''ہدایات،احکامات، سختی اور عملدرآمد''

ہفتہ 28 مارچ 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

کرونا وائرس سے پاکستان ہی نہیں تمام متاثرہ ممالک میں لاک ڈاون ہے۔ دنیا رک سی گئی ہے۔کرونا وائرس سے بچاوُکا واحد طریقہ خود کو گھروں تک محدود کرنا ہی ہے۔ پاکستان میں کرونا وائرس کے حوالہ سیصوبہ سندھ میں سب سے پہلے ہدایات جاری ہوئیں، پھر احکامات اور سختی اب عملدرآمد تک وزیر اعلی سندھ اور برسر اقتدار پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو سمیت سب سرگرم نظر آئے۔

جبکہ وفاق کی طرف سے مسلسل قابل افسوس رویہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ کسی بھی نتیجہ پر پہنچنے میں حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ کوئی فیصلہ نہیں ہورہا۔ دوسری طرف سعودی عرب نے مسجد نبوی خالی کروالی، طواف روک دیا ایسے اقدامات اٹھائے جس کو عام مسلمان آسانی سے قبول نہیں کرسکتا۔
تادم تحریر سعودیہ عرب میں کرونا کے 1104کیس سامنے آئے ہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ سعودی حکومت اقدامات ہی پہلے ہی لے چکی تھی۔

چین نے بھی لاک ڈاون پالیسی سے کرونا کے ملک بھر میں پھیلاو کو روکا۔کرونا وائرس کے حوالہ سے اسکے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ ہی نہیں۔انسانی جان سب سے قیتمی ہے۔ملک میں لاک ڈاون ہوا۔ جبکہ اس حوالہ سے قوم متحد نہیں، پہلے اس وائرس سے پھیلاو کو لے کر مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش ہوئی۔ تاحال ملکی سیاسی قیادت بھی ایک متفقہ پالیسی اپنانے میں ناکام ہے۔

سندھ سرکار نے سب سے پہلیبر وقت فیصلے کیے، وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے بہترین اقدامات اٹھائے۔لاک ڈاون، اپیلوں، ہدایات سے آگے حکومت سختی کرنے تک گء۔عام آدمیوں کو گرفتار کیا گیا۔مورخہ 27مارچ کو سندھ میں مزید سختی کا فیصلہ ہوا۔ میڈیکل سٹورز کے علاوہ دیگر تمام دکانوں کو شام 5بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔نماز جمعہ کی باجماعت ادائیگی اور نماز پنچگانہ کی ادایئگی پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا اور اس پر علمدرآمد بھی کروایا گیا۔

سندھ کے بعد پنجاب، ایجے کے، جی بی، بلوچستان اور کے پی میں بھی وہ تمام فیصلے کیے گئے جن پر سندھ میں عملدرآمدہورہا ہے۔اسلام آباد حکومت مسلسل تذبذب کا شکار ہے۔ سندھ حکومت کی کوششوں کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ وزیر اعظم بڑے پن کا مظاہرہ کرتے اور سندھ حکومت کی تعریف کرتے مگر وہ یہ بھی نہ کرسکے۔بین الاقوامی سطح پر وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کی صلاحیتوں کا برملا اعتراف ہوا۔

وطن عزیز میں اس مشکل گھڑی میں بھی سیاست جاری ہے۔اپوزیشن لیڈر طویل قیام کے بعد لندن سے وطن واپس آئے، امید تھی حکومت اپوزیشن باہم مشاورت کے بعد متفقہ پالیسی سامنے لائے گی۔شومئی قسمت شہباز شریف کی آمد کے ساتھ ہی انکے لیے آئین سے بالاتر اختیارات کی گونج سنائی دی۔سوشل میڈیا پر باقاعدہ ن لیگ کی طرف سے مہم شروع کردی گء۔ یہاں تک کے وزیر اعظم کے استعفیٰ کی باتیں، اور شہباز شریف کی بہترین انتظامی صلاحیتوں کے قصیدے پڑھے جانے لگے۔

شہباز شریف نے آتے ہی جو پالیسی بیان دیا جس سے کہ کرونا کا مقابلہ ہو سکے وہ میڈیا ہاوس کے مالک کی رہائی کی تجویزتھا۔قربان جاوں ایسی فہم وفراست پر۔۔۔حکومت پہلے ہی بہتر اقدامات کرنے سے گریزاں تھی۔ اس دوران شہباز شریف کی آمد، پاکستانی عوام کا اللہ ہی حافظ۔۔۔
سعودی عرب کی حکومت حج کو موقوف کرنے پر غور کررہی ہے۔پاکستان میں آج پہلی بار مساجد سے اعلان ہوا کہ نمازی گھروں پر نماز ادا کریں۔

اس تکلیف دہ صورتحال میں مسلم لیگ ن کے کچھ نادان دوست شہباز شریف کے غیر آئینی اقتدار کی خواہش پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر لکھتے ہیں کہ انھوں نے آتے ہی کمانڈ سنبھال لی۔غیر سنجیدہ سیاسی کارکن تو ایک طرف شہباز شریف خود آتے ہی حکومت کے ساتھ ویڈیو لنک اجلاس کا بائیکاٹ کر گئے۔
قارئین کرام! جمہوری معاشروں میں معاشرہ اصول پرست ہوتا ہے۔

جس میں شخصیتوں اور افراد پر اصولوں کو بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ لوگ اصولوں کے تابع ہوتے ہیں۔اصول پرستی سے ہی معاشرے میں ایسی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں جو ہر شعبے پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں۔ایک دوسرے کے احترام کا ماحول پیدا ہوتا ہے ریاست اور عوام کے درمیان تعاون نظر آتا ہے۔تمام امور باہمی گفت وشنید سے طے پاتے ہیں۔جہاں لوگوں کو حقوق حاصل ہوتے ہیں وہاں وہ ذمہ داریاں پوری کرنے کے پابند بھی ہوتے ہیں۔

بد قسمتی سے آج ہم گراوٹوں اور قباحتوں کا شکار ہیں۔منفی قوتوں کی بالادستی نے معاشرے کو مفلوج کردیا ہے۔قومی مفادات پر ذاتی مفادات بالادست ہیں۔ نفسانفسی،خود غرضی، مفادپرستی ہمیں آگے بڑھنے ہی نہیں دیتی۔ آج آزمائش کی گھڑی میں پہلے حکومتی ہدایات کو دین کی طاقت اور بھروسا پر نظر انداز کرنے کی کوششیں کی گیں۔ الحمدللہ مذہبی رہنماوں نے حکومت کی ہدایات کی بھرپور تائید کی۔

اب لاک ڈاون پر سختی کے نتیجہ میں جزوی عملدرآمد ہورہا ہے۔مسئلہ ہے تو سیاسی قیادت کے رویے، فیصلوں اور نیتوں کا، جس کی وجہ سے قوم متحد نہیں۔جمعہ کے روز وزیر اعظم عمران خان نے کہا موجودہ حالات میں قوم کو تقسیم کی بجائے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔کوئی نہیں کہہ سکتا دو ہفتہ بعد کیا ہوگا۔مجھ پر تنقید ہوتی ہے کہ مجھے لوگوں کی فکر نہیں حالانکہ مجھے ہی سب سے زیادہ فکر ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی نیت پر سوال نہیں مگر وہ تاثر کچھ اس طرح کا دے رہے ہیں کہ وہ لاک ڈاون، اور اس کے مسائل کو لے کر بہت فکر مند ہیں۔انھوں نے گرفتار لوگوں کی رہائی کی بات بھی کی۔ کیا ہی اچھا ہوتا وہ قومی پالیسی لاتے۔ سندھ حکومت کے ہر اقدام ہر فیصلہ کو تمام صوبے بالاخر اختیار کررہے ہیں۔ حقیقی طور پر وزیراعظم عمران خان لیڈ نہیں کر رہے مراد علی شاہ وزیر اعلی سندھ کرونا وائرس کے خلاف مہم کو لیڈ کر رہے ہیں۔

عمران خان قوم کا درد لیے گومگو کا شکار ہیں اور اپوزیشن لیڈر سیاست کرتے نظر آتے ہیں۔ آج پاکستان کے لیے کرونا بہت بڑا خطرہ ہے جبکہ عوامی رویہ بھی قابل تعریف نہیں حکومت جب تک سختی نہیں کرتی ہدایات پر عمل نہیں ہوتا۔پاکستان کے بہت سے مسائل سیاسی ہیں۔غربت،افلاس اور معاشرتی مسائل اس بے حسی کے ساتھ فوری حل نہیں ہوسکتے۔اب وقت کا تقاضہ ہے کرونا وائرس کے حوالہ سیبہتر پروگرام کے زریعے لوگوں کو قومی سوچ اور قومی دھارے سے منسلک کیا جائے۔

قومی وحدت سیجمہوری عمل کو مضبوط بنایا جائے۔سطحی سوچ وفکر، پسماندہ ذہنوں کو اعلی ارفع قومی جمہوری عمل سے منسلک کریں۔نیک مقاصد کے لیے امداد، وطن پرستی کا جذبہ تو قوم میں پہلے سیموجود ہے اس کو عمران خان اورشہباز شریف کی ذات سے الگ کر کے دیکھنا ہوگا۔آصف علی زرداری علیل ہیں وہ سب سے موزوں شخصیت تھے اس وقت سیاسی قیادت کو ایک نقطہ پر لاسکتے تھے۔

ایک اچھے معاملہ کار، اچھے مذاکرات کار، زیرک معاملہ فہم سیاست دان ہیں۔ انکی انہی خوبیوں کی بدولت آج انکی پارٹی نے سندھ میں تمام سیاسی پارٹیوں کو مشاورت کے لیے اکٹھاکرنے کے بعد فیصلے لیے اور ان پر سختی سے علمدرآمد بھی کروارہی ہے۔وفاق میں یکجہتی کے فقدان اور مشترکہ پالیسی کے سامنے لائے جاسکنے پر عمران خان ہی نہیں شہباز شریف بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔

اب وزیر اعظم صرف فکرمند ہی ہیں اور اپوزیشن لیڈر اقتدار کے خواہشمند۔شہباز شریف کی خوبیوں پر میرا اپنا نقطہ نظر ہے جو حقیقت پر مبنی ہے وہ مشکل حالات کا مسلسل حوصلے سے مقابلہ کرنے والے نہیں انکی صرف دو خوبیاں ہیں ایک کہ وہ میڈیا سٹار ہیں دوسرے وہ وقت کے وزیر اعظم کے بھائی تھے۔عثمان بزادر ایک اچھے انسان ہیں انکا موازنہ کر نا ہے تو شہباز شریف سینہیں غلام حیدر وائیں سے کریں۔

شہباز شریف کی سیاست ڈیلیور کرنے کی نہیں ڈیل کرنے کی ہے۔ انکی شہرت صرف نواز شریف کی وجہ سے ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔وزیر اعظم عمران خان کا اپنا نقطہ نظر ہے وہ مسلسل حوصلہ سے مقابلہ کرنے کے قائل ہیں۔آج وہ حالات سے پریشان ہیں مگر مشکلات صرف پریشانی سے ختم نہیں ہوتیں۔اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ہی سیاسی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر پاکستان کو اس آزمائش سے نکالا جا سکتا ہے۔ یہ وقت سیاست کا نہیں خدمت کا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :