غیرمعمولی فیصلے

منگل 7 اپریل 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں کرونا وائرس کے نتیجہ میں لاک ڈوان ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی رک سی گئی ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی فیصلہ سازی سے راقم الحروف بھی مطمئن نہیں تھا۔لاک ڈاؤن سے انکار کرتے کرتے سندھ سرکار کے ہر فیصلہ کو وفاقی حکومت سمیت تمام صوبوں نے اپنایا اوروزیر اعظم عمران خان خطابات ہی کرتے رہے۔

ایک متفقہ قومی پالیسی بھی نہیں بنائی جاسکی۔اسی دوران آٹا اور چینی بحران پر انکوائری رپورٹ سامنے آئی۔ مگراس دفعہ وزیر اعظم عمران خان نے فوری غیر معمولی فیصلے کیے۔ کابینہ میں ردوبدل ہوا۔وزیر اعظم کے ذاتی دوست جہانگیر ترین کا نام رپورٹ میں سرفہرست ہونے پر سوشل میڈیا پربحث شروع ہوگئی کہ اس سے پی ٹی آئی کی ساکھ کو نقصان ہوا یا فائدہ ہوگا۔

(جاری ہے)

۔۔؟ تجزیے، تبصرے، بیانات اور فرانزک رپورٹ کے انتظار کی بات کی گئی جو 25اپریل کو آنی ہے۔ اس سے قبل ہی پیر کے روز وفاقی کابینہ میں ردو بدل کیا گیا۔اس حوالہ سے مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے میڈیا بریفنگ میں کہا آج کی تبدیلی کا مقصد ہے کہ پاکستان میں کوئی مقدس گائے نہیں۔آج کی تبدیلی کا مقصد حکمرانی کو بہتر بنانا بھی ہے۔ وزیر اعظم شخصیات کی بجائے اداروں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

اپوزیشن نے تو اسی نقطہ پر بحث شروع کردی کہ رپورٹ لیک ہوئی ہے، حکومت نے شائع نہیں کی۔ کابینہ میں شامل وزراء سے باز پرس کی بجائے صرف ردوبدل ہوا ہے۔ جبکہ ذمہ داری کا تعین نہ باقی ہے۔حتمی رپورٹ 25اپریل کو آنی ہے اس سے قبل ہی کسی پر ذمہ داری ڈالنا مناسب اور انصاف کے تقاضہ کے مطابق نہیں۔ خسرو بختیار کی تنزلی مثبت مگر بابر اعوان اور اعظم سواتی کی کپتان کی ٹیم میں دوبارہ شمولیت پسندیدہ فیصلے نہیں۔


قارئین کرام! اپوزیشن کا حق ہے کہ وہ اپنا موقف جیسے چاہے پیش کرے۔ ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی سربراہی میں چھ رکنی انکوائری کمیشن نے انکشاف کیا کہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے قریبی عزیز نے اپنے ذاتی فائدہ کے لیے بحران سے فائدہ اٹھایا۔رپورٹ پر کسی قسم کا سوال نہیں، کمیشن کے سربراہ واجد ضیاء کا کام بھی قابل تعریف ہے۔نواز شریف کے خلاف قائم کردہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء آج مسلم لیگ ن کے لیے بھی قابل قبول ہیں۔

یہی مسلم لیگ ن کی سیاست کا کمال ہے۔جنرل ضیا ء الحق آئیڈیل،جنرل مشرف ناقابل قبول۔ آمریت سے جمہوریت کا سفر، ناانصافی سے انصاف کا حصول، بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔۔۔۔اب جہانگیر ترین رپورٹ کو ذاتی حملہ قرار دے رہے ہیں اور اسے سیاسی رپورٹ قرار دتیے ہیں۔میری ناقص رائے میں پی ٹی آئی کی حکومت نے غیر معمولی فیصلے کیے۔وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں کے علاوہ پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری نے بھی اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔

صوبائی بیوروکریسی میں بھی تبدیلیاں کی گئیں۔وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ'' اس رپورٹ کے نتائج سامنے آنے کے بعد کوئی بھی طاقتورگروہ عوامی مفادات کا خون کرکے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گا''۔ قابل ستائش ہے۔
عام آدمی توقع رکھتا ہے کہ اب کرپشن کو ختم کیا جائے گا۔تحریک انصاف قوانین اور آئین پر من وعن عمل کروائے گی۔سیاست کی بنیاد انسانیت پر ہوتی ہے خاص کر جمہوری سیاست میں۔


گزشتہ 72سالوں میں پاکستان میں برطانوی جمہوریت، بنیادی جمہوریت اور عوامی جمہوریت کے تجربات کئے جا چکے ہیں۔ آج بھی پارلیمانی جمہوریت قائم ہے۔مستحکم سیاسی نظام کے لیے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقادکے بغیر جمہوری عمل کے فروغ کا تصور ممکن ہی نہیں۔یہاں انتخابات تو ہوتے رہے مگرمتنازعہ۔آج ہمارے سیاسی نظام میں ذاتی اور علاقائی اثرورسوخ رکھنے والی طاقتور شخصیات جمہوریت کا نام لے کر قومی سیاست میں مصروف ہیں۔

ہماری تقدیر کے فیصلے اپنی ضرورت اور منطق کے مطابق کرتے آرہے ہیں۔حالانکہ آئین پاکستان تقاضا کرتا ہے کہ عوامی نمائندے پاکستانی معاشرت، معیشت اور سیاست کو عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے استوار کریں۔شومئی قسمت تمام شعبہ زندگی میں سرمایہ دار کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ہر جمہوری حکومت کی طرح اکثریت کی خوشنودی وزیر اعظم عمران خان کی مجبوری ہے۔

ہمارے سیاسی نظام میں خودغرضی اور لالچ کی موجودگی میں عمران خان کے جدید افکار ''نیا پاکستان'' خود احتسابی کی بات تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو سکتا ہے۔آج پی ٹی آئی کا کارکن خوش ہے کہ اگر جہانگیر ترین کا نام ذمہ داروں میں آتا ہے تو اس کا پارٹی دفاع نہیں کرے گی اور ان کے خلاف کاروائی ہوگی۔ماضی قریب میں سیاسی مباحث میں بنیادی مسائل اور زندہ حقیقتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔

یہی سیاسی شعور ہے کہ نئے پاکستان میں شخصی ترجیحات اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔انصاف کی پاسداری اور بالادستی پی ٹی آئی کی جدوجہد کا مقصد ہے۔اب قانون اور انصاف کے اطلاق سے ہی انسانیت اور پاکستان کی تعمیر و ترقی وابستہ ہے۔آج وزیر اعظم عمران خان کو فیصلہ کرنا ہی ہوگااور رپورٹ آنے پر عملدرآمد لازم ہے۔ دوسرا کوئی راستہ نہیں۔اگر ایکشن کو ٹالا جاتا ہے تو وزیر اعظم کے پاس کہنے کواس کے کچھ نہیں ہوگا۔بقول شاعر
سراپا راز ہوں میں کیا بتاوں کون ہوں کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :