو غلط ثابت کر دکھایا تھا اس لئے سینیٹ کے بارے کوئی حتمی بات مناسب نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر اپوزیشن سے رابطوں کا آغاز رواں ہفتے سے ہو گا۔
حکومت کے اس فیصلہ کے ساتھ مسلم لیگ ن نے بھی آرمی چیف کے حوالہ سے قانون سازی کے معاملہ پر بھر پور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ زرائع کے مطابق ن لیگی قیادت پہلے اپنے لئے بارگین کرے گی پھر حکومتی وزراء اور وزیر اعظم کے لب و لہجہ درست رکھنے کی شرط سامنے آئے گی۔
عمران خان کی ڈیرھ سالہ دور اقتدار میں کبھی بھی ملکی معاملات پر سنجیدگی سے اپوزیشن کے تعاون پر غور ہی نہیں کیا گیا۔تحریک انصاف کا بیانیہ ہی یہ ہے کہ اپوزیشن کرپٹ ہے۔ اب سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو قرار دینے والے بیانیے کو بدلناہوگا۔ حکومت تواپوزیشن کو جیلوں میں ڈالنے اور رولانے کی باتیں فخریہ انداز میں کرتی آ رہی ہے ایسے تلخ سیاسی ماحول میں پارلیمانی سیاست اور اپوزیشن سے تعاون کی بات خوش آئند ہے۔
یہ فیصلہ ملکی سیاست میں مثبت تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان سے کنٹینر سیاست کا ختم ہونا از حد ضروری ہے۔ کردار کشی، الزامات سے آگے اب ملکی مفاد کی بات ہونی چاہئے۔ تبدیلی سرکار کے آنے کے ڈیرھ سال بعد سیاست میں یہ تبدیلی آئی کہ سزا یافتہ نواز شریف علاج کی غر ض سے بیرون ملک چلے گئے جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری علالت کے باوجود زیر حراست ہے۔
قوم نے ایک بار پھر دیکھ لیا پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی سیاست میں کتنا فرق ہے۔
پارلیمنٹ میں حکومت سے تعاون کی بات پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں نے کی جسے پی ٹی آئی کی طرف سے این آر او کی خواہش قرار دیکر رد کر دیا گیا۔ اب حکومت نے سمجھ لیا بیانات، الزامات کی سیاست زیادہ دیر نہیں چل سکتی اور مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
قومی ایشوز پر پارلیمنٹ میں بات کی جائے تو سب سے بہتر ہے۔
اپوزیشن مہنگائی اور دیگر مسائل پر اسمبلی میں آواز اٹھائے، یہ دھرنے، مارچ اور سڑکوں پر احتجاج اگرچہ غیر جمہوری نہیں مگر سب سے بہتر فورم پارلیمنٹ ہی ہے جو عوام نے اپنے مسائل کے حل کیلئے تشکیل دی۔ جب پارلیمنٹ نظر انداز ہو گی تو معاملات سڑکوں پر آئیں گے اور سیاسی مسائل بڑھیں گے۔عمران خان کے 126دن کے دھرنا سیاست کو پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کی حکومت کے ساتھ ملکر پارلیمنٹ کی طاقت سے کمزور کیا اور یہ احتجاج ختم ہوا۔
دھرنوں سڑکوں کو بلاک کرنے، اور سٹریٹ پاور کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کے مطالبے کسی طور پر تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔
پارلیمانی سیاست میں سیاسی نظریات اور انکی تکمیل کی کوشش اسمبلی ہی میں نظر آنی چاہیے۔ ادارے مضبوط ہوں گے تو حکومت مضبوط ہو گی جمہوریت مضبوط ہو گی۔پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے سے سیاست اور سیاستدان بے توقیر ہونگے اور ملکی فیصلے کسی اورجگہ پر ہی ہوں گے۔
پاکستان کے معاشی مسائل، خارجہ پالیسی جیسے اہم معاملات میں اپوزیشن کی مشاورت اور شمولیت ضروری ہے۔ قانون سازی اپوزیشن کے تعاون کے بغیر ممکن تو ہو سکتی ہے لیکن موثر نہیں۔ سیاست میں مفاہمت، مذاکرات، باہمی تعاون کا حصول اور اسکے لئے کوشش جمہوریت کا درس ہے یہ مک مکا نہیں ناممکن کو ممکن بناناہی سیاست ہے۔ سیاسی حکومتوں کو اگر عوام منتخب کریں تو باریاں کیسی۔
۔؟انتخابی سیاست کا مزاج اور تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں اور انقلابی سیاست کے کچھ اور۔ بد قسمتی سیپاکستان میں انتخابی سیاست کا ہی ماحول بنا رہتا ہے۔ جمہوری رویے اور پختہ سوچ نہ ہونے کی وجہ سے انقلابی سیاست ممکن ہی نہیں۔ نظریاتی سیاست بھی وقت کے ساتھ کمزور سے کمزور ہوتی گئی۔ سیاسی حکومتوں سے عوام جلد متنفر ہو جاتے ہیں کیونکہ حزب اقتدار اور اپوزیشن کوئی بھی واضح لائن پر نہیں چلتا صرف اور صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہماری سیاست میں اہم ہے۔
پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں فیصلہ کر لیں کہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنا ہے تو ہر جماعت اپنے پروگرام کے مطابق مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔ الغرض اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کو پہلے اہمیت نہیں دی۔ اب وہ بھر پور اندا ز میں پارلیمانی سیاست کرنا کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
اس لیے یہی کہنا مناسب ہے ''دیر آئے درست آئے''۔اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں ملکی معاشی مسائل کے حل کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ اور اسکے لیے حکومت کا رویہ سب اہم ہے کہ وہ کس حد تک اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔