سیاسی رویے،جمہوریت اور آئینی ترامیم

بدھ 13 مئی 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

72سالوں میں پاکستان میں بنیادی جمہوریت، عوامی جمہوریت، پارلیمانی جمہوریت اور مارشل لاء کے تجربات کیے جاچکے ہیں۔ہمارے ملک میں کوئی انقلاب آیا ہے نہ آئندہ اس کا کوئی امکان ہے۔مختصر طور پر لکھا جائے تو پاکستان کا قیام کروڑوں مسلمانوں کے ووٹ کے استعمال سے عمل میں آیا۔قائداعظم محمد علی جناح کی حیات افروز اور ولولہ انگیز قیادت نے ہماری رہنمائی کی۔

مگر مجھے یہ لکھنے میں کوئی تامل نہ ہے کہ وطن عزیز میں پارلیمانی جمہوریت ضرور قائم ہے، لیکن ملک سیاسی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔اسکی بنیادی وجہ سیاست دانوں کا غیر جمہوری رویہ ہے۔سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہے نہ عوام منشور کو ووٹ دیتے ہیں۔بہت معذرت کے ساتھ عقل، غوروفکر سے زیادہ جذبات کا عنصر غالب ہے۔
شخصیات طاقتور ہیں۔

(جاری ہے)

سیاسی جماعتیں کمزرو، جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔

یہاں تک کہ رہنماوں کے نام پر سیاسی جماعتیں قائم ہیں۔مسلم لیگ (ن) میاں نوازشریف کے نام پر، جمعیت علماء اسلام (ف) مولانافضل الرحمن کے نام سے منسوب ہے۔ موجودہ تحریک انصاف کی تشکیل بھی ماضی کی سیاسی روایات کے عین مطابق ہے۔ق لیگ، پی پی پی پنجاب سے الیکٹبلز عمران خان کی قیادت میں جمع ہوئے۔ اقتدار کی پارٹی اور معمولی اکثریت سے پی ٹی آئی کی کامیابی، یہ ہے ہماری سیاست اور جمہوری روایات۔

خواب اور حقیقت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔عمران خان اور انکے ووٹروں کو خوابوں کی دنیا سے باہر آنا ہوگا۔ پی پی پی اور پی ایم ایل ن اگر عوامی تواقعات کے مطابق ڈیلیور نہیں کرسکیں تو پی ٹی آئی بھی بہت جلد ایکسپوز ہوگی۔ملک اقتصادی اور سیاسی طور پر مستحکم نہیں۔کورونا وائرس کے پھیلاو نے معاملات مزید خراب کردیے ہیں۔
ہمیں ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے، جو کسی ایک سیاسی پارٹی کے بس کا کام نہیں۔

ملک مزید سیاسی رسہ کشی کا متحمل ہونے کے قابل نہیں۔تبدیلی کا راگ الاپنے والے قومی اتفاق رائے کی اہمیت کو سمجھیں۔اب صرف اپوزیشن کو لعن طعن سے کام نہیں چلے گا۔اپوزیشن کی حمایت میں دلیل دینے والے بھی اب ذرا سوچ لیں۔ووٹ کو عزت دینے کا بیانیہ رکھنے والی جماعت کے صدر میاں شہباز شریف نے 2018ء کے الیکشن سے قبل مقتدر حلقوں کے ساتھ رابطے اور کابینہ کی تشکیل کے حوالہ سے مشاورت تک کی بات کرکے جمہوریت کو رسوا کیا۔

ووٹ کو عزت دینے کے نعرے کا پول کھول دیا۔ہائے عوام کے دکھ اور اقتدار کے کھیل اور سیاسی کھلاڑی۔پاکستان میں جتنے بھی کھیل کھیلے گئے وہ اپنے اقتدار کے لیے کھیلے گئے۔کسی نے بھی ملک اور عوام کے لیے کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جس سے جمہوریت مستحکم ہو، عوامی مسائل کا حل ممکن ہو سکے۔ان سیاسی کھلاڑیوں کے انفرادی فوائد کی وجہ سے عوام کے دکھ بڑھتے گے۔

کاش اقتدار کی رسہ کشی کے یہ طاقتور کھلاڑی کبھی ایک دفعہ عوام کے مسائل اور جمہوریت کے لیے سوچ لیتے۔۔۔۔یہ چالبازیاں، سیاسی نعرے، مقصد صرف اقتدار، مخاطب عوام، منزل کا تعین جمہوریت کا استحکام۔
کاش اب پی ٹی آئی بھی ہنگامہ خیزی چھوڑ دے۔وہ سیاسی مخالفین پر محض کرپشن کے الزامات، جبکہ پالیسی سازی نہ ہونے کے برابر،لاک ڈاون کے دوران غریب عوام کی بات اور دوسرے ہی لمحے اسکی ضرورت پر زور، اگلے فقرہ میں لاک ڈاون اشرافیہ کا فیصلہ قرار دینا۔

ہائے یہ سیاست اور حل طلب عوامی مسائل۔کورونا سیاست کے دوران ہی18ویں ترامیم کے حوالہ سیسیاسی بیان بازی اور سندھ حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت کی محاذآرائی، یہ سب بے ثمر سیاسی عمل جاری ہیں۔
پاکستان میں آئین سازی کے حوالہ سے دستوری تاریخ پر نظر ڈالیں تو20اکتوبر 1972ء کو ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے سربراہ نئے آئین پر متفق ہوئے 2فروری 1973ء کو قومی اسمبلی میں پیش ہوا۔

10اپریل 1973ء کو منظور ہوا۔قومی اسمبلی کے128میں سے 125ارکان نے اسے منظور کیا۔شاہ احمد نورانی، محمود علی قصوری اور احمد رضا قصوری نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
پاکستان کا پہلا متفقہ اور دنیا کا واحددستور جو بیک وقت پارلیمانی، اسلامی اور جمہوری بھی ہو پاکستان میں نافذ العمل ہوا۔1973کے آئین میں ترامیم کا سلسلہ جاری رہا۔8اپریل 2010ء کو 342اراکین اسمبلی میں سے 292اراکین نے 18ویں ترمیم کو ووٹ کیا۔

اس ترمیم کے لیے دوسال تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی۔
18ویں ترمیم کے وقت اسمبلی میں موجود برسراقتدار پارٹی پی پی پی اور پی ایم ایل ن نے اتفاق رائے کیا۔ آج صورتحال مختلف ہے ہے۔ حکمران پارٹی پی ٹی آئی تو اپوزیشن پارٹیوں سے بات جیت پر بھی آمادہ نہیں۔ایسے سیاسی ماحول میں آئین میں ترمیم کی باتیں ناقابل فہم ہیں۔کورونا کے مسائل پر قابو پانے کے لیے متفقہ پالیسی سامنے نہ لاسکنے والی حکومت آئین میں ترمیم کی بات کرے تو یہ بات ضرور مدنظر رکھنی چائیے وقت بدلتے دیر نہیں لگتی-گو زرداری گو، گو نوازگو قبل اس کے گو عمران گو ہو،پی ٹی آئی کی قیادت خوابوں سے نکل کر حقیقت کی روشنی میں آجائے تو بہتر ہے۔

جمہوری طاقتیں جلد حقیقت کا ادراک کرلیں یہ پاکستان کے لیے ضروری ہے۔ورنہ دوسری صورت میں عمران خان اور انکی پارٹی کا مستقبل اندھیروں کی نذر ہو جائے گا۔ایسی سیاست جہاں اجتماعی فائدے کو نظر انداز کردیا جائے تو سیاستدانوں کو خود غرض کہا جائے یا انکے مقابلہ میں کسی دوسرے بے لوث اور مخلص راہبر کی حمایت کی جائے تو غلط کیا۔۔؟ جمہوریت کے نام پر جمہور کو دھوکہ اب مزید ایسا نہیں چلے گا۔

نوجوان لیڈر بلاول بھٹو کو یہی مشورہ ہے کہ اپنی سوچ اور افکار پر اعتماد کریں خواہ وقتی ناکامی ہو۔ پارٹی ماضی کی روایات کے مطابق سیاست کرتی رہے۔،18ویں ترمیم کے حوالہ سے یہ بات تو طے ہے آئین میں ترمیم حکومت کا حق ہے۔ مگر اس کے لیے حکومت کی طرف سے ہوم ورک ضروری ہے۔اتفاق رائے لازم ہے۔آئین میں ترمیم کو لے کر بیان بازی غیر ضروری سیاسی تلخی میں اضافہ کا باعث بنے گی حاصل جمع کچھ نہیں ہوگا۔

سیاست کے نام پر آخر کب تک یہ کھیل جاری رہے گا۔۔۔؟سوالات تو اٹھائے جاتے رہیں گے۔
کون کسے دھوکہ دے ریا ہے۔۔؟اس کا حتمی جواب یہی ہو سکتا ہے۔ یہ خودفریبی ہے، جمہوریت سے دھوکہ دہی ہے۔یہ اچھانہیں۔ عوامی مسائل اس طرز عمل سے کم نہیں ہو سکتے۔اب قومی اتفاق رائے بہت ضروری ہے۔یہ کرپشن کے قصے اور جمہوریت کے نعرے ہماری سیاست کو آگے نہیں بڑھاسکتے۔جمہور کی مرضی و منشا کے مطابق فیصلے ہی جمہوریت ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :